ناکہ بندی ( لاک ڈاؤن ) ۔۔۔ طلاء چنگیزی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں کوئی وبائی بیماری پھوٹ پڑی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بیماری میں مبتلا ہو کر مرنے لگی۔ ہر طرف افراتفری اور
نفسانفسی پھیلنے لگی۔ لوگ ایک دوسرے کے سائے سے بھی ڈرنے لگے۔ مکین اپنے شہروں سے نقل مکانی کرنے لگے جس سے شہر کے شہر ویرانی کا منظر پیش کرنے لگے۔
 
اِسی ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں عاجز خان نام کا ایک دکاندار رہتا تھا۔ گاؤں کا واحد دکاندار ہونے کی وجہ سے عاجز خان کو ہر مہینے شہر جاکر اپنی دکان کے لیے سودا سلف لینا پڑتا تھا۔ اِس مرتبہ واپسی پر اُس نے گاؤں کے لوگوں کو اس وبائی بیماری کے بارے میں بتایا جس نے پورے ملک میں تباہی مچا رکھی تھی۔ لوگوں نے یہ بات حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سنی۔ گاؤں کی اکثریت کھیتی باڑی سے وابسطہ تھی اور ہر مسئلے میں بڑے سردار کی طرف دیکھتی تھی۔ عاجز خان کا اپنا کاروبار تھا اس لئے وہ سردار سے اتنا نہیں دبتا تھا جتنا دوسرے لوگ دبتے تھے۔ اس بات کا قلق سردار کو بھی تھا۔
 
جب اِس وباء کی بازگشت سردار کے کانوں تک پہنچی تو اُس نے گاؤں کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمہ گاؤں کے مکینوں کو اس وبائی عفریت سے بچانا تھا۔ اس کمیٹی کا سربراہ جابر ترکان کو بنایا گیا۔ جابر ترکان کی ویسے بھی عاجز خان سے نہیں بنتی تھی۔ اس نے بڑے سردار اور کمیٹی کے اراکین کے سامنے یہ بات رکھی کہ چونکہ عاجز خان شہر سے ہو کر آیا ہے اور اس وبائی بیماری سے متاثر ہوسکتا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ اُسے اس کے گھر پر نظر بند کیا جائے اور اس کی دکان جلا دی جائے۔ گاؤں کے لوگ پہلے سے خوف زدہ تھے اور کمیٹی کے کچھ ارکان بھی پیٹھ پیچھے عاجز خان سے حسد کرتے تھے اس لیے یہ بات ان کے دل کو لگی۔ عاجز خان اور گنتی کے چند افراد نے کافی احتجاج کیا لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی اور کھانے پینے کا کچھ سامان دے کر اسے اس کے گھر پر زبردستی قید کردیا گیا۔ پھر جابر ترکان نے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے اس کے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں مضبوطی سے بند کر دیں تاکہ وباء کسی طرح باہر نہ نکل سکے۔
 
اسکے بعد گاؤں والوں نے اس کی دکان پر دھاوا بول دیا اور سارا سامان لوٹ کر اسے نذر آتش کردیا تب کہیں جا کر گاؤں والوں کو قدرے سکون ملا اور ان کی جان میں جان آئی ۔ ہر رات کی طرح گاؤں کے وسط میں واقع پنڈال میں اِکھٹے ہو کر سب نے جابر ترکان کو اسکے عقلمندانہ فیصلے پر داد اور کمیٹی اراکین کو شاباش دی جو اس نے خوشی خوشی وصول کی۔
 
لیکن دانا جو کہتے ہیں کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ اُسی رات بڑے سردار کا ایک دور کا رشتہ دار بھی شہر سے بھاگ کر اُن کے پاس آیا لیکن اس نے یہ بات چھپا کر رکھی۔ بلکہ سب سے یہ جھوٹ بولا کہ وہ پاس کے گاؤں سے آیا ہے۔ سب گاؤں والے تپاک سے اُس سے ملے اور پھر اگلے دن سب بے فکر ہو کر اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوگئے۔
 
اس واقعے کے کئی ہفتوں کے بعد جب ملک میں وباء کا اثر کچھ کم ہوا اور حالات بہتر ہونے لگے تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو ملک کے طول و عرض میں روانہ کردیا تاکہ بچ جانے والے لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ ایک دستے کا گزر اُس گاؤں سے ہوا تو انہیں سارا گاؤں ویران اور سنسان نظر آیا۔ وہ وہاں سے آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ انہیں لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے مضبوطی سے بند کئے ہوئے ایک گھر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ کلہاڑی کی مدد سے دروازہ توڑ کر جب وہ اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک کمزوراور نڈھال شخص ملا۔ پوچھنے پر اس نے اپنا نام عاجز خان بتایا۔ سپاہیوں سے گاؤں کے دوسرے افراد کے بارے میں استفسار کرنے پر کماندار نے اسے بتایا کہ پورے گاؤں میں وہ واحد شخص ہے جو زندہ بچا ہے۔ اب کماندار کی باری تھی اس نے عاجز خان سے اس پورے قضیے کے بارے میں پوچھا کہ گاؤں والوں نے اسے کیوں اسکے گھر پر قید کر رکھا تھا۔ اس پر عاجز خان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
 
“انہوں نے مجھے نہیں بلکہ آپنے اندرونی خوف اور نفرت کو یہاں مقید کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں شاید علم نہیں تھا کہ انسانوں کو وباء سے بھی زیادہ خطرہ آپس کے تعصب، اندرونی خوف اور جہالت سے ہے”۔
جاوید نادری
0 Shares

One thought on “ناکہ بندی ( لاک ڈاؤن ) ۔۔۔ طلاء چنگیزی

  1. سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں کہ کہانی کی شہادت کی انگلی کن کی جانب اشارہ کررہی ہے، جو سمجھنا نہیں چاہتے وہی تیسری دنیا کے ایک پاکستان نامی ملک میں کہانی کے سردار اور جابر ترکان والے کردار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *