بیکاری کے ایّام میں فرصت نصیب ہوئی تو سوچا کسی یار ِ باوفا کا تذکرہ چھیڑکر گزشتہ سالوں میں مشکل حالات میں ساتھ دینے والے دوستوں کی قدر دانی کی ادنٰی سی کوشش کروں اور ساتھ ہی اپنے اوپر سے بے اعتنائی کا الزام کم کرتا چلوں۔
سال 2011 میں جب کوئٹہ سے ہر دوسرے تیسرے روز ٹارگٹ کلنگ کی افسوسناک خبریں آتی تھیں تب دنیا بھر میں کمیونٹی کے ہر فرد کی طرح ہم بھی اسلام آباد میں دوستوں کی بیٹھک لگا کر سر جوڑ لیتے کہ آخر ہم کیا کر سکتے ہیں۔ امجد بھائی ان دنوں ڈان میں کام کرتے تھے اور انھیں مسلسل ملنے والی دھمکیوں کے باعث ابھی ابھی اپنا تبادلہ کوئٹہ سے اسلام آباد کروا چکے تھے۔ ان کی صورت میں ہمیں ایک تجربہ کار رہنما مل گیا تھا جنھوں نے ہمیں سمجھایا کہ اسلام آباد کی سول سوسائٹی سے مل کر ہم اپنی آواز ان حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں جہاں تک آواز پہنچانے میں کوئٹہ میں مقیم کمیونٹی کو کافی مشکلات درپیش ہوں گی۔ ہم پر امن احتجاج کے لیے متحد ہوئے تو برکت علی کی ڈیزائننگ اور فرید کی خطاطی نے طالب حسین طالب کے پردرد اشعار کو پلے کارڑز پر منتقل کر دیا۔ جاوید نے اسلام آباد اور آس پاس کے کالجز، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان ہزارہ طلبا کو آرگنائز کیا اور غلام حیدر، مظفر حسین، اور عید محمد سمیت متعدد طلبا دوستوں نے ان پروٹسٹس میں شامل ہوکروہ بے لوث خدمت کی کہ آج بھی ان کی رضاکاری دل میں تازہ ہے۔ تمام دوستوں کا میں ذکر نہیں کر پاؤں گا، اس بات کی پیشگی معذرت۔ ان احتجاجی دھرنوں میں شیعہ اور غیر شیعہ ہمدردوں نے انتظامات میں مدد کی، صحافی حضرات نے ہماری گزارشات کو شائع کیا اور سول سوسائٹی نے فیس بک اور ٹوئٹر پر اور بلاگز کی صورت میں اس ظلم و انصافی کو خوب نمایاں کیا۔ البتہ ان ابتدائی پروٹسٹوں میں جوسب سے بڑی کمی میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ طاہرہ عبداللہ، فرزانہ باری ، ثمر من اللہ اور شندانہ خان کی صورت میں کئی غیر ہزارہ عورتیں تو ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑی تھیں لیکن ہزارہ خواتین کا دُور دُور تک نام و نشان نہ تھا ۔ صدیقہ اور جلیلہ بھی کوئٹہ میں سرگرم تھیں لیکن اسلام آباد میں اس خلا کا مجھے شدت سے احساس تھا۔ ہمارا بیانیہ مظومیت کا تھا، ہم نے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے یک طرفہ تشدد کو سامنے لانا تھا اور ہزارہ بچوں اور عورتوں کی غیر موجودگی میں یہ کام مشکل تھا۔
میں ان سالوں میں نوکیا سیمینز نیٹ ورک (Nokia Siemens Networks) کے لیے ٹیلی نار پروجیکٹ میں بطور انجنئیر تعینات تھا میری باجی بھی اپنے بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم تھیں۔ ایک انٹروورٹ میڈیکل پروفیشنل کے طور پرانھوں نے ہمیشہ اس جھمیلے سے فاصلہ ہی رکھا۔ ایک دن میں پروٹسٹ میں انھیں اپنے بھانجوں کے ساتھ لے جانے پر مُصر تھا جبکہ میری باجی اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ میں اس دن بہت خفا ہوا۔ میرا ماننا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو شروع ہی سے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی تربیت دینی چاہیئے۔ اسی ناراضگی کی کیفیت میں میں پروٹسٹ کے لیے اٹھ چلا آیا لیکن میری ہمت اس وقت بندھی جب میں نے ایک روایتی ہزارہ گی خدوخال کی حامل ایک ہزارہ عورت کو زمین پر اپنے بچوں سمیت مستقل مزاجی کے ساتھ احتجاج میں شریک دیکھا۔ آج بھی فاطمہ باجی کی وہ تصویر جس میں ان کی شیر خوار بیٹی کا فیڈر بھی ان کے پہلو میں رکھا نظر آرہا ہے، مجھے عزم و حوصلہ بخشتا ہے۔
مشکل حالات ہمارے اندر کے انسان کو چیلنج کرتے ہیں۔ کمزور دل و دماغ کے حامل افراد جن حالات میں خود فراری اختیار کرتے ہیں، غم و اندوہ سے ٹوٹ کر نشہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں یا مایوس ہو کر خودکشی کر بیٹھتے ہیں، وہیں مضبوط اعصاب والے افراد مزید تندہی سے مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جس وقت ہمیں ہزارہ خواتین پر گزرنے والے صدموں کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کی اشد ضرورت تھی، اسلام آباد میں فاطمہ عاطف نے اس خلا کو بہادری کے ساتھ پُر کیا۔
فاطمہ نے ایک پنجابی اور سُنّی خاندان کے عاطف سے اپنی پسند کی شادی کی۔ آج مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ ایک روایتی قبائلی معاشرے میں پرورش پاکر میرے خیالات بھی کمیونٹی سے باہر شادی کے خلاف ہی تھے۔ میرے خیالات اس وقت تبدیل ہوئے جب 2013 جنوری میں علمدار روڑ دھماکے کے بعد مجھے عاطف بھائی کی کال آئی۔ “سجاد، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ اب توہماری گلیوں میں ہمیں قتل کر رہے ہیں” گلوگیر لہجے میں عاطف بھائی کی آواز سنائی دی۔ فون کے اِس طرف میں سمجھ گیا کہ وہ رو رہے تھے۔ اُس دن میں سمجھ گیا کہ آخر ہزارہ اپنے سمدھیوں کو “خویش” یعنی “اپنا آپ” کیوں کہتے ہیں۔ فاطمہ کی محبت میں پنجابی اور سُنّی عاطف ہر اُس درد کو اپنانے کو تیار تھا جس نے ایک ہزارہ کے حصّے میں آنا تھا۔
فاطمہ کے ساتھ آپ کو عاطف کی تصویریں کم ہی نظر آئیں گی۔ وہ کم گو انسان ہیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے بیٹے سالار اور بیٹی نرمن کو ہزارہ کمیونٹی کے حق میں ہونے والے احتجاج سے دُور نہیں رکھا۔ اُردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ انھیں پنجابی اور ہزارگی فارسی کی بھی تربیت دی۔ ان کے گھر میں دعوتوں اور میٹنگز میں شرکت کرنے والے سبھی دوست جانتے ہیں کہ ان کا دروازہ ہمیشہ کمیونٹی کے لیے کھلا رہتا ہے۔ فاطمہ باجی کو جس اعتماد اور بھروسے کے ساتھ انھوں نے ہزارگی کاز کے لیے کام کرنے دیا، میرے لیے وہ ایک مثال ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا ایک ہزارہ مرد اپنی بیوی کو اتنی آزادی دے سکتا ہے؟
کہتے ہیں کہ اکثر لوگ 25 سال کی عمر میں مر جاتے ہیں اور70 سال کی عمر میں دفن ہو جاتے ہیں۔ معاشرے میں آس پاس آپ کو ایسے افسوسناک کردار نظر آئیں گے جنھوں نے بلاشبہ کسی زمانے میں قابل قدر کارنامے انجام دیئے تھے لیکن اب ان گزشتہ کارناموں کی پنشن پر جی رہے ہیں۔ فاطمہ کی خوبی یہ ہے کہ کم از کم اب تک تو وہ مسلسل بڑھوتری کے عمل سے گزر رہی ہے اور امید ہے کہ اپنے کردار میں ہمیشہ بہتری لاتی رہیں گی۔ جولائی 2017 کے بعد اس سال جولائی میں ان سے ورجینیا میں ملاقات رہی تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے خیالات اور برتاو میں مزید نکھار، مزید اعتماد اور مزید بہتری لا چکی تھیں۔ سات سال تک خاتون ِ خانہ رہنے کے بعد مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے جب سے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ہے، ابھی تک بیک وقت کئی محاذوں پر ڈتی ہوئی ہے۔ ہر علم پر عقل ِ کُل ہونے کا دعوٰی نہ انھیں تھا نہ ہے لیکن ان سے جو بن پڑتا ہے، اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ ہزارہ قتل عام کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہزارہ گی ثقافت کو جس طرح قومی دھارے میں نمایاں کیا ہے، لائق صد تحسین ہے۔
فاطمہ عاطف، جلیلہ حیدر، صدیقہ سلطان، نرگس ہزارہ، شازیہ بتول اور پیش پردہ اور پس پردہ اپنے اپنے کرداروں کو خلوص سے نبھاتی یہ بے شمار خواتین ہمارا اثاثہ ہیں۔ ان مشکل حالات میں جس طرح یہ عورتیں اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہیں، اس سے مجھے بے پناہ حوصلہ ملتا ہے۔
ایک تھی فاطمہ جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوئی، جس پر علامہ اقبال نے مرثیہ بھی لکھا ہے اور ایک ہے فاطمہ جو قریبا” ایک دہائی سے بے تیر و سپر اپنی مظلوم کمیونٹی کے حقوق کے لیے ہر ممکنہ محاز پر خود غازی بنی ہوئی ہے۔ اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ کو”امت ِمرحوم کی آبرو” قرار دیا۔ مجھے پتہ ہے کہ صرف مَردوں کی “آبرو” بننا اِس فاطمہ کو گوارا نہیں اور اپنی کمیونٹی کو مرحوم قرار دینا مجھ سے نہ ہوگا، تو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ اتنا کہوں گا کہ
فاطمہ تو ترجمان ِ اُمّت ِ مظلوم ہے.
- ایک جائزہ: خالد حسینی کا ناول “اے تھاوزنڈ سپلینڈڈ سنز” … سجاد حسین - 17/04/2021
- میٹھی نمکو … سجاد حسین چنگیزی - 22/12/2020
- میرا جسم کس کی مرضی؟ ۔۔۔ سجاد حسین - 07/03/2020