ہزارہ ایران میں ….. اسحاق محمدی

ہزارہ ایران میں

تحقیق و تحریر: اسحاق محمدی

مضمون نگار: اسحاق محمدی

یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ کہ ہزارہ، ترک- مغل نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ماقبل چنگیز خان اور مابعد چنگیز خان دونوں شامل ہیں ۔ چنانچہ اس لحاظ سے کہ موجودہ افغانستان قدیم دور سے ان کا مسکن رہا ہے ان کے ایرانیوں سے تعلقات بھی اس قدر قدیم ہیں جن کا ذکر فردوسی نے اپنی دیومالائی کتاب شاہنامہ میں توران زمین یعنی ترک سرزمین سے کیاہے۔ لیکن تیرہویں صدی میں جب ہلاکوخان نے ایران فتح کرکے “ایلخان” (چھوٹا خان) کے نام سے ایک باقاعدہ سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس باہمی تعلقات کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی۔ اسی ایلخانی سلسلہ کے آٹھویں حکمران اولجایتو خان نے سنی اسلام قبول کرکے سلطان احمد خدا بندہ کا لقب اختیار کیا لیکن 1310ء میں وہ شیعہ اسلام کے پیروکار بن گئے اور انہی کی کوششوں سے  مغل حکمرانوں کے علاوہ ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس کی پیروی میں شیعیت قبول کی۔ اب تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اسی شیعیت پراترانے والے ایران نے کبھی بھی اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مغلوں کے منفی تاثرکو اجاگرکرنے کی کوشش کی اور اسی منفی تاثرکے لپیٹ میں مغل نسب ہونے کے باعث ہزارہ قوم اب تک اسکو جھیل رہی ہے۔ چنانچہ کھبی انہیں بربری کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور کبھی “خاوری” (مشرق کے لوگ) جیسے بےمعنی نام سے ۔ اگرچہ 1335ء میں مرکز سے ایلخانی حکومت کا خاتمہ ہوا تاہم گرد و نواح میں ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں برقرار رہیں جن میں ہزارہ اوغان و ہزارہ جرمان کی حکومت بھی شامل تھی جنکی عملداری کرمان اور شیراز کے علاقے تھے (اورزگانی- ص61)۔

در اصل ہزارہ شناس مورخین چودہویں صدی کے اسی دور کو ہزارہ کے نام سے ایک نئی قوم کی ظہورپذیری کی خبر دیتے ہیں۔ تیمورخانوف اس ضمن میں لکتھے ہیں کہ “ہزارہ قوم کی تشکیل چودہویں صدی کے وسط میں ہوئی اور وہ اپنی مکمل قومی صفات کے ساتھ ہزارہ جات میں سکونت پذیر ہوئی” (تیمورخانوف ص 20)۔

جدید تاریخ میں نادر شاہ افشار وہ پہلا ایرانی حکمران تھا جس نے 1145ھ میں دو ہزاردایزنگی ہزارہ فیملیز کو ہرات اور قوچان میں بسایا (اورزگانی- ص53)۔ ڈاکٹرابراہیمی کے مطابق  ایک اور بڑی آبادکاری  شاہ ناصرالدین قاجارکے دور(1831-1896) میں ہوئی جب اس نے 2000 تا 5000 ہزارہ فیملیز کو ہرات اور باد غیس سے لیجاکر جام اور باخرز میں بسایا (شیفٹ اینڈ ڈریفٹ ص5)۔ یاد رہے کہ جب ہرات ایران کا حصہ ہوا کرتا تھا تب آبادی اور عسکری لحاظ سے ہزارہ قوم کو مکمل بالادستی حاصل تھی ۔ اس ضمن میں کاوہ بیات لکھتے ہیں  کہ “1880ء کے قتل عام سے پہلے ہرات جو کہ اس وقت ایران کا حصہ تھا میں ہزارہ قطعی اکثریت میں تھے اور ہزارہ فوجی کمانڈرزکی حمایت کے بغیرکوئی  ہرات پر حکمرانی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بلاشبہ ہزارہ کسی کے حق میں بھی  توازن تبدیل کرسکتے تھے”(کاوہ بیات- ص18)۔

مذکورہ دو واقعات کے علاوہ ایران کی طرف بڑی تعداد میں ہزارہ مہاجرت امیرکابل عبدالرحمان کے ہاتھوں 1893ء میں حتمی شکست کے بعد شروع ہوئی جیسا کہ برٹش انڈیا اور سینٹرل ایشیا کی طرف ہوئی تھی۔ چونکہ ان کی آبادی پہلے سے ہی مشہد کے آس پاس مقیم تھی لہٰذا نئے مہاجرین نے بھی اسی مقام کو ترجیح دی۔ یہ رحجان 60 اور 70 کی دہائی کے ہزارہ مہاجرین کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اوتاد لکھتے ہیں کہ “امام رضاؑ سے انسیت کی خاطر ہزارہ انکے قریب رہنے کو ترجیح دیتے ہیں” (اوتاد- ص 144)۔ موصوف کے مطابق “ہزارہ قوم کی اکثریت مشہد، تربت جام، درہ گاز، بجنورد، اسفارین، نیشاپور، فرامین اور اس سے ملحقہ 750 دیہاتوں میں آباد ہے جہاں ان کی آبادی 10٪ سے لیکر 100٪ تک ہے” (اوتاد- ص 144)۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ 1956ء تک کل 200000 ہزارہ خاندان ان علاقوں میں آباد تھے جن کی تعداد اگلی دہایوں میں بڑھ کر 70000 فیملیزیا تین لاکھ نفوس تک جا پہنچی  ( اوتاد ص- 143-44)۔ انہی اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر جناب موسوی 1997ء میں، ایرانی ہزارہ کی آبادی کا اندازہ نصف ملین کے قریب بتاتے ہیں (موسوی- ص 151)۔

قارئین کرام! مذکورہ بالا اعداد وشمارصرف ایران کی ہزارہ شیعہ آبادی کی ہے جنہیں بربری یا خاوری کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔اس بارے میں جناب اوحدی لکھتے ہیں کہ “ایرانی ہزارہ اس نام (بربری) کو توہین آمیزگردانتے ہوئے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک نوجوان ہزارہ آرمی آفیسر محمد یوسف عبقری نے رضا شاہ (کبیر) سے درخواست کی کہ انہیں انکے اصلی نام “ہزارہ” سے پکارا جاے۔ لیکن شاہ نے اس کے بجائے لفظ “خاوری”  تجویزکیا اور 1936ء سے اسے شاہی دربار کے توسط  سےوزیراعظم اور فوج کوابلاغ کردیا۔ فی زمانہ سرکاری دستاویزات میں انہیں “خاوری” کے نام سے ہی لکھا اور پکارا جاتا ہے جبکہ عام لوگوں میں ابھی تک لفظ بربری باقی ہے (اوحدی- ص56)۔ مقام حیرت ہے کہ ایران میں شیعہ ہزارہ کو بربری جبکہ سنی ہزارہ کو “ہزارہ”  ہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جناب اوحدی اس کو “ہزاروں”  کے درمیان ایک دانستہ تفرقہ ڈالنے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں وہ ایک ایرانی مصنف کا یہ بےشرمانہ حوالہ دیتے ہیں”ہزارہ اُن بربری لوگوں سے مختلف ہے۔ بربری شیعہ مسلک جبکہ ہزارہ، سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں” (اوحدی- ص57 بحوالہ اھلھا وطایفہ عشایری خراسان- ص172)۔

جناب تقی خاوری 1357ھ ش (1978) کے ایرانی سرکاری دستاویزات کی رو سے ایرانی سنی و شیعہ آبادی کو تین  ملین   بتاتے ہیں (خاوری- ص172)، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ایرانی قوانین اتنے سخت ہیں کہ حقائق تک پہنچنا نا ممکن ہے۔

جہاں تک ہزارہ مہاجرین کا تعلق ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹرمونسوٹی لکھتے ہیں کہ” یواین ایچ سی آر کے ذرایع کے مطابق ایران میں مقیم افغان مہاجرین میں سے نصف تا تین چوتھائی تعداد ‘ہزاروں’ کی ہے” (مونسوٹی- ص128)، اندریں بابت جناب موسوی 1992ء کے ایک سروے کا ذکرکرتے ہوے لکھتے ہیں کہ “اس وقت ایران میں مقیم افغان مہاجرین کی کل تعداد کا اندازہ 28 تا 30 لاکھ لگایا گیا تھا جن میں اکثریت ہزارہ مہاجرین کی تھی (موسوی- ص152)۔ اسطرح ہم آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایران میں ہزارہ مہاجرین کی تعداد کم ازکم پندرہ لاکھ  ہیں۔ یہاں یہ ذکرکرنا ضروری ہے کہ اب یہ نئے ہزارہ مہاجرین، کسی خاص مذہبی شخصیت سے اظہار عقیدت کے بجائے روزگارکے مواقع کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اس لحاظ سے  وہ ایران کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگرچہ اس وقت من حیث القوم ہزارہ قوم کو پاکستان اور افغانستان میں لشکر جھنگوی، طالبان، داعش وغیرہ جیسے شدت پسند وہابی دہشتگردوں سے شدید خطرات لاحق ہیں مگرانہیں  سب سے زیادہ نسلی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی نابودی کا سامنا ایران میں ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ ایرانی ہزارہ اپنے قومی نام کے استعمال کے حق سے محروم اور ہزارہ گی زبان سے  یکسرہ نابلد ہوچکے ہیں جبکہ اس ملک میں مقیم ہزارہ مہاجرین ہرقسم کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم “پراکسی وار” کا ایندھن بننے پر مجبور ہورہے ہیں جس سے بچنے کیلئے ان کی ایک بڑی تعداد چالیس سال کے بعد ایک بار پھر ہجرت کی راہ پر نکل پڑی ہے۔ یواین ایچ سی آر کے مطابق پچھلے چند سالوں کے دوران 3 لاکھ کے قریب ہزارہ مہاجرین یورپ پہنچے ہیں اور انکی بھاری اکثریت ایرانی ولایت فقیہ کے ہاتھوں مہاجر بنی ہے جبکہ مزید کئی لاکھ مہاجر ترکی، یونان اور بلقان کی ریاستوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bibliography:  

  • Awhidi, Jalal, .Tarkib-i-Qabayel dar sakhtar e Milli e Milliyat e Hazaraha،Quetta 2010.
  • Bayat, Kava. Saulatus Saltanah e Hazara wa Shorish e Khorasan. Tehran: 1991.
  • Ibrahimi Dr., Niamatullah, Shift and Drift in Hazara consciousness, Bonn 2012
  • Khawari,Taqi, Mardum e Hazara wa Khuraan e Buzurg, Iran 2008.
  • Monsutti Dr, Alessandro. War and Migration: Social Networks and Economic Strategies of the Hazaras of Afghanistan. New York & London:  , 2005.
  • Mousavi Dr, S.A. The Hazaras of Afghanistan: An Historical, Cultural, Economic and Political Study. London, 1997.
  • Owtadolajam, Mohammad. A Sociological Study of the Hazara Tribe in Balochistan: An Analysis of Socio-cultural Change. Quetta: 2006.
  • Temur, Khanov, Tarikh e Hazara Mughal, Urdu, Quetta, 1992.
  • Uruzgani, Mullah Afzal. Al Mukhtasar Al Manqool Fi Tarikh e Hazara wa Mughul. Quetta: Pakistan ., 1914.
اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *