قبروں کی صرف ایک اور قطار ۔
10 جنوری 2013
انسانیت کی تاریخ کے سیاہ دنوں میں سے ایک دن جب ہزارہ نشین علاقے علمدار روڑ پر واقع ایک سنوکر کلب پر حملہ کیا گیا۔ بلاسٹ ہوا اور جب لوگ زخمیوں کی مدد کیلئے اس جگہ پہنچے اور میڈیا کے نمائندے بھی کوریج کے لئے موقع پر پہنچے ہی تھے کہ کچھ منٹوں کے وقفے سے ایمبولینس میں چھپائے گئے بم کے ایک اور بلاسٹ نے تباہی مچا دی۔ سانحے میں 110 افراد شہید اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے۔ خوف و دہشت نے سب کو شدید ہراساں کردیا۔ لوگوں کے پرخچے اڑ گئے اور ساتھ ساتھ انسانیت بھی مر گئی۔
ماؤں کی نمناک آنکھیں ابھی بھی خشک نہیں ہوئیں۔ اسی سانحے میں ہیومن رائٹس ایکٹیویسٹ عرفان خودی بھی لقمہء اجل بن گئے جو ہزارہ کی آواز بن کر ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے بیان کرتے ہوئے زار وقطار رو پڑتے تھے ۔ قبرستان میں شہداء کے قبروں کی ایک اور لائن لگ گئی۔ خون کو رگوں میں جما دینے والی ایسی ہی راتیں تھیں ۔ لاشوں کی کئی قطاریں لئے اسی طرح میری مظلوم و بے کس کمیونٹی دھرنے پر کئی دن بیٹھی رہی۔ دہشتگردوں نے “سینچری” بنانے پر کھلم کھلا جشن منایا۔ وزیر اعلٰی نے بہت مہربانی کرکے بیان دیا کہ ایسا تو روز ہوتا ہے رونے دو ہزارہ کو، میں ٹشو پیپر کے ٹرک بھجوا دونگا۔ ایسے ہی ملک گیر دھرنے ہوئے۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے کوئٹہ جا کر میتوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ فوٹو سیشن کروائے۔ ہمدردیاں کیں ۔ گورنر راج نافذ ہوا۔ یقین دہانیاں کروائی گئیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
پھر کیا، فروری 2013 کو پھر بھاری بارودی مواد کے ساتھ کرانی روڈ ہزارہ ٹاؤن میں رہائشی علاقے پر حملہ کیا گیا زیادہ نہیں صرف 116 ہزارہ بوڑھے، بچے، جوان اور عورتیں زندگی گنوا کر شہداء کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ پھر وہی سارا کچھ ۔۔
قبرستاں میں ایک اور لائن، دھرنا، ہمدردیاں، فوٹو سیشن، سیاست، بیانات، تسلیاں ۔۔
ہمیں تو مرنا ہی ہے آگے پیچھے سب کی باریاں آئیں گی۔ مشیت ایزدی سے یا دہشتگردوں کی مرضی سے ۔۔۔۔
سانحہ مچھ میں بھی یہی کچھ ہوا ۔۔ کیا فرق ہے ؟ کیا مختلف ہے؟ سیاست اور مذہب کے نام پر قوم بٹ گئی۔ خوف و دہشت کا دور دورہ ہے۔ کوئی بات نہیں ۔ صبر کرو شہید کے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ خوش نصیب لوگوں کوشہادت نصیب ہوتی ہے۔۔۔ سب یہی کہتے ہیں ۔ مگر میں کم عقل سمجھ نہیں پاتی اور نہ میرا دل مانتا ہے کیونکہ میرا بھائی مجھے بے آسرا چھوڑ کر چلا گیا۔ میرا باپ کتنا بے رحم تھا مجھے یتیم کر کے کس کے سہارے چھوڑ گیا۔
میرا سرتاج، ہماری تو شادی ابھی ہوئی تھی ۔ ہمارے کمرے سے پھولوں کی سجاوٹ اور مہک ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کس کے سہارے زندگی گزاروں؟ بہت بے وفا ہو ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کرکے کچھ مہینوں میں ہی ساتھ چھوڑ دیا۔
مجھے بھوک لگی تھی میری ماں دکان سے سبزی لے کر گھر کیوں نہیں پہنچی۔ کیا اس کو میری بلکل فکر نہیں ۔
میرے بچے بہت لائق تھے۔ لینگویج سینٹر پڑھنے گئے تھے آج تک واپس نہیں آئے، بہت ہی نافرمان ہیں۔
میرا باپ دکان دار ہی تو تھا۔ شام کو آئے گا تو بہت ساری چیزیں لائے گا۔ وہ آج تک گھر نہیں پہنچے۔ بابا بابا کہہ کر بہت آوازیں دیں مگر سنتے ہی نہیں ۔
میرا بیٹا کوئٹہ سے باہر نوکری کرتا تھا چھٹیوں پر گھر آیا تھا۔ پھر مجھے اس کے جسم کے ٹکڑے شاپر میں ملے۔
میرے بچے باہر گلی میں کھیل رہے تھے ان کو کھیل میں اتنا مزا آیا کہ گھر کا رستہ ہی بھول گئے۔
سب کچھ ختم ہوگیا۔
باقی بچا تو صرف قبرستان میں قبروں کی ایک اور لائن ۔
صرف قبروں کی ایک اور لائن –
صرف قبروں کی ایک اور لائن ۔
صرف قبروں کی ایک اور لائن۔
Latest posts by فاطمہ عاطف (see all)
- قبروں کی صرف ایک اور قطار ۔۔۔ فاطمہ عاطف - 10/01/2021
- ہزارہ کلچر ڈے 19 مئی 2020 ۔۔۔فاطمہ عاطف - 16/05/2020
- عورت کی آواز ۔۔۔ فاطمہ عاطف - 06/03/2020