ہزارہ پائنیر یا لشکر ہزارہ 1904-1933ء … اسحاق محمدی

1892ء میں امیرجابر کابل کے ہاتھوں شکست اور زرخیز زمینوں سے محروم ہونے سے قبل قلیل تعداد میں ہزارہ قوم کے افراد ہمسایہ ممالک بشمول برٹش انڈیا کا رخ کرتے تھےاور وہ بھی زیادہ تر سیزنل یعنی موسمی ہوا کرتے تھے۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق ایک مختصر تعداد میں ہزارہ افراد 1839ء کے آس پاس انڈیا آکر 124 اور 126 بلوچستان انفنٹری میں شامل ہوگئے تھے، اسی لئے برٹش آفیسرز انکی سپاہیانہ خصوصیات جیسے بہادری، نظم و ضبط، صفائی اور فن حرب میں مہارت سے واقف ہوچکے تھے۔ لہذا 1892ء میں انکی ایک بڑی تعداد کی شال کوٹ (کوئٹہ) آمد کے پیش نظر، انڈین آرمی کے سربراہ لارڈ کیچنر نے میجر جیکب (بعد میں فیلڈ مارشل) کو ہزارہ لشکر بنانے کا حکم دیا، جس پر انہوں نے1904ء میں، 8 کمپنیز پر مشتمل 106 ہزارہ پائنیر کی بنیاد رکھی جو ابتداء میں124 اور 126 بلوچستان انفنٹری کے ہزارہ اہلکاروں پر مشتمل تھی اور جسکا ہیڈکوارٹر کوئٹہ کینٹ میں واقع تھا (ہزارہ پائینر صفحہ5)۔
جنرل علی دوست خان کے مطابق ہزارہ پائنیر کی کل نفری یعنی اسٹرینتھ 914 تھی (یک نفر فراری صفحہ 105)۔ حالانکہ ھزارہ پائنیر بنیادی طورپر انجئیرنگ کور کا حصہ تھا، جنہوں نے کوئٹہ چمن، کوئٹہ ژوب، ژوب دانہ سر اور کوئٹہ سبی سڑکوں اور ریل روڑ کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، جس میں پاکستان آرمی کے سابق سربراہ جنرل موسی خان ھزارہ بھی شامل تھے جو اس وقت ایک عام سپاہی کے طورپر پائنیر میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ موسی خان ہزارہ، ان 40 مقامی انڈیئنز کے پہلے گروپ میں شامل تھے جو آرمی میں آفیسرز رینک کے طورپر منتخب کئے گئے تھے۔
انجنئیرنگ کور کا حصہ ہونے کے باوجود ہزارہ پائنیر، میدان حرب اور دیگر جنگی مہمات جیسے جنگ عظیم اول، عراق و فرانس اور داخلی طور پر وزیرستان کے محاذوں پر حصہ لیتی رہی تھی۔ اس کی حربی کارکردگی اتنی شاندار تھی کہ انڈین آرمی کے صف اول کے رجمنٹوں میں ہزارہ پائنیر کا شمار ہوتا تھا۔ برگیڈئیر بنبری کے مطابق بہت سارے شجاعت و بہادری کے تمغے ہزارہ پائنیر کے آفیسرز اور جوانوں نے مختلف کیٹیگریز میں اپنے نام کئے (ہزارہ پائینر صفحہ 9)۔
حاجی گلزاری کے ہزارہ آرکائیوز کے ریکارڈ کے مطابق ان تمغوں کی کل تعداد 715 تھی جو بجائے خود ایک شاندار ریکارڈ ہے۔ گیرگ زنی یعنی نشانہ بازی میں ان کا پورے انڈیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس بارے میں برگیڈیئر بنبری لکھتے ہیں کہ “بلاشبہ رائفل شوٹنگز میں ہزارہ پائنیرز تمام انڈین آرمی میں بہترین رجمنٹ تھا جس کے سپاہی قدرتی طور پر ماہر نشانہ باز تھے۔ کوئٹہ میں منعقدہ ڈویژنل لیول کے مقابلوں میں انکی آدھی نفری اگلے مرحلے تک پہنچ جاتی تھی۔ یوں سالوں تک وہ تمام ایونٹس سویپ کرجاتے تھے۔
ہزارہ پائنیر کے جوان آل انڈیا میریٹ کپ، کنگ ایمپرر کپ، کرناٹک گولڈ کپ، کانپور کپ اور راویلسن شیلڈ بار بار جیتتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہزارہ پائنیر نے جنگ عظیم سے پہلےاور بعد میں انڈین آرمی چمپیئن شِپ بھی اپنے نام کئے۔ اسی طرح وہ 1926ء کو ہاکی میں بھی چمپیئن بنی تھی اور اسکے دو کھلاڑی انڈین ہاکی ٹیم میں منتخب ہوکر نیوزیلینڈ کے کامیاب دورے پر گئے تھے (ہزارہ پائینر صفحہ 10-11)۔ اسی طرح کی کامیابی پہاڑی دوڑ چمپیئن شِپ کی تھی۔ جنرل موسی خان ہزارہ لکھتے ہیں کہ “جہاں تک مجھے یاد ہے بلوچستان میں منعقدہ کوئی بھی ٹورنامنٹ ہزارہ پائنیر کے منحل ہونے تک (1933) اس کے علاوہ کوئی دوسری ٹیم کبھی بھی نہیں جیت سکی تھی( جوان ٹو جنرل صفحہ3)۔
لازمی امر ہے کامیابیاں بغیر محنت کے ممکن نہیں، ہزارہ پائنیر کی ان کامیابیوں کے راز کیا تھے، اس ضمن میں مرحوم بریگیڈیر خادم حسین خان چنگیزی اپنے والد محترم کے حوالے سے کہتے تھے کہ “تمام مقابلوں کیلئے تیاریاں یوں تو پورا سال چلتی رہتی تھیں، لیکن ایونٹ شروع ہونے سے چند مہینے قبل ہر شعبہ اپنی پوری طاقت و توانائی اس پر لگا لیتی تھی۔ ان کے مطابق پہاڑی دوڑ کے انچارج رحمت اللہ خان مرحوم تھے۔ عام دنوں میں وہ اپنی ٹیم کو مہردار پہاڑی پر پریکٹس کرواتے لیکن مقابلوں کے آغاز سے چند مہینے قبل ہر روز بلاناغہ ان کو ہزارہ لین کوئٹہ کینٹ سے لےکر ہنہ اوڑک(موجودہ ڈیم) یعنی 50 کلومیٹر تک دوڑاتے ہوئے لے جاتے اور اسی طرح دوڑا کر واپس آتے، اسی طرح کی تیاری دیگر کھیلوں کے لیے بھی کی جاتی تھی”۔
جنرل محمد موسی خان ہزارہ کے مطابق بظاہر 1933ء میں انڈیا میں تمام 9 پائینرز کو اقتصادی بنیاد پر ختم کردیا گیا تھا لیکن ہزارہ پائینر کو منحل کرنے کی سیاسی وجوہات یعنی افغانستان کی حکومت بھی تھی (جوان ٹو جنرل صفحہ 3،2)۔ اس امر کی تائید برگیڈیئر بنبری یوں کرتے ہیں “افغانستان کی حکومت نے درخواست کی تھی کہ ہزارہ افراد کو مزید انڈیا کی فوج میں بھرتی نہ کی جائے” ( ہزارہ پائینر صفحہ 6)۔
ظلم اور تعصب کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف یہ افغان حکمران، ملک کے اندر ہزارہ قوم کو شکنجے میں رکھتے تھے اور ان پر ترقی کے تمام دروزاے بند کر رکھے تھے، جبکہ دوسری طرف ایک غیر ملک میں بھی ان کی ترقی ان حکمرانوں سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔
میجر اور بعد آز آں فیلڈ مارشل سی ڈبلیو جیکب، ہزارہ پائنیر کے بانی اور 1904 تا 1911ء، پہلے کمانڈنگ آفیسر رہے اور بعد از آں 1916 تا 1933ء رجمنٹ کرنل بھی رہے۔
حاجی سلیمان خان کے مطابق ہزارہ پائنیر میں ہزارہ سربراہ اس وقت صوبیدار میجر ہوتا تھا اور جو ہندوستانی افراد کیلئے بلندترین فوجی منصب ہوا کرتا تھا۔
ان سربراہوں کے نام یہ تھے۔
1۔ صوبیدار میجر دوست محمد خان
2۔ صوبیدار میجر علی دوست خان
3- صوبیدار میجر خداداد خان
4- صوبیدار میجر رحمت اللہ خان (تاریخچہ قوم ہزارہ در پاکستان صفحہ7)

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *