غزل
سید محمد علی دانش
مجھ میں اور عشق میں فاصلہ رہ گیا
میں جہاں تھا وہاں ہی کھڑا رہ گیا
عمر کٹتی رہی خوف میں اور میں
اپنے سائے سے ہی بھاگتا رہ گیا
جب سبھی لوگ نظریں چرانے لگیں
بس اسی ذات کا آسرا رہ گیا
عشق کی آگ میں جل نہ جاؤں کہی
میں اسی خوف میں کانپتا رہ گیا
سامنے سے میری ذات جب ہٹ گئی
بس خدا ہی خدا ہی خدا رہ گیا
راستوں میں کئی منزلیں مل گئیں
منزلوں میں کوئی راستہ رہ گیا
خوف میں ہی رہا عمر بھر ہم سفر
ایک تھا وہ مگر دوسرا رہ گیا
وہ بھی کہتا رہا میں بھی کہتا رہا
کتنی باتیں ہوئیں مسئلہ رہ گیا
Your email address will not be published. Required fields are marked *
Comment *
Name *
Email *
Website
Δ