یورپ یاترا (پہلی قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی

بولاق اینالسٹ نیٹ ورک(Bolaq    Analyst  Network) کے دوستوں نے یکم اکتوبر 2022ء کو، ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں معروف لکھاری جناب حسن رضا چنگیزی کی کتاب ”قصہ ہای ناتمام“ کے انگریزی ورژن ”Unfinished Stories“ کی رونمائی اور ہزارہ جینوسائڈ (ہزارہ نسل کشی) آرکائیو کے تعارف  کی ایک ساتھ تقریب رکھی تھی۔ دوستوں کی طرف سے شرکت کی دعوت ملنے کے بعد میں نے یورپ کے بعض شہروں کو دیکھنے کی منصوبہ بندی کی اور ڈنمارک  کی تقریب سے ایک ہفتہ قبل اوسلو، ناروے کی راہ لی۔ اوسلو میں کئی سیاحتی مقامات دیکھنے کے بعد میں وہاں سے بذریعہ بس 30 ستمبر کو کوپن ہیگن پہنچا۔ یکم اور دوئم  اکتوبر کو چار سیشنوں پر مشتمل اُس تقریب میں شرکت کی جن میں ہزارہ جینوسائڈ کی تاریخ اور موجودہ صورتحال، ڈیٹا کولیکشن کی اہمیت اور ضرورت سمیت کئی دیگر ذی ربط موضوعات سمیت حسن رضا چنگیزی کی کتاب کی رونمائی پر مختلف اسکالرز اور متعلقہ افراد مثلاً افغانستان میں حقوق انسانی سے متعلق  اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینِٹ، ورلڈ ہزارہ کونسل کے سابق چیئرمین انجینئر اکرم گیزابی، افغانستان انسانی حقوق کمیشن کی سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر سیماثمر، ہزارہ نیشنل کانگریس کے سینئر ممبر ڈاکٹر یحییٰ بیضا، جینوا میں افغانستان کے سابق سفیر ڈاکٹر ثریا دلیل، ایم پی اے قادر علی نائل، افغانستان امروز اور آوٹ لک افغانستان کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر حسین یاسا، کتاب کے مصنف حسن رضا چنگیزی، مترجمین و تصحیح کنندگان: سید عنایت بلخی، زہرا عنایت، سجاد چنگیزی، فرمان کاکڑ اور دیگر خواتین و حضرات نے  بنفس نفیس یا آن لائن اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس دو روزہ کانفرنس کی مکمل رپورٹ انگریزی اور دری میں بولاق نیٹ ورک کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہے۔

سفر کے  دوران مختصر مدت کے لئے سویڈن جانے کا بھی موقع ملا۔ اگلے دن میں، ایم پی اے بلوچستان اسمبلی  قادر علی نائل اور ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی کے شہر میونخ گئے اور افغانستان میں جاری ہزارہ جینوسائڈ کے خلاف ایک پروٹیسٹ میں شرکت کی۔ چار دن میونخ میں گزارنے اور مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کے بعد میں وہاں سے فرانس کے دارلحکومت پیرس گیا۔

ویسے تو یورپ کے سبھی شہر اور قصبات علامہ اقبال کے بقول فردوس کی مانند ہیں، لیکن ان میں پیرس حقیقی معنوں میں ایک نگینہ ہے۔ رات دن چہل پہل اور روشنیوں میں نہاں رہنے کی وجہ سے اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ سیاحت کے لحاظ سے وہاں اکتوبر آف سیزن کہلاتا ہے(جبکہ فل سیزن جون تا اگست ہے) لیکن پھر بھی مشہور سیاحتی مقامات جیسے: ایفل ٹاور، باسیلیکا چرچ اور دیگر معروف چرچوں، عجائب گھروں، معروف بازار شانزے لینزے میں کافی رونق اور چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ ماموں زاد کے مطابق فل سیزن کے دوران ان مقامات پر تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ میں نے ماموں زاد کے ساتھ ایفل ٹاور، باسیلیکا چرچ، پومپیڈو میوزیم کی سیر کی اور شانزے لیزے کو اس لئے دور سے دیکھنے پر اکتفا کیا، کیونکہ چلنے پھرنے کی مزید سکت ہم میں باقی نہیں رہی تھی۔ بعداز اں ہم شہر کے بیچوں بیچ کتابوں  کی معروف دکان ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کی طرف نکل گئے۔ سب سے پہلے ہم نے کتابخانے سے متصل ریسٹورنٹ میں کافی پی کر تھکاوٹ دور کی  پھر کتاب گھر کی طرف چل دئیے۔ مغرب کا فرد فرد کتاب بینی کا دیوانہ ہوتا ہے، اس لئے کتابخانے کے باہر قطار میں لگ کر انتظار کرنا پڑتا ہے، سو ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوا کہ یہ ہمارے ہاں کے عام کتابخانوں کی طرح نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل لائبریری ہے جہاں چھوٹے بڑے مختلف کمروں میں ڈھیر ساری موضوعات پر ہزاروں نئی اور پرانی کتابیں باقاعدہ موضوعات کے لحاظ سے ترتیب کے ساتھ سجائی گئی ہیں، جیسا کہ: تاریخ، ثقافت، مذاہب، تعمیرات، نفسیات، سائنسی موضوعات اور فکشنز وغیرہ۔ ساتھ ہی کئی کمرے ایسے بھی ہیں جہاں آپ اپنی پسند کی کتاب لے کر بغیر کسی ادائیگی کے مفت مطالعہ  کر سکتے ہیں۔ وہاں خریدار اور ذوق مطالعہ کے تشنہ افراد میں ہر عمر کے مردو زن حتیٰ کہ   بچے بھی شامل تھے۔ بلا شبہ مغرب کی ترقی اور پیشرفت کی بنیادی وجہ یہی علم دوستی ہے جو کتاب بینی ہی کے توسط سے انہیں ورثے میں ملی ہے۔ کیونکہ کتب بینی کا نعم البدل کوئی دوسرا شارٹ کٹ ذریعہ نہیں۔

فرانسیسی مہاجرین کے حوالے سے اپنے سخت قوانین کے باوجود غیرقانونی مہاجرین سے زیادہ سختی کے ساتھ پیش نہیں آتے۔ تمام سیاحتی مقامات، بس، ٹرین اور میٹرو سٹیشنوں پر بڑی تعداد میں غیر قانونی افریقی و افغانی وغیرہ مختلف اشیا بیچتے نظر آتے ہیں۔ افریقی مہاجرین زیادہ تر سووینیرز، چھوٹے الیکٹرانک آلات جیسے چارجر اور کی چین وغیرہ؛ جبکہ افغانی، مخصوص جگہوں پر سگریٹ اور گلی کوچوں میں  نسوار اور چرس فروخت کرتے عام دیکھائی دیتے ہیں۔ ایفل ٹاور اور ریلوے سٹیشن پر مجھے ان کے خلاف پولیس  کریک ڈاؤن دیکھنے کے کئی مواقع ملے۔ میرے ماموں زاد کے مطابق پولیس انہیں تھانے لے جا کر ان سے برآمد شدہ غیرقانونی سامان ضبط کرتی ہے اور خود انہیں تنبہ کرکے چھوڑ دیتی ہے۔ اب، چونکہ وہ کوئی قانونی کام کرنے کے مجاز نہیں، اس لئے رہائی پانے کے بعد یہ اپنی جان پہچان کے بندوں سے پیسے لے کر پھر وہی دھندا شروع کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ پولیس کے ساتھ ان کی یہ آنکھ مچولیاں سالوں سے جاری ہیں۔

پیرس ایک مہنگا بالخصوص رہائش کے لحاظ سے کافی مہنگا شہر ہے۔ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب مجھے ماموں زاد کے ایک دوست کے فلیٹ میں چند گھنٹے قیام کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا دوست دو کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ اس فلیٹ کے کمرے اتنے چھوٹے تھے کہ ایک کمرے میں صرف ایک ہی فرد سوسکتا تھاجبکہ باورچی خانے کی حالت بھی کمروں سے کچھ  زیادہ بہتر نہ تھی کیونکہ اس میں بھی بیک وقت صرف ایک فرد آجاسکتا تھا۔ جبکہ ٹائلٹ اور باتھ روم میں کسی موٹے یا لمبے فرد کا گھسنا کافی مشکل تھا۔ لیکن باوجود این ہمہ، اس منی فلیٹ کا کرایہ 1500، 1600 یورو تھا۔ نیویارک کے مقابلے میں، میں نے وہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی کافی پیچیدہ پایا۔ وہاں ہر لائن کے لئے علیحدہ ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ اکثر سٹیشنوں پر ٹکٹ کاونٹرز سرے سے ہوتے ہی نہیں، بلکہ ان سٹیشنوں پر خودکار مشینوں سے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ طویل انتظار کے بعد ان مشینوں پر لمبے چوڑے آپشنز کی وجہ سے سسٹم سے نابلد افراد کو ٹکٹ خریدنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ مجھے اپنے ماموں زاد کے گھر تک پہنچنے کے لئے(جو پیرس سے دو گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے) ٹکٹ لینے میں کئی گھنٹے لگے۔ میں نے درجنوں پریشاں حال فرانسیسیوں کو بھی گھنٹوں ان مشینوں سے لاحاصل جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے برعکس نیویارک میٹرو کے تقریباً ہر سٹیشن میں کاونٹر بھی ہوتا ہے اور خودکار مشینیں بھی۔ یہاں خودکار مشینوں سے ٹکٹ لینا اس لئے بھی آساں ہے کہ ان میں زیادہ آپشنز نہیں ہوتے اور ساتھ پورے نیویارک شہر کی تمام سب وے ٹرینوں اور بسوں کے لئے ایک ہی ٹکٹ یکساں کارآمدہوتا ہے۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *