ایچ ڈی پی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ کے ساتھ ایک نشست

گذشتہ دنوں  ”اظہار“  ٹیم نے مشیر وزیر اعلیٰ برائے کھیل و ثقافت اور چیئرمین ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی جناب عبدالخالق ہزارہ سے بات چیت کی جو قارئین کے حاضر خدمت ہے۔

اظہار:  عالمی وباء کرونا کے حوالے سے ایچ ڈی پی نے آج تک کیا اقدامات کیے ہیں اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں؟

خالق ہزارہ:  سب سے پہلے میں آپ دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،  جو آپ میرے غریب خانے میں تشریف لائیں اور مجھے مہمان نوازی کا شرف بخشا۔  جہاں تک بات کرونا کی ہے میرا پہلا فرض یہ تھا کہ حکومت میں ہوتے ہوئے ہم وہاں پر کیا آواز اٹھاتے ہیں؟  آپ جام کمال صاحب سے پوچھ لیں،  کابینہ اجلاس میں جس ممبر نے سب سے زیادہ آواز اٹھائی وہ آواز میری تھی۔  آج سب دوست و احباب یہی کہتے ہیں کہ خالق ہزارہ اس معاملے پر سب سے زیادہ چیخا اور چلایا۔  لاک ڈاؤن کو طولانی اور اجتماعی شعور اجاگر کرنے کے لیے میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا۔  اگرچہ ہمارے اوپر تاجر برادری کا بہت زیادہ دباؤ تھا،  تاہم ہزارہ تاجر برادری جان چکی تھی کہ اس لاک ڈاؤن کی اہمیت کیا ہے؟  مزید برآں عوام کا خوف دور کرنے کے لیے چونکہ تمام ہسپتال کرونا سینٹر میں تبدیل ہو چکے تھے۔  اس لیے ایچ ڈی پی نے آن لائن علاج و معالجے کا سلسلہ شروع کیا،  جو ڈاکٹر اصغر علی چنگیزی صاحب کی سربراہی میں بہت کامیابی سے چلا اور اس میں ڈاکٹر نوروزصاحب،  ڈاکٹر تقی صاحب اور ہماری قوم کی دو ڈاکٹر بیٹیوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ پیش کیں۔  اس سے کافی لوگوں نے استفادہ کیا،  میں ان کا بھی مشکور ہوں اور اس کے علاوہ ہم نے سوشل میڈیا میں ایک فورم بھی تشکیل دی،  جس میں ڈاکٹر حضرات آ کر آن لائن عوام کو مسلسل آگاہی دیتے رہے۔  اس کے علاوہ ہم نے قریباً بیس ہزار ماسک شہریوں میں مفت تقسیم کیے،  اور وہ بھی نہ صرف علمدار روڈ، ہزارہ ٹاؤن بلکہ پورے شہر میں یہ ماسک بانٹے گئے اور ماسک پہننے کا شعور ہم نے دوسروں سے دو،  اڑھائی مہینہ پہلے شروع کیا جس سے عوام میں کافی آگہی پیدا ہوئی۔  سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے اس سال کلچرڈے بھی نہیں منایا۔  بلکہ عوامی آگاہی کے لیے اس دن ہم نے ماسک تقسیم کیے۔  ایک دوسرے سے گلے ملنے کی بجائے ہم نے لوگوں میں پھول بانٹے۔  کیونکہ لوگ عموماً عقیدت مند ہوتے ہیں اسی لیے ہمارے مخالفین نے اسے مذہبی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی۔  جس طرح کی غلطی برازیل کے صدر،  ٹرمپ یا ایرانی حکومت نے کی،  انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔  حتیٰ کہ میں وفاقی حکومت کے حوالے سے بھی پورا مطمئن نہیں تھا۔  لیکن ہم عوامی خدمت کا فرض ادا کرتے رہے اور عوام میں اس حوالے سے شعوری آگہی کے لیے مختلف کام سرانجام دیتے رہے۔ 

اظہار:   کورونا کی تشخیص کے بعد آپ نے کوئی احتیاطی تدابیر اپنائی؟  اگر ہاں!  تو وہ کون کونسی تھیں،  تاکہ عام لوگ بھی ان سے فیضیات ہوں؟

خالق ہزارہ:  دیکھے!  جیسا کہ ڈبلیو ایچ او اور ہمارے ماہرین طب کہتے ہیں کہ اس وباء میں سماجی دوری برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے،  ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانا،  چھ فٹ کی دوری اختیار کرنا،  بھیڑ اور رش والی جگہ پر نہ جانا اور خصوصاً کسی ہال میں جہاں زیادہ حبس ہوتا ہو۔  یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کرونا کا زیادہ پھیلاؤ ہوتا ہے۔  میں نے پہلے ہی آپ کو بتایا ہے کہ کابینہ میں سب سے زیادہ آواز اٹھانے والا میں تھا۔  آپ جانتے ہیں کہ میں ایک عوامی اور سماجی شخصیت ہوں۔  اب قبرستان بھی جاؤں تو دو تین زبردستی ہاتھ ملانے والے مل ہی جاتے ہیں۔  اب اگر میں ہاتھ نہ ملاؤں تو وہ نہیں سمجھیں گے،  بلکہ کہیں گے کہ:  ”یہ ایسا کیوں کررہا ہے؟“  آپ کہتے ہیں کہ اتنی ذمہ داری کے باوجود مجھے اور میری فیملی کو کرونا کیوں ہوا؟  میں سمجھ سکتا ہوں،  اس حوالے سے میں نے اپنے ویڈیو پیغام میں یوتھ کو بھی مخاطب کرکے کہا تھا  (جو ہماری آبادی کا تقریباً پینسٹھ فیصد حصہ ہے)  کہ آپ صحتمند رہے اور آپ میں قوت مدافعت زیادہ ہے اگر آپ نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا اور تمام باتوں کا خیال رکھا تو ہم اس وباء پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں اور اگر خیال نہیں رکھیں گے اور ایک دوسرے سے گھل مل جائیں گے تو تمہیں تو کچھ نہیں ہوگا،  مگر گھر آکر اپنے باپ،  دادا،  نانا،  نانی،  غرض کہ گھر کے بزرگوں کو اس وباء میں لاحق ضرور کریں گے۔  یوتھ پر اس معاملے کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بے حس نہ بنیں۔  مگر کچھ نوجوانوں نے احساس نہیں کیا اور اس وباء کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن گئے اور اس وجہ سے ہمارے بہت سارے بزرگ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے جس کی وجہ سے ہمارے قبرستانوں میں جگہ کم پڑگئی۔  پچھلے دو سالوں میں اتنی اموات نہیں ہوئی،  جتنا پچھلے دومہینوں میں ہوئیں۔

اظہار:   آپ علاج کی غرض سے کراچی جانے پر کیوں مجبور ہوئے اور آپ نے کوئٹہ خصوصاً اپنے حلقہ انتخاب میں موجود بینظیر ہسپتال میں اپنا علاج کیوں نہیں کرایا؟  کیا آپ کا یہ فیصلہ لوگوں کے اذہان پر یہ تاثر ثبت نہیں کرے گا؟  کہ یہاں کے حکومتی نمائندے خود اپنی حکومت کی کارکردگیوں سے مطمئن نہیں اور اگر یہاں علاج کی سہولتیں موجود نہیں تو اس کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ہوگی؟  مزیدبرآں،  جو متاثرہ شخص کراچی جانے کی سکت نہیں رکھتا ان کا کیا بنے گا؟

خالق ہزارہ:  مجھے کرونا ہو چکا تھا،  یہ مجھے بعد میں پتہ چلا۔  ہمارے ایک وزیر صاحب کو کرونا ہو چکا تھا اور ہم ایک افطار ڈنر میں ساتھ تھے۔  دو دن بعد کابینہ اجلاس میں ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں کرونا ہو چکا تھا۔  اس وقت چونکہ ایک میڈیکل ٹیم وزیراعلیٰ صاحب کی نگرانی میں وہاں کام کر رہی تھی،  تو ہم نے اسی وقت اپنا ٹیسٹ کروایا جس میں میرا رزلٹ نیگیٹو آیا۔  لیکن بعد میں کچھ علامات مجھ میں ظاہر ہونے لگیں،  جیسے سانس کی تنگی اور تھکاؤٹ وغیرہ۔  میں نے دوستوں سے بھی مشورہ لیا،  لیکن چونکہ میری رپورٹ نیگیٹو آیا تھا تو کسی نے زیادہ پرواہ نہیں کی۔  مگر مجھے کچھ کچھ محسوس ہو رہا تھا اور عید کے تینوں دن یہ حالت تھی کہ میں ہل جل بھی سکتا تھا۔  ہلکا سا بخار تھا،  تھوڑی کھانسی تھی۔  پھر میں نے اگلے دن اپنا ٹیسٹ دوبارہ کرایا اورایک دن بعد میرا رزلٹ مثبت آیا۔  اسی وقت میں نے اپنی فیملی کا بھی ٹیسٹ کروایا اور ان کا رزلٹ بھی مثبت آیا۔  جن میں میرے بچے اور میری مسز شامل ہے۔  اسی دن میری بہن کا فون آیا،  تو میری مسز نے ان سے کہا،  کہ خالق کو کرونا ہو چکا ہے۔  انہوں نے میری بہنوئی کو بھی ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا،  ان کا رزلٹ بھی مثبت آیا اور تین دن بعد میری بہنوئی کا انتقال ہو گیا۔  مجھے کال آئی کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔  اگرچہ میرا ول پاؤر مضبوط تھا مگر پھر بھی انسان ہیں،  ٹینشن لے ہی لیتے ہیں اور اسی وجہ سے میرا آکسیجن لیول کم ہونا شروع ہوا۔  میری ایک سالی جو دبئی میں ڈاکٹر ہے کا فون آیا اور اس کے بعد پے در پے کالز آنا شروع ہوا،  یوں مجھے ان کی سپروژن بھی حاصل ہوئی۔  دبئی کے مختلف ڈاکٹرز کے ساتھ بھی ان کا صلاح و مشورے جاری تھا۔  یہاں بھی میں دوستوں سے مکمل رابطے میں تھا۔  اس دوران میرا پلس بھی گرنے لگا اور مجھے آکسیجن کا مسلہ بھی درپیش تھا۔  وزیراعلیٰ جام کمال صاحب کی ہدایت پر معروف چیسٹ فزیشن ڈاکٹر شیرین خان نے بالآخر مجھے مزید خرابی صحت سے بچانے کے لیے کراچی جانے کا مشورہ دیا۔  اس کے علاوہ دوست و احباب اور پارٹی ورکرز کا دباؤ بھی تھا،  یوں مجھے مجبوراً کراچی جانا پڑا۔  جہاں میں سات یا آٹھ دن ایڈمٹ رہا اور پھر سب کی دعاؤں سے صحت یاب ہوکر کوئٹہ واپس آیا۔  میں قبول کرتا ہوں کہ بلوچستان میں صحت کی سہولتیں غیرمعیاری ہے۔  شیخ زید ہسپتال کوئٹہ کا ہم کسی طور نیشنل ہسپتال یا آغا خان ہسپتال کراچی سے موازنہ نہیں کر سکتے۔  میں حکومت میں ہوتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ ہماری صحت کی سہولتیں معیاری نہیں ہے۔  ہماری بہت ساری کمیاں اور کوتاہیاں ہیں جن پر ہم ایک دن میں قابو نہیں پا سکتے۔  پچھلی حکومتوں نے صحت کے حوالے سے جھک مارنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔  ہم نے وینٹی لیٹرز منگوا لیے ہیں تیرہ(13)  تو مل بھی چکے ہیں،  دو سو(200)  مزید منگوا لیے ہیں۔  ہم ہیلتھ ایکسپرٹیز پر بھی کام کر رہے ہیں،  ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کو مزید پروفیشنل کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں اور شیخ زید ہسپتال میں کافی ایسی مشینیں ہیں جن کا کوئی استعمال بھی نہیں جانتا،  ہم ان پر بھی کام کر رہے ہیں۔  موجودہ حکومت نے اس سال بجٹ میں صحت کا کوٹہ 30% فیصد بڑھا دیا ہے۔

اظہار:  روشن فکری کے حوالے سے نئی نسل کی بہبود کے لیے ایچ ڈی پی کے پاس کیا پروگرام ہے اورنوجوانوں کی فکری استعداد کو بڑھانے کے لئے وہ کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

خالق ہزارہ:  اس حوالے سے ہماری سوچ بہت کلیئر ہے۔  روشن فکری کے حوالے سے تو ایچ ڈی پی پر ہمیشہ فتوے لگے ہیں۔  ہم نے ہمیشہ رجعت کے خلاف بات کی ہے۔  ایچ ڈی پی کے پہلے چیئرمین جواد ایثار پر کفر کے فتوے لگے،  جب وہ ایچ ڈی پی میں نہ رہے تو مسلمان بن گئے۔  ابراہیم ہزارہ جب تک جنرل سیکرٹری تھا،  کافر تھا۔  اب دوسرے گروپوں میں ہے تو مسلمان ہے۔  جب سے ایچ ڈی پی عوام کی تائید سے طاقتور،  روشن فکر اور قوم دوست پارٹی بن کر ابھری ہے رجعتی قوتوں کے لیے پہلے یوسفی اور بعد میں خالق ہزارہ کافر بنا۔  ہم ہمیشہ اپنے کانفرنسز اور میٹنگز وغیرہ میں انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کے خلاف سخت لہجہ اور موقف رکھنے کے قائل ہیں۔  جہاں تک بات مطالعہ اور فکری استعداد کی ہے۔  جب سے نئی کیبینٹ آئی ہے انہوں نے باقاعدہ طور پر سٹڈی سرکل کا آغاز کیا ہے۔  ریگولر لیکچرز کا اہتمام ہوتا ہے،  سوالات کے جوابات کا اہتمام بھی ہوتا رہتا ہے،  تاہم کرونا وباء کی وجہ سے اس میں اب کچھ رکاؤٹ ہے۔

اظہار:   شہدا فیملی کی بہبود(بالخصوص ان کے بچوں کی تعلیم وغیرہ)  کے لیے آپ کی جماعت کے پاس کیا پروگرامز ہیں؟

خالق ہزارہ:  دیکھئے!  اس میں نیمسو جو ایچ ڈی پی کا رفاہی و فلاحی ادارہ ہے،  عموماً تنقید کا نشانہ بھی بنتا رہا ہے اور جس کا کردار ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔  اس وقت مری آباد اور خصوصاً ہزارہ ٹاؤن میں شہدا کے جو بچے ہیں ان کے سکول کی فیس،  کتابیں اور کاپیاں وغیرہ سب کا نیمسو انتظام کرتا ہے اور اس مد میں ماہانہ دو لاکھ کا خرچہ آتا ہے۔  حتیٰ کہ بچوں کا جیب خرچ بھی نیمسو کے ذمے ہے۔  ٹھیک ہے،  میں نہیں کہتا کہ ہم روزانہ سو روپے ان کو جیب خرچ دیتے ہیں لیکن ہم سے جو بنتا ہے اتنا ان کو فراہم کرتے ہیں اور اگر کوئی بچہ ہائیرایجوکیشن کے لیے اسلام آباد وغیرہ جائے تو اس کا پورا خرچہ ہم ادا کریں گے اور بھی پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے،  جو مکمل ہوتے ہی آپ کو پتہ چل جائے گا۔  ہمارے پاس اس وقت شہدا ء فیملی کی پوری لسٹ موجود ہے۔

اظہار:  آپ جناب نے دوسال قبل ایک نشست کے دوران پروگریسو اکیڈمک فورم کے دوستوں کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا،  کہ آپ شہید بینظیر ہسپتال میں اسٹاف کی کمی کو پورا کریں گے اور علاقے میں موجود علم و تعلم سے وابستہ غیرفعال عمارتوں کی فعالی پرعملی کام کرکے دکھائیں گے۔  کیا آپ اُن بند عمارتوں کی فعالی اور بینظیر ہسپتال میں اسٹاف کی کمی کو پورا کرنے میں آج بھی مستعدی دکھا رہے ہیں؛  یا وہ عہدوپیمان ہوا میں تحلیل ہوئی؟

خالق ہزارہ:  دیکھئے!  اس وقت بھی میں نے کہا تھا،  کہ پروگریسیو اکیڈمک فورم کے دوستوں کے صلاح و مشورے کے ساتھ ہم دیکھیں گے کہ کونسی بلڈنگ کس مقصد کے لیے موضوع ہے۔  اس حوالے سے سوسائٹی کے کچھ انجینئر حضرات سے بات چیت ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ہم سب ان تمام عمارتوں کا باقاعدہ دورہ کریں گے اور آگے کے لائحہ عمل کا تعین کریں گے۔  بدقسمتی یہ ہے کہ جو بھی بلڈنگ جس بھی نمائندے کے دور میں بنی ہے وہ اسے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھا ہے۔  حالانکہ یہ سب عمارتیں عوام کے پیسوں سے بنی ہے اور عوام ہی کے لیے ہیں۔  اب قبرستان سے منسلک یہ سفید عمارت جو بنی ہے اس کے لیے انہوں نے سوشل ویلفیئر کے سیکرٹری کو بلایا تھا۔  میں نے اس محکمہ کے منسٹر سے بات کی اور پوچھا کیا بنا رہا ہے؟  انہوں نے جواب دیا کہ:  ”سکول!“……یزدان خان سکول جو علمدار روڈ پر واقع ہے،  میں بائیس سو(2200)  طلباء کی گنجائش ہے،  وہاں چالیس سے پچاس ایس ایس ٹی ٹیچرز تعینات ہیں،  ڈیڑھ ڈیڑھ،  دو دو لاکھ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔  وہاں صرف تین سے چار سو تک طلبا زیر تعلیم ہیں۔  اسی طرح ہزارہ سوسائٹی سکول میں سترہ سو طلباء کی گنجائش موجود ہے،  وہاں سات سو(700)  زیر تعلیم ہیں۔  جبکہ سردار اسحاق خان سکول میں تو اڑھائی سو طلباء بھی نہیں۔  اب یہ آغا رضا خود کیا ہے،  جس نے یہ سفید عمارت مدرسہ اسٹائل کا بنایا ہے۔  وہ سمجھتا تھا،  کہ اگلی مرتبہ پھر منتخب ہو کر آؤں گا اور ایم ڈبلیو ایم کے لیے اس عمارت کو مسجد و مدرسہ بناؤں گا۔  اس سفید عمارت کے بابت بھی میں پروگریسو اکیڈمک فورم کی تجاویز کا خیرمقدم کروں گا۔  اور ایک ہال جو رقیہ ہاشمی کی نگرانی میں ہے،  اس پر بھی میری ان سے بات ہوئی ہے۔  میرے ایک جاننے والے کے گھر میں تین گونگے بچے ہیں،  جن کا گونگے بہرے بچوں کا ایک ایسوسی ایشن بھی ہے اور میں نے انہیں فنڈ بھی مہیا کی ہے۔  انہوں نے بھی ریکویسٹ کی ہے کہ گونگے اور بہرے بچوں کا کوئی اسکول بنائے۔  وہ ہال میں نے اسی لیے رکھا ہوا ہے اور اس کا اپروول بھی ہو چکا ہے،  مگر وہاں کے اہلیان محلہ اجازت نہیں دے رہے ہیں۔  مجھے معلوم ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور اس پر قبضہ کیا جائے اور ہماری کوشش ہے کہ وہ اسی مقصد کے لیے بن جائے،  جس کے لیے پیسہ بھی رکھا ہوا ہے۔  باقی تمام بلڈنگز اپنی جگہ پر،  ان پر آپ کی اور بعض دوستوں کی آراء اور انجینئرز کی اپروول چاہیے۔  اس پر پارٹی کی سینٹرل کونسل کی باقاعدہ میٹنگ ہو چکی ہے۔  انشاء اللہ باہمی مشوروں سے کچھ دوستوں سے،  اور یہ نہیں؛  کہ میں دوسروں کو بھی بلاؤں۔  وہ جو سوسائٹی میں اپنی فکر اور سوچ رکھتے ہیں اور حالات سے باخبر ہیں۔  ان سے ہم ان کی آراء لیں گے یہ بات ہماری منشور میں ہے۔  جہاں تک بینظیر ہسپتال کی بات ہے،  یہاں ہم ایک ہزارہ کو پہلے ایم ایس لائے اور اس سے کہا کہ ہم تمہیں مکمل سپورٹ دیں گے،  بس آپ کام کرو۔  مگر بعد میں وہ پٹری سے اتر گیا،  کیونکہ وہ شخص کسی کو نہیں مانتا تھا۔  اب میں وزیر اعلیٰ کو بھی بینظیر ہسپتال کا دورہ کرواؤں گا۔  ان دنوں میں نے وہاں کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں،  ڈائیلاسس مشین بھی رکوا دیا ہے۔  اس سے پہلے ایم پی اے حضرات ٹرانسفارمر وغیرہ پر پیسے نہیں لگاتے تھے،  کیونکہ ان چیزوں پر انہیں کمیشن نہیں ملتا تھا۔  ہسپتال لوازمات کے لیے میں نے بہت ساری چیزیں لی ہیں۔  پچھلے چھ سات مہینوں میں جتنا کام ہوا ہے وہ گذشتہ گیارہ سالوں میں نہیں ہوا ہے۔  آج میں یہ صاف صاف بتاتا ہوں،  کہ ایم ایس کو میں نے ہی تبدیل کیا ہے اور اسی شرط پر کیا کہ وہ ڈلیور کریں گے اور اب اسٹاف کی کمی بھی بہت جلد پوری ہو جائے گی۔ 

اظہار:   آج سوسائٹی ایچ ڈی پی میں بھی وہی سابقہ نمائندوں کے روایتی انداز اور ان کا وتیرہ دیکھ رہی ہے،  جن کا کام محض سڑکیں اور نالیاں بنانے تک محدود تھا۔  کیا ایسا ممکن نہیں!  کہ کراچی،  لاہور اور اسلام آباد وغیرہ میں زیرتعلیم ہزارہ طلبا و طالبات جو ہمارا مستقبل ہے،  کے لیے کسی رہائشی ہاسٹل کا بندوبست ہو؟  علاوہ ازیں زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی بڑی آبادیاں دیہاتوں اور کوہساروں میں بستی ہیں جہاں کاروباری میڈیاٹیکنالوجی کے اجارہ داروں کو اُن بیابانوں میں انٹرنیٹ کی سہولتیں پہنچانا سودمند ثابت نہیں ہوتیں،  اس لیے وہ صرف نظر کرکے انہیں اس ذریعہ ابلاغ سے محروم رکھے ہیں۔  کیا ایسی صورتحال میں آن لائن طریقہ درس و تدریس کا ریاستی فیصلہ آپ کو مناسب لگتا ہے؟

خالق ہزارہ:  دیکھیں!  آپ نے میری اسمبلی والی تقریر سنی ہوگی،  وہاں میں نے کہا تھا کہ مجھے میری کمیونٹی کے لیے مزید اسکول نہیں چاہیے،  بلکہ مجھے اپنے طلباء کے لیے اسکالرشپ چاہیے اور اسکالرشپ اب مل نہیں رہے،  جس کا ریکارڈ آپ اے جی آفس سے بھی منگوا کر دیکھ سکتے ہیں۔  غیر متعلقہ لوگوں نے اسکالرشپ کے نام پر رقوم نکلوائے ہیں،  کانوینٹ اسکول اورگرائمر اسکول میں پڑھنے والوں کو آٹھ لاکھ،  دس لاکھ ارب پتی کے بچوں کو چھ چھ لاکھ اسکالرشپ کے نام پر دیا گیا ہے۔  گدھا گاڑی اور ٹریکٹر چلانے والوں کے بچوں کو پانچ ہزار،  دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار روپے اسکالرشپ کے نام پر دیئے گئے ہیں۔  اس معاملے میں اتنی کرپشن ہوئی،   کہ بات عدالت تک جا پہنچی۔  اب عدالت نے ہماری صوابدیدی اختیارات ختم کر دی ہے  جس کے بعد ہم کسی کو دس ہزار روپے بھی نہیں دے سکتے۔  مگر لوگ میرے پاس بڑی امید کے ساتھ آتے ہیں اور میرے کاندھوں پر ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔  خدا کی قسم میں انہیں اپنی جیب سے ادائیگی کرتا ہوں۔  کسی کو دس ہزار دے دیئے اور کسی کو تین مہینوں کی فیس دے دی،  مگر میں توہر سائل کا مسلہ حل نہیں کر سکتا۔  پھر بھی میری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جام کمال صاحب سے کہوں اور دو تین کروڑ روپے نکلوا کر طلباء کے ہاسٹل کا خرچہ یا کسی اور مد میں لگا سکوں،  تاکہ ان بچوں کا بھلا ہو سکے۔  جہاں تک بات آن لائن تعلیم کی ہے تو اس سلسلے میں پارٹی کا بیان بھی آ چکا ہے،  کہ یہ طرزِتعلیم بلوچستان میں ممکن نہیں ہے،  بلکہ ہم اس سٹیج پر ہی نہیں ہے۔  آن لائن تعلیم کے لیے آپ کو لوازمات چاہیے،  چوبیس گھنٹے بجلی ہونی چاہیے،  ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ ہونا چاہیے اور لیپ ٹاپ کا ہونا بھی ضروری ہے۔  اب سب کی مالی حیثیت ایسی تو نہیں کہ اپنے بچوں کے لیے ان لوازمات کا بندوبست کر سکیں۔  ایسی صورتحال میں ایک دن میرا اپنا بیٹا اپنی ماں کی موبائل پر آن لائن کلاس لے رہا تھا،  مگر اسے بھی نیٹ کا مسلہ درپیش تھا۔  میرے چار بچے ہیں،  چاروں کے لیے الگ الگ لیپ ٹاپ چاہیے،  پھر چاروں کے لیے الگ الگ کمرے جہاں وہ ڈسٹرب ہوئے بغیر پڑھ سکے۔  تو میرے خیال میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ یہاں ممکن نہیں ہے۔

اظہار:  صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف وزری پر ایچ ڈی پی خاموش کیوں ہے؟

خالق ہزارہ:  ایچ ڈی پی کا موقف بہت کلیئر ہے۔  پہلے پہل پی ٹی ایم کو بہت سارے خوش خیال ہزارے سپورٹ کرتے تھے،  وہ سمجھتے تھے کہ یہ ترقی پسند ہے اور سب کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔  مگر جب ان کے بعض اراکین کی طرف سے ایسے بیانات آئے کہ وزیرستان سے لشکر لے کر ہزارہ جات کے ہزاروں پر حملے کریں گے،  تو اس واقعہ کے بعد ہزارہ افراد کو ہوش کے ناخن آئے،  جب ہم ایک ملک میں رہتے ہیں اس کے آئین اور عدالتوں کو مانتے ہیں،  یہاں کے قانون کو قبول کرتے ہیں،  سرکاری نوکریاں کر رہے ہیں،  تو کیا تک بنتا ہے کہ ہم ریاست کو نہ مانیں۔  ریاست کے خلاف باتیں وہ کرتے ہیں جن کا اپنا ایک الگ ایجنڈا ہے۔  جو لوگ قانوں اور آئین کے دائرے میں رہتے ہیں ہم ان کا ساتھ دیتے ہیں۔  ہم نے کئی مرتبہ نیشنل پارٹی اور بی این پی کے دوستوں کے جائز مطالبات میں ساتھ ان کا ساتھ دیا ہے۔  اب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اور کابینہ ممبر ہوتے ہوئے میں کسی ناجائز مطالبے کا ساتھ نہیں سکتا اور نہ ہی میری قوم اس چیز کی متحمل ہو سکتی ہے۔

اظہار:  گذشتہ دو سالوں سے ایچ ڈی پی کے دو ایم پی ایز(آپ اور قادر نائیل صاحب)  حکومتی بینچوں پر براجمان ہے۔  پارٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے،  کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اِس دوران آپ صاحبان نے اپنے ترقیاتی فنڈز کہاں اور کس مد میں استعمال کیے ہیں اور آئندہ سالوں میں کہاں اور کس مد میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟  نیز عوامی یہ مسائل عوام ہی سے منسلک ہیں،  کیا آپ نے عوام کی رائے اور منظوری کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں اعتماد میں لیا ہے؟  اور اگر ہاں!  تو اپنی کارکردگیوں کو بشکل وائٹ پیپر کب شائع کریں گے؟

خالق ہزارہ:  گذشتہ نمائندوں کی بہ نسبت میرے لیے مواقع بہت کم ہے اس لیے میں ادارہ قالین باقی اور بی ایچ یو کی پرانی اور خستہ عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کروا رہا ہوں۔  میں بیس بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی بنا رہا ہوں،  جسے بعد میں پچاس بستروں تک لے جانے کی کوشش کروں گا۔  میں سپورٹس کمپلیکس بھی بنانا چاہتا ہوں مگر اس کے لیے چالیس یا پچاس ایکڑ کی جگہ درکار ہوتی ہے اور ہمارے علاقے میں جگہ بالکل نہیں ہے۔   جہاں تک ہماری کارکردگیوں کا عوامی رائے سے تعلق کا معاملہ ہے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پارٹی کی ڈسٹرکٹ کونسل،  حلقہ کونسل اور بنیادی یونٹ ہمہ وقت عوام سے رابطے میں رہتے ہیں اور انہی کی مشاورت سے ہم ترقیاتی کاموں کو سرانجام دیتے ہیں۔

اظہار:  کوئٹہ میں پینے کے پانی کی قلت کے حوالے سے ایچ ڈی پی ایک اقدامات کررہی ہے؟

خالق ہزارہ:  اس سلسلے میں ہم سب کو مل کر عوامی شعور پر کام کرنا چاہیے تاکہ پینے کا پانی کم از کم ضائع ہو۔  اس معاملے میں پی ایچ ای اور واسا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

اظہار:   ”اگر قومی تحویل میں لئے گئے اداروں کو واپس کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانی ریاست کو برباد کرنا ہے“  ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی یہ جملہ 17ستمبر1977ء کو ایک اردو اخبار میں دوران انٹرویو شائع ہوا تھا۔  یوں تو عالمی طور پر سرمایہ داری نظام کے اندر پرائیوٹائزیشن/نجکاری کا فیصلہ 1973ء  کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد کیا گیا۔  لیکن یہاں فوجی آمر ضیاء کی طرف سے فروری 1991ء میں الائیڈ بینک کو اونے پونے  فروخت کرکے اس سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا؛  جبکہ پی ٹی سی ایل،  اسٹیل ملز،  پی آئی اے کی ملکیت روزوِلٹ ہوٹل اور خود پی آئی اے کی نجکاریاں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔  آپ اس سلسلے(پرائیویٹائزیشن)  کو عوامی بھلائی کے لیے کس طرح دیکھتے ہیں؟  کیا اس سے عام لوگوں کی زندگیوں میں سدھار آنے کی امید ہیں؛  یا  ریاست مزید انارکی کی طرف گامزن ہوگا؟

خالق ہزارہ:  میں آپ دوستوں کا مشکور ہوں کہ آپ ایچ ڈی پی کو اس نہج پر رکھ رہے ہیں کہ پرائیویٹائزیشن کے بارے میں لب کشائی کرے۔  بہرحال پرائیویٹائزیشن سے جو خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس سلسلے میں ایچ ڈی پی دیکھ رہی ہے کہ آج اسٹیل ملز اور پی آئی اے کہاں کھڑی ہیں،  کیا آپ ان کی کارکردگیوں سے مطمئن ہے؟  انہیں جن مقاصد کے لیے لگایا گیا تھا کیا وہ مقاصد پوری ہو رہی ہیں؟  کیا یہ محکمے ریاست کو کچھ دے رہے ہیں یا ریاست پر بوجھ بنے ہیں؟  ہمیں نظر آرہا ہے کہ یہ محکمے بذات خود اپنے اضافی اور مفت خور مزدوروں کا بوجھ نہیں سنبھال سکتے۔  ہم فرض کر لیتے ہیں اس کمرے میں آٹھ دس بندوں کی گنجائش ہے تو ہم اس میں سو بندے کیسے بٹھا سکتے ہیں؟  آپ سوئی سدرن گیس کمپنی کے ملازمین کی ٹاٹ باٹ کو دیکھ لیں،  اس کے ملازمین کی تنخواہیں اور سہولیات بہت سے محکموں پر بھاری ہیں،  لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔  میرا وزیر اعلیٰ ہاؤس اسلام آباد میں محکمہ گیس کے اعلیٰ آفیسروں سے ملاقات ہوئی تو میں نے سوال اٹھایا کہ آپ کے محکمے نے 1970ء کے بعد جب آپ نے کوئٹہ کو گیس فراہم کی،  صرف ایک پائپ لائن تبدیل کی ہے باقی وہی بوسیدہ پائپ لائنیں آج بھی موجود ہیں جبکہ پیسے اور سہولیات آپ دھڑادھڑ لے رہے ہیں میرے سوال پر وہ لاجواب ہوئے۔  اس بوسیدہ سسٹم میں جہاں آپ سو بندوں سے کام نہیں لے سکتے وہاں آپ پرائیویٹائزیشن میں وہی کام آٹھ بندوں سے پورا کر سکتے ہیں۔  یہی حال اسٹیل ملز کا ہے،  میرا ایک جاننے والا اسٹیل ملز کراچی کے نمائندے نے یہ انکشاف کیا کہ اگر سسٹم اسی اسٹیل مل کو درست انداز میں چلائے تو یہی مل پورے پاکستانیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔  میں تو وفاقی حکومت کی نااہلی دیکھ کر حیران ہوں کہ انہوں نے پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں والے پائیلیٹس کے ذکر کو زبان زد عام کیوں کیا؟  جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی اور پی آئی اے پر پابندیاں بھی لگیں۔  لیکن آنے والے دنوں میں اس کے متبادل کیا آرہا ہمیں اسے دیکھنا ہوگا۔  ان خرابیوں کا جو بھی ذمہ دار ہو؛  چاہے وہ سیاستدان ہو یا بیوروکریسی!  جس نے بھی یہ خرابیاں پیدا کی ہے اس نے سسٹم کو تباہ کیا ہے۔  یہ ادارے اب مفلوج ہو چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ان سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔مگر آخر کب تک؟  جہاں ان محکموں کے بوجھ نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے وہاں ان کے پرائیویٹائزیشن میں جانے کے علاوہ کوئی حل ہی نہیں ہے۔  اگر صورتحال یہی رہی تو ایک ایک کرکے تمام محکمے اس کی زد میں آ جائیں گے۔

خالق ہزارہ:   آخر میں اظہار کے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو میرے غریب خانے میں تشریف لائے اور اس نشست کا اہتمام کیا اظہارڈاٹ نیٹ کے پلیٹ فارم سے پوری قوم کے لیے میری اور ایچ ڈی پی کی جانب سے ڈھیروں نیک تمنائیں۔

0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *