قدرتی آفات اور انسانی منصوبہ سازی
تحریر: میر افضل خان طوری
انسان ایک منصوبہ ساز حیوان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی بقاء کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ موسمی حالات کا منصوبہ بندی کے ذریعے مقابلہ کیا ہے۔ جنگل میں رہتے ہوئے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ اپنےعقل و شعور سے کرتا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ آج انسان ہواؤں میں محو پرواز ہے۔ عالی شان محلات بنا کر اپنی زندگی کو پر سکون اور پر آسائش بنا رہا ہے۔ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے دستیاب وسائل کا عقل مندی سے استعمال کر رہا ہے۔
آج دنیا میں وہ قومیں بہت آگے نکل چکی ہیں جن کے اندر منصوبہ سازی کا شعور موجود ہے۔ جو اپنے دستیاب وسائل کا صحیح استعمال کرنا جانتی ہیں۔
قرآن مجید کا سورة یوسف ہمیں ایسی ہی منصوبہ بندی کی ترغیب دیتا ہے۔ موسمی سائیکلز کے مطابق اپنے لئے خوراک اور پانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں انسان کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ویسے تو اللہ تعالی نے پانی ذخیرہ کرنے اور صاف کرنے کا ایک بہت بڑا خود کار نظام بنا رکھا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود انسان کو عقل و شعور بھی عطا کر رکھا ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کیلئے دستیاب وسائل کا بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرے۔
بارشیں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ بارشیں مردہ زمین کو زندہ کرتی ہیں اور ہریالی کا سبب بنتی ہیں۔ زیر زمین پانی کا واٹر ٹیبل انہی بارشوں کی وجہ سے اوپر آجاتا ہے۔ جن کی وجہ سے ہم زمینی پانی کو پینے اور فصلوں کیلئے با آسانی استعمال کرتے ہیں۔ دریاؤں میں پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت کا خاتمہ ممکن ہو جاتا ہے۔
جس ملک میں پہلے ہی سے پانی نا پید ہو۔ جس ملک میں دریاوں کا پانی خشک ہو رہا ہو۔ جس ملک میں پینے کے پانی کو لوگ ترس رہے ہوں۔ وہاں پر بارشوں کا ہونا یقینی طور پر بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنے دریاوں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے سرے سے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس نہ تو ڈیم ہیں اور نہ ہی ریزروائرز ۔ ہم نے کبھی بھی اپنے پانی کے درست استعمال کیلئے منصوبہ بندی نہیں کی۔ جب سیلاب آجاتے ہیں تب حکومت دو جملوں میں خود کو بری الذمہ کر دیتی ہے کہ انڈیا نے دریاوں میں بہت زیادہ پانی چھوڑ دیا تاکہ پاکستان میں سیلاب آئے۔ ہمارے لئے ہمیشہ اللہ کی رحمت سیلاب بن جاتی ہے۔ دریا بے لگام ہوکر سینکڑوں دیہات کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ اس طرح ہر سال سینکڑوں ایکڑز پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ جس ملک میں عوام کو غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہو اور ہر سال سینکڑوں بچے بھوک سے لقمہ اجل بن جاتے ہوں ۔ وہاں پر سیلابی پانی مزید نقصانات کا باعث بن جاتا ہے۔
ایرگیشن کا مناسب نظام ہی اس ملک کو ان بڑی آفتوں سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام شہروں اور دیہاتوں میں سیوریج اور ڈرینج کی مناسب منصوبہ بندی بارشوں کے پانی کو کنڑول میں لا سکتی ہے۔ پبلک ہیلتھ کا مناسب نظام نہ ہونے سے بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔
ہم حکومت نئے پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے اور اس کے درست استعمال کو یقینی بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھا کر ملک کو اس جانی اور مالی نقصان سے بچائے گی۔