انجمن فلاح و بہبود ہزارہ 1963-1970ء ۔۔۔ اسحاق محمدی

1904ء تک کوئٹہ میں ہزارہ اجتماعی بودوباش کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن 1904ء میں ہزارہ پائینر کی تشکیل کے بعد ان کی اجتماعی زندگی پر عسکری خدوخال زیادہ نمایاں ہوتے گئے یعنی فوج میں جس کا رتبہ جتنا بڑا، اجتماعی طور پراس کی اہمیت بھی اتنی۔ لہٰذا اب ہزارہ پائینر کے سربراہ، ہزارہ قوم کی سربراہی کرنے لگے۔ اسی مناسبت سے کیپٹن دوست محمد خان کاکئی، کیپٹن علی دوست خان، صوبیدارخدا داد خان اور آخر میں صوبیدار رحمت اللہ خان بلامنازعہ “کلان قوم” (سربراہ) رہے۔

1933 میں سیاسی بنیاد پر ہزارہ پائینر کے ختم ہونے کے بعد ہزارہ سماج میں ایک بڑی سماجی تبدیلی آئی۔  جنرل محمدموسی خان ہزارہ،  برصغیر کے پہلے چند مقامی آرمی کمیشنڈ آفیسرز میں سے تھے حالانکہ اس سے قبل برٹش آرمی میں مقامی لوگوں کیلیے سب سے بڑا فوجی عہدہ، صوبیدار میجر یا ہانریری کیپٹن کا ہوا کرتا تھا۔ ان کے والد سردار یزدان بخش خان المعروف بہ سردار یزدان خان، ہزارہ پائینر سے نایب صوبیدار کے عہدہ سے ریٹائیر ہوچکے تھے۔ اگرچہ انکا خاندانی تعلق جاغوری کے سردار گھرانے سے تھا لیکن اس سے قبل اس نے یہاں کوئٹہ میں ہزارہ قوم کی   کبھی سرداری کا دعوی نہیں کیا تھا لیکن ہزارہ پائینر کے ٹوٹنے سے ایک خلا پیدا ہوا تھا مزید برآں چونکہ اب انکا بیٹا ہزارہ قوم کا پہلا کمیشنڈ آرمی آفیسر تھا اس لیے عام لوگ خود بخود انکی طرف دیکھنے لگے۔ یوں کویٹہ کے ہزارہ سماج میں سرداری نظام کی شروعات ہوئیں۔ بہرحال یہ بڑی سماجی تبدیلی ہموار طورپر تکمیل کو پہنچی جو اپنے عروج کو طے کرتے کسی نہ کسی طور بے حد کمزور شکل میں سردار سعادت علی خان ہزارہ کی وفات جولائی 2019ء تک قائم رہی۔ اس پورے دور (1904 تا 1979) میں ہزارہ سماج کے  مذہبی گروہ یعنی عالم دین۔ مذہبی رسومات اور شادی،اموات تک ہی محدود نظر آتے تھے۔ اس بارے میں چند دلچسپ تذکرے مرحوم کیپٹن علی دوست خان کی غیر مطبوعہ سوانح حیات میں ملتے ہیں جس میں وہ ملاؤں کا مزاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ سرداری دور کے چند ملاؤں کی جی حضوری اب تک زبان زد عام ہے۔

جیسا کہ میں نے اپنے ایک اور مضمون میں ذکر کیا  تھا کہ کوئٹہ کے ہزارہ قوم کی پہلی غیر روایتی آرگنائزیشن 1937ء میں ہزارہ فٹبال کلب کے نام سے بنی جو کہ آج تک اسی نام سے قائم ہے(1)۔ یہاں بتانا شاید بیجا نہ ہوگا کہ مذہبی حوالے سے پہلی انجمن امام بارگاہ کلان ہزارہ (1922ء) میں بنی تھی جو اب تک قائم ہے مگر 1983ء میں سید اشرف زیدی نامی شخص نے لفظ ہزارہ کو حذف کروایا تھا جس کی اپنی ایک لمبی داستان ہے۔ البتہ سماجی میدان میں پہلی آرگنائزیشن انجمن فلاح و بہبود ہزارہ تھی جو 1963ء میں بنی تھی۔ یاد رہے کہ کیپٹن محمدعلی آزاد نے اپنے ایک پوسٹ میں 1959ء کو انجمن کی تشکیل کا سال قرار دیا تھا جو شواہد کے اعتبار سے درست نہیں۔ شادروان پروفیسر ناظرحسین جو اس انجمن کے بانی اراکین میں شامل تھے کے مطابق یہ انجمن اس وقت کے چار ہزارہ محلوں نچاری کیمپ، حاجی آباد، نو آباد اور سید آباد کے نمائندوں پر مشتمل تھی جس کے اعراض و مقاصد اسطرح تھے:

الف- قوم میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنا

ب- تعلیم کے فروغ کیلئے کام کرنا

ت- منفی رسوم و رواج کے خاتمے کیلئے کام کرنا  (پیغام تنظیم ص13، غفور ربانی ص 179) (2)

بانی اراکین میں فقیرحسین، امیرمحمد امیر، قادرعلی، سید آغا حسین، ڈاکٹر محمد موسی گردی، محمدعلی اختیار، حسین علی حیدری، پروفیسر ناظرحسین، غلام علی نجاتی وغیرہ شامل تھے (علی اصغری ص 193، پیغام تنظیم ص 13) (3)۔ انجمن نے بطور خاص تعلیم کے میدان میں کافی اچھی کارکردگی دکھائی، مختلف مضامین میں مفت ٹیوشن کلاسز کا آغاز کیا اور چند غریب طالبعلموں کو اسکالرشیپ دیکر اعلی تعلیم کیلئے کراچی بھی بھجوایا جن میں سے تقریباً سب ہی آگے جا کر بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انجمن کے اراکین کی دلچسپی کم ہوتی گئی اور 1970ء کے دوران اس کے بچے کچھے اثاثہ جات ایک نئی تشکیل یافتہ آرگنائزیشن “تنظیم نسل نو ہزارہ مغل” کے حوالے کرکے انجمن کو منحل کردیا گیا  (پیغام تنظیم ص 14) (4)۔

حوالہ جات

1- ہزارہ پائینر یا لشکر ہزارہ اسحاق محمدی اظہار ڈاٹ نیٹ دسمبر 2024ء

2- رسالہ پیغام تنظیم مئی 2006، شمارہ 29 (انٹرویو پروفیسر ناظر حسین)

3- دفتر دوم،  عبدالغفور ربانی کوئٹہ پاکستان 2012ء

4- ہزارہ، سیاست اور بلوچستان، عبدالعلی اصغری ہزارہ، کوئٹہ پاکستان 2018ء

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *