بے اولاد ۔۔۔ عارف حسین

 
گوجرانوالہ کے کسی پہلوان کا انتقال ہوگیا۔ جنازے میں شریک ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا: ”کیا پہلوان جی، صاحب اولاد تھے یا بے اولاد؟“ دوسرے نے افسوس سے گردن ہلائی اور تاسف سے جواب دیا: ”بیچارہ بے اولاد ہی چلا گیا۔“ وہاں تیسرا شخص یہ سن کر فورا بولا: ”جھوٹ کیوں بول رہے ہو؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اس کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے؟“ یہ تیسرا شخص اکھاڑے کی روایت سے واقف نہیں تھا۔ پنجاب میں جب کوئی پہلوان چمپئن بن جاتا ہے، تو وہ اپنا ذاتی اکھاڑا بنالیتا ہے اور پھر اس میں نوجوانوں کو کشتی لڑنے کی تربیت دینے میں جت جاتا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی نوجوان استاد کے پائے کا؛ یا اس سے بہتر کشتی لڑے، تو استاد اسے اپنا جانشین مقرر کرتا ہے اور وہ نوجوان اس کا ”بیٹا“ کہلاتا ہے۔
 
ہمارے ہاں ہر کسی کا جانشین ہوتا ہے، چاہے وہ مصور ہو یا گلوکار، شاعر ہو یا ریاضی کا استاد، بیوٹیشن ہو یا مستری، الیکٹریشن ہو یا میکینک؛ ہر کوئی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بے اولاد نہ رہے۔ اسی وجہ سے ہر کسی نے اپنی اپنی تربیت گاہیں کھول رکھی ہیں اور اگر کسی کی اپنی تربیت گاہ نہ ہو، تو وہ کسی اور ادارے میں اپنی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ ان میں سے خاص طور پر اساتذہ ہیں، جن کی اپنی کوئی درسگاہ نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ دوسروں کے کھولے ہوئے اداروں میں درس تدریس کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
 
اس نہج پر مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے، کہ زندگی کے سب سے اہم شعبے میں سب بے اولاد اور بن باپ کے ہوتے ہیں اور اس شعبے کا نام ہے……سیاست! کیونکہ نوے فیصد(90%) سیاستدانوں کی کوئی اولاد نہیں ہوتی اور نوے فیصد(90%) سیاستدان بغیر باپ کے سیاسی میدان میں اترتے ہیں۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ: کہ نوے فیصد(90%) عوام بھی سیاسیات میں سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ یہی ہے وہ نادیدہ عوامل، کہ ایک انگلش ٹیچر(جس کا آدھا دن کھیلوں کے سامان کی دکان میں بسر ہوتا تھا اور آدھا دن انگلش لینگوئج سینٹر میں) وہ بھی وزیر بن گیا اور اس کے نقش قدم پر چل کر آئندہ الیکشن میں ایک اور انگلش لینگوئج سینٹر کا استاد وزیر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔(میری دعا ہے کہ اسے اس کے خوابوں کی تعبیر مل جائے) مگر اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے، کہ اسٹیج پر ایک آدھ مرتبہ تقریر کرنے سے کوئی سیاستدان نہیں بنتا اور نہ ہی اسٹیج کی سیاست اور بلوچستان کی سیاست ایک جیسی ہیں۔
 
سوسائٹی کے تمام سیاست مداروں سے میری دست بستہ درخواست ہے، کہ وہ بھی معاشرے کے باقی قابل قدر ہنرمند آرٹسٹوں کی طرح اپنی تربیت گاہیں کھولیں، تاکہ وہ بھی بے اولاد نہ رہیں اور مستقبل کے سیاستدان بھی بغیر باپ کے اس میدان میں نہ اتریں۔ بلکہ اس کے سر پر کسی کہنہ مشق سیاست مدار کی دست شفقت کا ہونا لازمی ہے، تاکہ عام عوام میں بھی سیاسی شعور بیدار ہو اور آنے والی ہماری نئی نسلیں بھی اس ”اکھاڑے“ کی اونچ نیچ سے نابلد نہ ہوں۔
عارف چنگیزی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *