پاکستان کے لیجنڈری باکسر سید ابرار حسین ہزارہ کی پیدائش فروری 1965ء کو کوئٹہ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام حاجی سید حسین شاہ تھا جن کا اپنا بزنس تھا۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر گریجویشن تک کوئٹہ کے مختلف درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرِک یونیورسٹی جرمنی سے سپورٹس سائنسز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
سید ابرار ہزارہ نے باکسنگ کا آغاز 1978ء میں ایک چھوٹے سے باکسنگ کلب سے کیا۔ انکے ابتدائی کوچز میں حبیب اللہ جعفری اور شکور مغل شامل تھے۔ یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ بلوچستان میں باکسنگ کے فروغ میں کوچ جعفری صاحب کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ ان کے درجنوں شاگردوں نے نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر شاندار کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ وہ پیرانہ سالی (76 سالہ) کے باوجود اب تک بلا معاوضہ پوری تندہی سے نئی نسل کے کھلاڑیوں کی باکسنگ کوچنگ میں مصروف ہیں۔
اپنے شوق اور سخت کوشی کے باعث سید ابرار حسین ہزارہ بہت جلد باکسنگ کے قومی افق پر نمودار ہوئے۔
1981ء میں نیشنل چمپیئن بننے کے بعد انہوں نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ پاکستان باکسنگ ٹیم کے کیپٹن بنے، سیف گیمز چمپیئن بنے، مِنی ورلڈ چمپیئن بنے، دو مرتبہ ایشئین گیمز میں گولڈ میڈلز حاصل کیں۔
1984ء، 1988ء اور 1992ء اولمپیک گیمز میں مسلسل پاکستان اسکواڈ کا حصہ بنے جو بہ جائے خود قومی اور ایشیا لیول پر ایک ریکارڈ ہے۔
ایک طویل عرصہ باکسنگ کے میدان میں مسلسل فتوحات حاصل کرنے کے بعد 1992ء میں ریٹائرمنٹ لی۔ میچید ٹی وی میں سجاد احمد کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے باکسنگ کیریئر کے حوالے سے کہا تھا کہ “انہوں نے نیشنل اور انٹرنیشنل لیولز پر 154 مقابلوں میں 94 ناک آوٹ مقابلے اور 32 مقابلے پوائینٹس پر جیتے ہیں جبکہ وہ خود کبھی ناک آوٹ نہیں ہوئے ہیں”۔
کئی قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں بیسٹ پلیر قرار پائے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں لیجنڈری باکسر تھے۔ باکسنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد پہلے وہ ڈویژنل سپورٹس آفیسر بلوچستان بنے اور بعد از آں ترقی پاکر ڈائریکٹر بن گئے۔
سید ابرار حسین ہزارہ اس لحاظ سے خوش قسمت کھلاڑی تھے کہ ان کی طویل خدمات اور شاندار کیریئرکے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیں 1989ء میں “ستارہ امتیاز” سے اور پھر 1990ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ معروف ٹی وی پروڈیوسر سجاد احمد کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وہ اپنے ٹریننگ سے متعلق بتاتے ہیں کہ “عام دنوں میں وہ کوہ مردار کے دامن میں یا چوٹی پر روزانہ کم سے کم دو گھنٹے سلو (آہستہ) اور کسی ٹورنامنٹ میں شرکت سے کئی ہفتوں قبل ایک گھنٹہ فاسٹ (تیز) پریکٹیس کرتے ہیں”۔
انیس سو اسی کی دہائی کے دوران سید ابرار حسین ہزارہ نے تنظیم باکسنگ کلب جوائن کی جہاں وہ خود بھی پریکٹیس کرتے تھے اور چند شاگردوں کی کوچنگ بھی کرتے تھے۔ یوں راقم کی ان سے روز سلام دعا ہوتی رہتی تھی۔ کم گو انسان تھے، بات چیت کے دوران اپنے ہر جملہ پر زور دیتے تھے۔ اسی دوران انکے شاگرد بتاتے تھے کہ کیپٹن ابرار، کوہ مہردار کی چوٹی یا دامن میں پریکٹس کے دوران روزانہ ایک یا دو بڑے پتھروں پر اس وقت تک پوری طاقت کے ساتھ 20 پاونڈ وزنی ہتھوڑا (مارتول) برساتے رہتے تھے جب تک وہ پتھر چکناچور نہ ہوجاتا۔
اس قدر کڑی محنت کے بل پوتے پر وہ اتنے ڈھیر سارے نیشنل اور انٹرنیشنل لیولز پر میڈلز جیت کر ایسا یکارڈ بنانے میں کامیاب رہے جسے آج تک پاکستان میں کوئی اور نہیں توڑ سکا ہے۔ ٹرینینگ کیمپس میں تمام کوچِز اور کھلاڑیوں میں وہ “سانڈ” (جونہ) کے نِک نام سے مشہور تھے۔ باکسنگ رنگ میں حریف ان کے نام سے کانپنے لگتے تھے۔ سپورٹس اور بطور خاص باکسنگ کے میدان میں بلوچستان اور پاکستان کیلئے ان کی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ سید ابرارحسین ہزارہ کے مطابق ان کے دور میں پاکستان باکسنگ کے میدان میں ایشیا بھر میں دوسرے نمبر تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں باکسنگ کی دو ہی مشہور نرسریاں ہیں، ایک کوئٹہ کا ہزارہ نشین علمدار روڑ اور دوسرا کراچی کا لیاری ہے۔
پاکستان بھر میں باکسنگ کے میدان میں اگر کوئی کھلاڑی، کیپٹن ابرار کے نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرسکتے ہیں تو بلا شک و تردید سید آصف شاہ ہزارہ ہیں جو اب تک نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے جارہے ہیں۔
صد افسوس کہ تمام تر اعزازات اور عہدوں کے باوصف متعلقہ سیکیورٹی اداروں نے دہشتگردوں کی طرف سے دھمکی ملنے کے باوجود ا س قومی ہیرو کو تحفظ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور 16 جون 2011ء کو ملک اور قوم کا یہ ہیرو اپنے دفتر واقع ایوب اسٹیڈیم کے قریب معلوم دہشتگردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو کر اور ہسپیتال لے جاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ حسب معمول بدنام زمانہ دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کا نام نہاد نمایندہ شیرعلی حیدری نے حملہ کی ذمہ داری قبول کی اور حسب معمول صوبائی اور ملکی سطح کے اہم لیڈروں اور انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے، دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کےعہد کئے لیکن دیگر دو ہزار، ہزارہ شہداء کی طرح اس قومی ہیرو یعنی اولمپیئن سید ابرار حسین ہزارہ کے قاتل بھی کبھی نہیں پکڑے گئے۔
سید ابرار حسین ہزارہ ، آج ہزارہ قبرستان کوئٹہ میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ اس لیجنڈری قومی ہیرو کی روح کو سلام
نوٹ:
اس تحریر کے سلسلے میں شہید سید ابرار حسین ہزارہ کے میچید ٹی وی اور ھدایت اللہ خان درانی کے ساتھ انٹرویوز اور جناب ڈاکٹر عبدالرشید آزاد کی ایک حالیہ تحریر اور کئی اخباری رپورٹوں سے مدد لی گئی ہیں، ان سب کا بے حد شکریہ
1-https://www.facebook.com/photo?fbid=9153735501378495&set=pcb.9153736974711681
2-https://www.facebook.com/Mechidtv/videos/775632411186406
- اولمپیئن باکسر شہید سید ابرار حسین ہزارہ ۔۔۔ اسحاق محمدی - 21/04/2025
- پروفیسر فاطمہ چنگیزی 1942-2025ء ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/04/2025
- انجینئر احمدعلی نوربن (2009-1947) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 28/03/2025