خمس ایک نسلی ٹیکس … اسحاق محمدی

 خمس ایک نسلی ٹیکس

 تحریر:  اسحاق محمدی

تاریخ اور اسلامی فقہہ کے تناظرمیں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ خمس کا شمار مروجہ شیعی معنوں یعنی ایک واجب اسلامی ٹیکس کے طور کبھی نہیں ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر جب بعض اصحاب کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے تو سورہ انفال کی آیت 41 نازل ہوئی جس میں حکم ہوا  “اور جان لو کہ غنیمت سے جو مال تمہیں حاصل ہوا ہے اسکا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے قرابت داروں اور یتیموں اور ناداروں اور مسافروں کے لئے ہے”۔ چنانچہ حضوراکرم کے پورے دور میں یہی روش اپنائی گئی۔ تاریخ میں یہ عمل انہونی نہیں، تقریباً تمام فاتحین، سرداران لشکر اس طرح کے حق سے بہرہ ور  ہوتے رہے ہیں۔ حضرت عمر کے دور میں جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور مال غنیمت کے ڈھیر لگنے لگے تو ابتداء میں وہ نبی اکرم کے ذی القرباء ہونے کے ناطے بنی ہاشم کو خمس دیتے رہے لیکن بعد میں یہ کہہ کراسے بند کرنے کا حکم صادر کردیا کہ اب ان کے پاس اسقدر دولت آگئی ہے کہ مزید دینے کی ضرورت نہیں۔ بعد کے آنے والے خلفاء بشمول امام علی اور امام حسن نے بھی یہی روش اپنائی۔ بعد از آں بنی امیہ  اور بنی عباس کے طویل ادوار حکومت میں بھی خمس کے حصول کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا، حالانکہ بنی عباس خود سید تھے اور بقول آیت اللہ برقعی “اگر وہ چاہتے تو مزید اربوں دینار اکھٹے کرسکتے تھے کیونکہ پورے مشرقی وسطی، مرکزی ایشیا اور سندھ تک ان کی حکومت تھی” (لنک منسلک ہے)۔ اسی طرح شیعہ فرقہ کے ابتدائی امامان جیسے امام علی، امام حسن، امام حسین، امام سجاد، امام باقر کے ادوار میں بھی خمس نام کا کوئی ٹیکس نظر نہیں آتا۔ بالکل اسی طرح سواد اعظم کے چاروں امامان، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام حنبل  بھی خمس کو ایک واجب الادا اسلامی ٹیکس تسلیم نہیں کرتے گویا یہ ثابت ہے کہ

 “مروجہ شیعی معنوں میں خمس نام کا کوئی اسلامی ٹیکس سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا یہ مذہب کے نام پر زبردستی ان کے سر پر تھونپا گیا ہے”

                                                                                                                               

 آیت اللہ سید کمال حیدری کے مطابق امام جعفرصادق اور خاص طورپر امام موسیٰ کاظم اور بعد کے دور سے شیعہ امامان کی طرف سے خمس کے صرف تذکرے ملتے ہیں جب کہ عملی لحاظ سےاس کا وصول  ان کےلئے ناممکن تھا کیونکہ وہ خلفائے آل عباس کا دور تھا جو اگرچہ رشتے میں آل علی (علوی) کے چچازاد بھائی تھے لیکن خلافت و اقتدار میں ان کے سخت حریف تھے۔  اس لئے خلفائے بنی عباس کسی طوریہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے علوی رقیب مالی لحاظ سے اسقدر مضبوط ہوں کہ ان کی خلافت کے لئے خطرہ بن سکیں۔ لہذا کسی شیعہ امام کو کھلے عام خمس لینے کی جرات نہیں تھی، اس لئے اکثر وہ (امامان متاخر) فقر وتنگ دستی کے ہاتھوں نالاں رہے۔ اس کا ایک تذکرہ شیخ باقرمجلسی کی کتاب بحارالانوار جلد 11 میں امام موسی کاظم اور خلیفہ ہارون الرشید کی ایک گفتگو میں ملتا ہے جس میں امام موسی کاظم اپنی تنگ دستی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بحار الانوارمیں دو اور تذکرے یوں ملتے ہیں

” خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ مدینہ آئے اور دربار لگایا تو یہ حکم دیا کہ ہر ملاقاتی، اس کے سامنے پیش ہوتے وقت اپنا تفصیلی شجرہ نسب بیان کرے۔ خلیفہ نے ہر ملاقاتی کو اس کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ایک ہزار تا پانچ ہزار درہم  بطور بخشش دیا۔ ایسے میں جب ایک ملاقاتی نے اپنا تعارف موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے طورپر کیا تو خلیفہ نے اسے صرف دو سو درہم دے کر چلتا کردیا۔ جب ایک درباری نے اس کی وجہ پوچھی تو خلیفہ ہارون نے کہا کہ اگران کا پیٹ بھر جائے تو یہ خلافت کی فکر کرنے لگیں گےاس لئے ان کا بھوکا رہنا ہی ہم سب کے مفاد میں ہے” جب کہ ایک اور واقعہ  کچھ اس طرح ہے کہ امام موسیٰ ابن جعفر نے بتایا کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے مجھے بلا لیا، جب میں دربار پہنچا اور سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب نہیں دیا اور میری طرف غضبناک انداز میں دیکھتے ہوئے ایک مکتوب میری طرف پھینک دیا، جس میں لکھا تھا کہ بعض علاقوں کے شیعہ اپنے خراج (ٹیکس) خلیفہ کے بجائے موسیٰ بن جعفر کو بھیج رہےہیں۔ میں کھڑے کھڑے مکتوب پڑھ رہا تھا اور وہ ساکت بیٹھا ہوا تھا۔ مکتوب کافی طویل تھا، وہ درمیان میں ہی بول پڑا، جتنا پڑھ چکے ہو کافی ہے۔  اب وضاحت دو!  میں نے عرض کیا “یا امیرالمومنین قسم اس خدا کی جس نے (حضرت) محمد کو نبوت دی ہے کسی نے بھی خراج (ٹیکس) کی مد میں ایک ٹکا بھی میرے لئے نہیں بھیجا۔  البتہ میں نذرانے قبول کرتا ہوں”   (از کلینی تا خمینی ص399)۔ میرے خیال میں کوئی ذی عقل خلیفہ یا حکمران کسی فرد یا خاندان کو نسلی اور خونی برتری کی بنیاد پر عوام سے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں دے سکتاتھا کیونکہ اس صورت میں اس کی اپنی حکمرانی پر سنگین سوالات اٹھ سکتے تھے۔  

ایران میں صفوی دور حکومت 1736- 1502سے قبل سنی مکتبہ فکر کی اکثریت تھی لیکن صفوی حکمرانوں نے بزور شمشر انہیں شیعہ بننے پر مجبور کیا۔ آس پاس کے ممالک خاص طوپر لبنان کے جبل العامل سے شیعہ علماء کو بلوا کر ان سے کتابیں لکھوائیں اور فارسی میں ان کے ترجمے کروائے۔ لمعہ، جامع عباسی سمیت سینکڑوں معروف کتابیں اسی دور کی پیداوار ہیں۔  نیز دربار میں انہیں بڑے بڑے عہدے بھی دیئے گئےلیکن انھوں نے کبھی ان کو مشیر کی حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ تاہم آخری صفوی حکمران جب زوال کی طرف بڑھنے لگے  تو اقتدار کے مالک یہی درباری علماء بن گئے جن میں شیخ مجلسی پیش پیش تھا۔ اسی دور میں انہوں نے اپنے طبقاتی مفادات کے ضمن میں کئی بڑے اقدامات اٹھائے جن میں  ملاؤں کے طبقے کو امام زمان کا نائب ڈیکلیئر کرانا اور نائب ہونے کے ناطے خمس کی وصولی کا مستحق ٹھہرانا بھی شامل تھا۔ قاجار (قاچار) دور کے کمزور حکمرانوں میں یہ بدعت مزید بڑھتی گئی۔ اس طرح یہ طبقہ بیٹھے بٹھائے سونے کی کانوں کے مالک بن گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مکروہ دھندہ پچھلے کم از کم ڈھائی صدیوں سے جاری و ساری ہے جس کے باعث سالانہ اربوں روپے خمس کی مد میں گنتی کے چند مذہبی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں جن کا واحد کمال یہ ہے کہ وہ صاحب رسالہ یعنی صاحب “توضیح المسائل” نامی کتاب ہیں(1)۔ بظاہر یہ خطیر رقم صرف دو شعبوں میں خرچ کرنے کےلئے مختص ہے:

1۔ سادات کے نام سے موجود ایک نسلی گروہ پرجو شاید مسلمان آبادی تو بہت دور کی بات ہے شیعہ آبادی کا 1 فیصد بھی نہیں۔

2۔ فرسودہ قرون وسطائی بنیادوں پر قائم  مدرسوں اور ان کے طلاب پر جن کی تعداد اس موجودہ دور میں بھی (جسے ان کے عروج کا دور کہنا چاہیے) دو ڈھائی لاکھ سے زیادہ نہیں۔

باقی اس خطیر خطیر رقم کا نہ کوئی اتہ پتہ ہے اور نہ کوئی حساب و کتاب اور نہ ہی یہ مذہبی  ٹھیکےداران اس بابت کسی کے سامنے جوابدہ۔ خمس کے سالانہ حجم کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سالانہ 500 تا 700 ملین ڈالر خمس کی رقم صرف آیت اللہ سیستانی کو بھیجی جاتی ہے (لنک منسلک ہے)۔  باقی سینکڑوں مراجع ان کے علاوہ ہیں۔ اس طرح کا یکطرفہ طاغوتی نظام اس جدید دنیا میں صرف شیعہ اثناء عشری پر ہی نافذ نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ کاسٹ سسٹم پر مبنی ہندو سماج میں جہاں نچلی ذات کے شودروں کو اعلیٰ نسل کے برہمنوں کو جو ٹیکس دینا پڑ تا تھا اسے بھی ماضی کا حصہ بنےکئی عشرے  گزر چکے ہیں۔ ایک اور دلچسپ نکتہ آیت اللہ کمال حیدری یہ اٹھاتے ہیں کہ خمس کو واجب قرار دینے والے مجتہدین سالانہ آمدنی کے علاوہ تمام معدنی ذخائر جیسے تیل، گیس، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات اور یورینیم وغیرہ پر بھی خمس کی ادائیگی واجب  قرار دیتے ہیں خواہ وہ نجی ملکیت میں ہو یا قومی ملکیت میں۔  اس وقت دو ممالک ایران و عراق پر بالواسطہ یا بلاواسطہ شیعہ مجتہدین کی حاکمیت قائم ہے جب کہ وہ  خود ایک  ٹکا خمس بھی کسی مجتہد کو نہیں دیتے۔ بقول جناب حیدری ” اس سے صاف پتہ چلتا ہے یہ ایک کھلی ڈاکہ زنی ہے” (لنک منسلک ہے)۔

  حالیہ سالوں کے دوران گنتی کے چند علماء مثلاً آیت اللہ سید ابوالفضل برقعی، آیت اللہ سید کمال حیدری، آیت اللہ علی محقق نسب وغیرہ نے اس آشکارا بدعت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جسارت کی ہے جو  اگرچہ اب تک زیادہ کارگرثابت نہیں ہوسکی ہے، تاہم قابل اطمینان بات یہ ہے کہ یہ مخالفانہ آواز اسی طاقتور مذہبی طبقے کے اندر سے اٹھ رہی ہے اور آہستہ آہستہ سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے اندر جگہ بناتی جارہی ہے۔ ان میں بلاشبہ جناب علی محقق نسب کی آواز اس حوالے سے زیادہ منفرد ہے کہ وہ خمس کی بنیاد پر سوال اٹھانے کے علاوہ اسے ایک نسلی اور خونی برتری کے ٹیکس سے  تعبیر کرتے ہیں جو اسلام کے بنیادی اصول “اکرمکم عنداللہ اتقاکم” کے صریحاً خلاف اور 21ویں صدی کے اس دور میں انسانیت کے لئے شرمندگی کا باعث بھی ہے۔ آیت اللہ علی محقق نسب کی ایک اور مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ فقہی اعتبار سے “امام” کا کام شرعی احکام کی صحیح تشریح ہے، وہ ان احکامات میں کمی بیشی کا حق نہیں رکھتا، مزید یہ کہ جب  انبیاء بشمول حضرت محمد نے اپنی پیغمبری کے بدلے  لوگوں سے معاوضہ طلب نہیں کیا تو امام کو بھی اس طرح کا معاوضہ لینے کا کوئی حق نہیں (لنک منسلک ہے)۔

 اندریں بابت جناب آیت اللہ علی محقق نسب کی تحقیقی کتاب “ولایت فقیہ و مرزہائی جغرافیائی” پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔  اس کے علاوہ ان کی متعدد ویڈیوز نیز آیت اللہ سید ابوالفضل برقعی اور آیت اللہ سید کمال حیدری کی متعدد دیگر ویڈیوز یوٹوب پر موجود ہیں۔ اسی طرح اس سوال سے متعلق کہ شیعہ علماء جو پہلے پہل سیاسی اور معاشی پاورسٹرکچر میں کہیں نظر نہیں آتے تھے کیوں کر سب پر حاوی ہوتے چلے گئے، علی احمد راسخ کی یہ تحریر پڑھنے لائق ہے۔

نوٹ: توضیح المسائل نامی کتاب کی کہانی بے حد دلچسپ ہے۔ اس بابت کبھی موقع ملا تو لکھنے کا ارادہ ہے۔ یہ کتاب شاید 1950ء کی دہائی کے دوران ایک اوسط لیول کے عالم اصغرکرباسچی کی لکھی ہوئی ہے جسے کافی عوامی پذیرائی ملی تھی جس کے بعد  ہرمرجع  اس کی نقل کرکےاپنے نام سے شائع کرتا چلا آرہا ہے۔ اس بابت علی محقق نسب نے ولایت فقیہ میں  تفصیل سے لکھا ہےجو کافی ہوشربا ہے۔

Links

 http://www.bbc.com/persian/blog-viewpoints-43016014

https://www.youtube.com/watch?v=o3za0R-9o5g

https://www.youtube.com/watch?v=nYG81zQ3AE8

https://www.youtube.com/watch?v=Ys8J5lL_jI0

https://apps.dtic.mil/dtic/tr/fulltext/u2/a472141.pdf

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *