دھارے کے خلاف
علی رضا منگول
آسان نہیں ہے دھارے کے خلاف جانا، کیونکہ بہت محنت طلب اور سخت کوشی ہے اس کام میں۔ لہٰذا ہر کوئی آسان راستہ اپنا کر تکلیف سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کیا سکون ہی زندگی ہے؟ درد اور تکلیف نا جھیل کر کیا زندگی کو سمجھا جاسکتا ہے؟ سب سے تکلیف دہ بات یہی ہے کہ آپ معاشرے کے درد کو سمجھتے ہوئے کچھ کام کرنا چاہیں اور لوگ آپ کو پاگل کہہ کر پتھر ماریں اور سد راہ بنیں۔ مگر مزہ تب ہی تو آتا ہے جب آپ نا صرف اپنی بلکہ پوری سوسائٹی کی نفسیات اور rigidity سے مقابلہ کریں اور ہار نا مانتے ہوئے جو سیکھا ہے اُسے شعوری بنیادوں پر عملی کرنے کی کوشش کریں۔ جبر کو توڑتے ہوئے دھوپ میں بھی برف کو پگھلنے نا دیں۔ جی ہاں یہی للکار ہے اس rigidity کو شکست دینے اور معاشرے کو اس صورتحال سے باہر نکال کر ترقی کی راہ پر ڈالنے کی۔ بہاؤ کی سمت اسی کے ساتھ تیرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اسے بہادری، کوشش یا محنت کہنا چاہیئے؟ کیا بہاؤ کی سمت تیرنا بھی کوئی کام ہے؟
یہ سوال ہے ان تمام جوانوں اور سوسائٹی کے بے بس مجبور اور لاچار انسانوں کا جو اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ لوگ بغیر کسی محنت کے لاٹری نکلنے پر کچھ اختیارات کے مالک بن جاتے ہیں مگر ان کے آس پاس ویسے ہی نالائق افراد کا حلقہ ہوتا ہے جیسے وہ خود ہوتے ہیں۔ایسے افراد کی انہیں اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور حقیقت میں اندھوں میں کانا راجہ والی مثال سمجھ میں آجاتی ہے۔ ہماری سوسائٹی کا المیہ یہی ہے کہ جن لوگوں کو اپنے عہدے کے مفہوم کا بھی معلوم نہیں ، وہ اس عہدے کی ذمہ داریوں سے نابلد عہدے سے مستفید اور لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کُچھ لوگ اپنا اضافی وقت اس قوم اور سوسائٹی کو دے کر احسان جتاتے ہیں اور اپنے آپ کو حقیقت میں بھی اس عہدے کا اہل سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں اپنی نااہلی کا بوجھ عوام کے کاندھوں اور معاشرے پر لاد دیتے ہیں ۔ پھر اس شعبے کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ برسوں کی محنت اور کوششوں کا دعویٰ، کچھ بھی نہ بدل سکا ہے پھر کوئی یہ بتائے کہ ہوا کیا ہے؟
سوسائٹی کی نفسیات کو توڑنے کے لئے دیوانگی کی ضرورت ہے جسے عرف عام میں پاگل پن کہا جاتا ہے۔ سوسائٹی ابھی اپنے بچپنے میں ہے اور اسے نہ تو گھسیٹنا چاہیئے اور نا ہی قدرتی ارتقاء کا انتظار، بلکہ انسانی شعوری کوشش کے ذریعے اسے من مرضی شکل دینے کی ضرورت ہے جو انسانی اور man made کہلانے کے لائق ہو۔ صرف اپنی عورت سے پیدا ہوئے بچوں کو اولاد ماننا حیوانیت سے بھی پست ہے اور پورا معاشرہ یہی تو کررہا ہے۔ اسی لئے ایسا کرنا نہ تو مشکل ہے اور نا ہی کام اور ناہی کوئی محنت۔
دھارے کے خلاف جانا، اپنی نفسیات کو توڑنا ہی ایک آگاہ و بیدار نوجوان اور بہادر انسان کا کام ہے اور ایسے لوگ خال خال ہوتے ہیں اور وہ واقعی پاگل ہوتے ہیں ایسے پاگل پن اور پاگلوں کی اس سوسائٹی کو ضرورت ہے۔ جسے سوسائٹی بھی اپنا بچہ لگے، جو اپنی محنت، اپنی دانائی سوسائٹی کی لئے وقف کرے۔ جبکہ سوسائٹی کو ان سب کی خواہش و ضرورت نہیں ۔ سوسائٹی اپنی rigidity کے خلاف کسی کو برداشت نہیں کرتی، مگر سقراط کی بلا سے، اس نے وہی کیا جسے وہ درست سمجھتا تھا۔ سقراط نہ صرف ایک بہادر انسان تھا بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ایک بیدار 71 سالہ نوجوان بھی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے بچوں کی خوبیاں معاشرے کو بہتر نہیں کرسکتیں مگر معاشرے کی خرابی سب پر اثرات ڈالتی ہے۔ لہٰذا آئندہ نسل کو بچانے اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی محدود زندگی سے نکل کر معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرنا ہوگا ورنہ معاشرے کی بربادی کسی کو بھی نہیں بخشے گی۔
- حکمت عملی/طریقِ کار ۔۔۔ علی رضا منگول - 27/12/2023
- نوش دارو بعد از مرگ سہراب ۔۔۔ علی رضا منگول - 01/12/2023
- جامعہ بلوچستان کا مالی بحران یا پرائیوٹائزیشن کی جانب قدم ۔۔۔ علی رضا منگول - 30/04/2023