رمضان المبارک کے آخری جمعے کو آئی ایس او اور تحریک جعفریہ پاکستان یوم القدس کے طور پر مناتی ہیں۔ یہ یوم جمہوری اسلامی ایران کے بانی، اس وقت کے ولی فقیہ روح اللہ خمینی کے ایک فرمان کے نتیجے میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطین میں مظلوم فلسطینی عوام پر جو انسانیت سوز مظالم ابتک ڈھائے جارہے ہیں، وہ قابل مذمت ہے۔
ماضی میں پاکستان کے باقی شہروں کی طرح کوئٹہ میں بھی اسی سلسلے میں بعد از نماز جمعہ ایک ریلی نکالنے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں 3 ستمبر 2010 کو بھی ایک جلوس نکالا گیا جس کے نتیجے میں ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا اور نہ صرف 84 بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ سو سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔
مذکورہ واقعے سی متعلق اب بھی بہت سارے جواب طلب سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پہلے دن کی طرح موجود ہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق صوبائی انتظامیہ، شیخ جمعہ اسدی کو یہ اطلاع دے چکی تھی کہ ریلی کے شرکا کو دہشتگردوں کی جانب سے خطرہ ہے، لہذا ان مخدوش حالات میں اسے ملتوی یا پھر اسکا روٹ تبدیل کیا جائے۔ اس واقعے کے بعد، ہزارہ قومی جرگے کے سابق سربراہ مرحوم حاجی قیوم صاحب نے غالباً اپنے ایک سوشل میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے انتظامیہ کے اس انتباہی پیغام کو، ان کے بقول شیخ اسدی اور مہدی نجفی تک پہنچا دیا تھا۔ مرحوم کے بقول انھوں نے نماز جمعہ اور ریلی میں شرکت نہیں کی، جس کا سبب انہوں نے اپنی ناسازی طبعیت بتایا تھا۔ اس المناک حادثے کے بعد علامہ جمعہ اسدی نے میچد ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے دو انتہائی اہم اور معنی خیز باتیں کیں۔
اوّل ۔ ریلی کے شرکا کو مالی باغ کے مقام پر انتظامیہ نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کے مطابق ابھی وہ علامہ نجفی سے اس سلسلے میں گفتگو کر ہی رہے تھے کہ کچھ نادان اور مشتعل نوجوان پولیس اور انتظامیہ کی بات نہ مانتے ہوے جلوس کو میزان چوک کی جانب لے گئے۔
دوئم ۔ یاد رہے کہ اس ریلی سے کچھ دن پہلے امریکی سفیر بھی کوئٹہ آئے تھے اور وہاں امریکی قونصلیٹ کو موضوع پر بات چیت جاری تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمعہ کے خطبے میں ایسی کونسی اشتعال انگیزی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں لوگوں میں اشتعال پھیل گیا تھا؟
جناب اسدی کے مطابق میزان چوک پر دھماکے کے ساتھ ہی فائرنگ بھی شروع ہوئی تھی۔
مرحوم حاجی قیوم صاحب کےمطابق پولیس صبح سے ہی مسلح نفری چھت پر تعینات کر چکی تھی۔
عموماً یوں ہوتا ہے کہ امام جمعہ نمازیوں سے جمعے کے خطبے کے دوران یا اختتام پر، ان سے یوم القدس کے جلوس میں شرکت کی گزارش کرتا ہے ۔ مگر 3 ستمبر کو پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت، مبینہ طور امام بارگاہ کلان کے دوسرے دروازوں کو بند کردیا گیا تاکہ نمازیوں کو ایک ہی دروازے سے زبردستی جلوس میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاسکے۔
معروف سیاسی اور سماجی کارکن میڈم رخسانہ احمد کے مطابق نمازیوں کو آللہ اور رسول کی قسمیں دے دلا کر ریلی میں شرکت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ہر سال کی طرح اس ریلی کی قیادت عموما امام جمعہ کرتا ہے مگر اس وقت کے دستیاب شواہد کے مطابق (فوٹو اور ویڈیو میں) یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ریلی کی قیادت بالکل مفقود نظر آرہی تھی۔
انتظامیہ سے وعدے کے برخلاف جب یہ ریلی علمدار روڈ کے بجائے میزان چوک کی جانب جانے لگی تو پولیس نے انہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن اسی اثناء میں کچھ جذباتی نوجوان پولیس کے ساتھ ہاتھاپائی کرنے لگے جس پر انتظامیہ نے مجبور ہوکر انہیں آگے جانے کی اجازت دیدی۔
دستیاب ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب یہ ریلی میزان چوک پہنچی تو اسوقت بھی ٹریفک رواں دواں تھی۔ عموماً یوں ہوتا ہے کہ شرکا کے تحفظ کی خاطر ریلی کے ساتھ چلنے والی ٹریفک کو کچھ دیر کیلے بند رکھا جاتا ہے اور ریلی کے آگے پولیس کے دستے متعین ہوتے ہیں۔
لیکن 3 ستمبر کی ریلی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جیسا کہ شواہد سے ظاہر ہے۔ دھماکے سے کچھ لمحے پہلے تک تو پولیس موجود نہیں تھی مگر یہاں دوبارہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریلی کی قیادت اس وقت کہاں تھی؟
راقم ستمبر کے آخری ہفتے میں کوئٹہ میں تھا۔ میزان مارکیٹ میں واقع ایک دوکاندار سے جب اس واقعے کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ دھماکے کے ساتھ ہی فائرنگ شروع ہوگی تھی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ فائرنگ مارکیٹ کے اوپر سے ہورہی تھی جس سے حاجی قیوم مرحوم کی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ مگر کچھ عینی شاہدین اور اسوقت کے ایک پولیس آفیسر کے مطابق ریلی کے کچھ جذباتی نوجوان بھی مسلح تھے۔ دھماکے سے زیادہ زخمی اور اموات پولیس، فرنٹیر کور کے اہلکاروں کی گولیاں لگنے سے ہوئیں۔ بعد میں اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بھی بنایا گیا تھا جو کسی بے گناہ کو انصاف دیے بغیر شاید اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔
اس واقعے کے حوالے سے بہت سارے سوالات جو ابھی تک جواب طلب ہیں۔
1۔ انتظامیہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود ریلی کو ملتوی یا پھر مختصر کیوں نہیں رکھا گیا تھا ؟
2۔ ریلی کے منتظمین، جلوس کو میزان چوک ہی لےجانے پر بضد کیوں تھے؟
3۔ نماز جمعہ کےخطبہ میں ایسی کونسی اشتعال انگیزی کی گی تھی جس سے نوجوان مشتعل ہوگئے تھے؟
4۔ بعض نوجوان نمازیوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا تھا ؟
5۔ جب ریلی میزان چوک پہنچی تو پوری قیادت کہاں غائب تھی؟
6۔ کسی بھی سیاسی یا مذھبی جلوس پر حملے کا ہدف عموما قیادت ہی ہوتا ہے لیکن 3 ستمبر کے واقعے میں قائدین کو ایک خراش تک نہیں آئی۔
7۔ “شہادت افتخار ماست” کا نعرہ لگانے والے علماء لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر کہاں غائب ہوگئے تھے اور روپوشی کیوں اختیار کی تھی؟
8۔ سید ہاشم موسوی کو اس سانحے کے چند دن بعد گرفتار کرنے کے بعد کس کے احکامات پر اُسی شام رہا کر دیا گیا تھا؟
۹۔ آخری سوال، علماء کی طرف سے ہر سال 3 ستمبر کی ریلی پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے اور 3 ستمبر 2010 کا واقعہ، 6 جولائی 1985 کے سانحے سے اتنی مشابہت کیوں رکھتا ہے؟
Latest posts by ذاکر مختار (see all)
- کوئٹہ 3 ستمبر 2010 کا المیہ!۔۔۔ ذاکر مختار - 20/05/2020