انسانی معاشرے کا عکس ۔۔۔ صدیقہ سحر

 
اللہ تعالیٰ نے یہ وسیع و عریض کائنات بنائی، اس میں خوبصورت وادیاں، پہاڑ، دریا و سمندر، لہلہاتے درخت، نیلگون فلک، نظام شمسی اور طرح طرح کی نعمتیں پیدا کیں اوراس میں بنی نوع انسان کو پیدا کیا اور تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق بنا کر اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا۔ اس کو عقل و شعور اور فہم و ادراک عطا کیا تاکہ وہ انہیں بروئے کار لاکر مظاہر فطرت پر غور کر سکیں اور خالق کائنات کی صفائی کو قریب سے مشاہدہ کرکے اس کی داد دیں۔
 
خالق کائنات نے انسان کو پیدائشی طور پر طہارت و پاکیزگی بخشی ہے اور نیکی اس کی فطرت میں ودیعت کر دی ہے۔ اس کے ذمہ کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی عائد کر دی ہیں تاکہ وہ اس دنیا میں اپنے تخلیق کیے جانے کے مقصد کو جان سکیں اور اپنی عقل و استعداد اور جسمانی قوت و طاقت کو کام میں لا کر بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیں اور دوسروں کے لئے مثال بن جائیں۔
بقول شاعر:
؎ ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو
ایسا چلن چلو کہ زمانہ مثال دیں
اور جس طرح عظیم شاعر و مفکر علامہ اقبال(رح) فرماتے ہیں:
؎ تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے
یہ وہ انقلابی اشعار ہیں جو انسان کی شخصیت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں اور اس کے اندر جوش وولولہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہمت اور عقل و دانش کو بروئے کار لا کر دنیا میں انقلاب برپا کر دیں، اچھے اچھے کام سرانجام دیں جس سے اس کی اپنی تقدیر بھی بدل جائے اور دنیا اس کی عظمت کو خودبخود تسلیم کریں۔
 
بنیادی طور پر انسان کی شخصیت اپنے معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ سیکھتا ہے اور جس طرح برتاؤ کرتا ہے اس میں اس کے گرد و بیش کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر اسے معاشرے میں اچھا ماحول اور اچھے لوگ میسر آتے ہیں تو اس کی شخصیت سنور جاتی ہے اور اچھے عادات و اطوار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ ایک پڑھے لکھے ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے، جہاں پر روشن فکر اور روشن خیال لوگ اسے ملتے ہیں جو روشن مستقبل ایک اچھی اور پرسکون سرزمین جہاں پر خلوص و محبت، انسانیت سے ہمدردی، ایثار و وفا اور امن و آشتی کی باتیں کی جاتی ہوں، جو مادہ پرستی سے زیادہ اہمیت، انسانیت اور اخلاقی اقدار کو دیتے ہوں تو ایسی دنیا اس کے لئے سرمایہ حیات بن جاتی ہے اور وہ اس معاشرے میں ایک مفکر اور فلاسفر کا مقام پا لیتا ہے اور انسانیت کی فلاح اور بھلائی کی باتیں کرنے اور زندگی کے حقائق تلاش کرنے کی کوشش اور جستجو کرنے لگتا ہے۔
 
حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ کائنات سربستہ رازوں سے بھری ہوئی ہے جس کے لئے چشم بینا، فہم و ادراک اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اگر ہم غور کریں تو خالق کائنات نے اس دنیا کو کتنی خوبصورتی سے بنایا ہے: ہر چیز میں الگ رنگ ہے، ہر نعمت کتنی دلکش اور دلفریب ہے، رنگ برنگے موسم، سب کے سب قدرت کے حسین شاہکار ہیں۔ مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج کا انسان معاشرے کی الجھنوں، فریب، دھوکہ دیہی، مادہ پرستی، ظلم و ستم، جبر و استبداد، اناپرستی، حسد و ہوس، لالچ، کینہ، بغض و عداوت اور احساس برتری جیسی برائیوں میں اس قدر گھرا ہوا ہے کہ وہ اپنے تخلیق کیے جانے کے مقصد کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ اگرچہ انسان پیدائشی طور پر نیک خلق کیا گیا ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو اس کو برا بناتا ہے۔ عظیم فرانسیسی مفکر(روسو) بھی اس بات کا اقرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
”خالق کی ہر تخلیق جب اس کے ہاتھوں سے نکلتی ہے تو حسین ہوتی ہے اور جب انسان کے ہاتھوں پہنچتی ہے تو بدصورت ہو جاتی ہے۔“
وہ مزید کہتا ہے:
”ہر چیز جو قدرت کے ہاتھوں سے نکلتی ہے وہ پاک ہوتی ہے۔ ہمیں انسانی فطرت کو بگھاڑنا نہیں چاہیے۔ نیکی انسان کی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے۔ معاشرہ اس کو برا بناتا ہے۔ لہٰذا انسان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے اور اس کی فطرت کے مطابق نشو و نما کی جائے۔“
 
جیسا کہ ہم نے کہا کہ انسان اپنے معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔ اس کو جیسا ماحول میسر آتا ہے وہ ویسا ہی بن جاتا ہے۔ وہ معاشرے میں جس طرح کے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، ان کی عکاسی کرتا ہے۔ اچھی صحبت اس کی شخصیت اور مزاج پر اچھا اثر ڈالتی ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے۔ بری صحبت سے اس کی شخصیت بگڑ جاتی ہے اور وہ برائی کا راستہ اپنا لیتا ہے اور اس کا مستقبل بھی تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں، کہ:
”A man is known by the company he keeps.“
 
اس دنیا میں کوئی بھی شخص برا خلق نہیں کیا گیا ہے۔ اکثر وقت اور حالات، اقتصادی مسائل، جیسے: بیروزگاری، معاشرتی دباؤ اور پریشانیوں کی وجہ سے بھی انسان برا بننے پر مجبور ہو جاتا ہے اور برائی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ آج کے معاشرے کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس میں تمام انسانوں سے یکساں سلوک نہیں کیا جاتا، طاقتور کمزور کو زیرِپا کر دیتے ہیں، ملا پرستی اس قدر عام ہو گئی ہے کہ انسانیت کا معیار گر گیا ہے، سچ اور جھوٹ؛ اور اچھے اور برے میں تمیز کرنا ختم ہو گیا ہے، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور بڑھنے کی خواہش میں انسان نے تمام معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو فراموش کر دیا ہے۔
 
لہٰذا: مذکورہ بالا تمام بیانات کا خلاصہ یوں نکالا جا سکتا ہے کہ اگر ہم نے انسانیت کا معیار بلند کرنا ہے تو اسے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کرنا ہے تو ہمیں اخلاقی اقدار اور روایات کو اپنانا ہوگا، ہمیں تعصبات اور تنگ نظریوں سے بڑھ کر اور اچھائیوں کو فروغ دے کر کام کرنا ہوگا۔ نیک دلی اور اچھے جذبات و ملی تعاون کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ تب ہی جا کر ہم ایک اچھا اور مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
 
آخر میں، میں اپنے موضوع کا اختتام اپنے اس شعر کے ساتھ کرنا چاہوں گی:
؎ کاش! زندگی اتنی حسین بن جائے
ساری دنیا محبت کی زمین بن جائے
اور
اس میں انسان مکین بن جائے
صدیقہ سحر
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *