” انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یک اعلان ِ فوت شدگی بشنوین۔
محمد مرزا فرزند کربلائی علی جمعہ، برادر حاجی انور، بابے علی اکبر و علی اصغرفوت گردیدہ ۔ ۔ ۔”
مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے کئی جانے پہچانے ناموں کی تکرار سن کر صغرٰی نے اپنی سوجھی ہوئی لال آنکھوں کو کھولاتھا۔ اسے وہ تاریک دن اور وہ کربناک لمحے اچھی طرح یاد ہیں۔اُس دن گزشتہ پانچ گھنٹوں سے وہ روتی رہی تھی۔ ناقابل برداشت کرب، شدید غم اور واویلوں کے بیچ میں اچانک اسے قرار آجاتا۔ اسے بہت عجیب لگ رہا تھا، زندگی کی تئیس بہاریں دیکھنے کے باوجود اسے کسی قریبی انسان کی موت کو جھیلنے کا شدید تلخ تجربہ نہیں رہا تھا۔
چھٹی کے قریب ہی ڈاکٹر صغرٰی سرجیکل وارڈ سے باہر نکلی۔ سفید گاوٴن کی نیچے اس نے سرخ لباس پہنا ہوا تھا جو اس پر خوب جچ رہا تھا۔ لبوں پر ہلکی لپ اسٹک اور کاندھے پر ایک بھورے رنگ کا پرس لٹکائے وہ خود اعتمادی سے قدم اٹھاتی پارکنگ تک آئی جہاں اس کا رکشہ ڈرائیور اس کا انتظار کر رہا تھا۔
“قاسم ، آج مجھے مری آباد میں تھوڑا سا کام ہے، پہلے وہاں لے چلو، اس کے بعد گھر جائیں گے” صغرٰی نے رکشے میں بیٹھتے ہی اعلان کیا۔ قاسم نے سر کے اوپر نصب شیشے میں دیکھنا شروع کیا، گویا نظروں ہی نظروں میں احتجاج کررہا ہو۔ ہزارہ ٹاون میں اس کے دوست اس کا انتظار کررہے تھے۔
“پریشان مت ہو، مختصر سا کام ہے، اور اس کے اضافی پیسے میں دے دوں گی”، صغرٰی نے قاسم کی سوالیہ نگاہوں کو بھانپتے ہوئے خود ہی جواب دے دیا۔ قاسم کے پاس چارہ نہیں تھا، اس نے اپنے خاص انداز میں “س” پر زور دیتے ہوئے “بسم اللہ” پڑھا اور رکشہ سٹارٹ کیا۔
“فوتگی سے متعلق ایک اعلان سنیئے: محمد مرزا ولد کربلائی علی جمعہ، حاجی انور کے بھائی، علی اکبر اور علی اصغر کے والد قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں۔ مرحوم کا جنازہ تدفین کے لیے سہ پہر تین بجے ان کی رہائش گاہ ناصر آباد سے اٹھایا جائے گا۔ مومنین سے گزارش ہے کہ تشییع ِجنازے میں شرکت کرکے ثواب دارین حاصل کریں”
اُس دن اُس لمحے حاجی انور کا نام سن کر صغرٰی کے دماغ میں ایک سازشی شک پیدا ہوا تھا۔ “کیا پتہ ابو کی ناگہانی موت کا ذمہ دار چاچو ہی ہو!” ایک خطرناک خیال بجلی کی سی تیزی سے صغرٰی کے دماغ میں کوندا تھا جسے صغرٰی نے جھٹکنے کی کوشش کی تھی۔ مرزا صاحب نے اپنے والد صاحب کے گزرنے کے بعد ایک شفیق باپ کی طرح اپنے چھوٹے بھائی انور کی دیکھ بھال کی تھی۔ اسے تعلیم دلائی اور خود سرکاری نوکری میں مصروف ہونے کی وجہ سے خاندانی کاروبار بھی انہی کے حوالے کردیا۔ دونوں بھائیوں کے خیالات ملتے جلتے تھے۔ تین دہائیوں پر مشتمل مثالی بھائی چارے کے بعد گزشتہ کچھ مہینوں میں جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے دونوں بھائیوں میں ناچاقی تھی۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں میں بول چال بند ہوگئی ۔ بظاہر دونوں بھائی اپنے اپنے کنبوں میں خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن دوست دشمن سبھی کو پتہ تھا کہ اس واقعے سے مرزا صاحب کو زیادہ صدمہ پہنچا تھا جو انور سے کہیں بہتر رویے کی توقع لے کر بیٹھے تھے۔
“ابو کے نام کے ساتھ اس شخص کا نام لیا جارہا ہے جس نے ابو کا حق غصب کرلیا ہے۔”
“اکبر اور اصغر کے ساتھ بابا میرے بھی ابو ہیں، چاچو کی نسبت میں ابو کے زیادہ قریب نہیں ہوں۔۔۔؟” صغرٰی کے دل میں ہیجان انگیز غصے کی لہر دوڑی تھی اور وہ کانپنے لگی تھی۔
شہر کے وسط میں واقع سول ہسپتال کے احاطے سے رکشہ نکل کر جناح روڑ پر رینگنے لگا۔
اس دن لاوڈ اسپیکر پر ہونے والے اعلان کی تکرار سے صغرٰی کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا، اسے اس بات کا ایک دم احساس ہوا تھا کہ جس کی وفات کا اعلان کیا جارہا ہے وہ کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ ہے جواس سے دوبارہ کبھی نہیں بولے گا، کبھی اسے دوبارہ نہیں چومے گا، کبھی فون پراس کی کال کا جواب نہیں دے گا۔ اس چبھنے والے شدید احساس سے عارضی قرار اور ضبط کے بند پھر سے ٹوٹ گئے تھے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
گھر سے ملحقہ لاوڈ اسپیکر سے گم شدگی اور فوتگی کے اعلانات ہوتے رہتے تھے، وہ ایک معمول تھی لیکن صغرٰی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہی لاوڈ اسپیکر اس کے اپنے باپ کے موت کی خبر بتا رہا ہوگا ۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں سے شہر کے حالات نہایت خراب تھے، آئے دن دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ سے شہر بھر کے لوگ خوف کی فضا میں جی رہے تھے۔ اس کی کئی سہیلیوں اور کلاس فیلوز کے باپ بھائی متعدد واقعات کا شکار ہوچکے تھے لیکن دل ہی دل میں وہ اس بات پر شکر ادا کرتی رہی تھی کہ موت اس کے عزیزوں سے ایک گونہ فاصلے پر منڈلاتی رہی تھی۔ ناگہانی طبعی موت کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ گویا موت کے فرشتے کو اس سے اور اس کے خاندان کے افراد سے مختلف قسم کے لوگوں کی تلاش رہتی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ رہ رہ کر وہ بھول جاتی تھی کہ اس کا والد اب دنیا میں نہیں رہا۔ اس کا ذہن ابھی تک حالت انکار میں تھا اور کسی مخبوط الحواس سرکاری چپڑاسی کی طرح گھوم پھر کر یادوں کی کوئی متعلقہ لیکن غلط فائل اٹھا کھولتا۔
جناح روڑ اور قندہاری بازار کےسرگم پر ٹریفک جام تھا۔ رکشہ میں بیٹھی ڈاکٹرصغرٰی پولیس کانسٹیبل اور کالی کوٹ پہنے کسی وکیل صاحب کے جھگڑے سے بے نیاز تھی۔ ابھی بھی اس کا ذہن ماضی کی یادوں میں غرق تھا اور وہ خلا میں گھور رہی تھی۔ اس کے دماغ میں ماضی کے واقعات یوں آجا رہے تھے جیسے سینما کے پردے پر کوئی فلم چل رہی ہو۔
“صغرٰی۔۔۔ صغرٰی۔۔۔ تمہارے مہمان آئے ہیں۔۔” باجی ثمینہ کی آواز جیسے ابھی ہی تو گونجی تھی اور اس پیغام نے اچانک گرلز ہاسٹل کے سیم زدہ اکتا دینے والی بے رنگ دیواروں کو پھر سے رنگوں سے بھر دیا تھا۔ کراچی میں اس کا مہمان بھلا کون ہو سکتا ہے۔ اگلے ہی لمحے اس کے دماغ نے فورا” گتھی سلجھا لی اور وہ بجلی کی سی تیزی سے سیڑھیوں پر سے دیوانہ وار نیچے بھاگنے لگی۔
نیچے محمد مرزامختلف ڈبوں سے بھرے پلاسٹک کے تھیلے تھامے مسکرا رہا تھا۔
“بابا آاااپ ۔ ۔ ۔ “
سرخوشی کی ایک چیخ کے ساتھ صغرٰی اپنے ابو کے ساتھ بغلگیر ہوئی۔ خوشی اور خوشی کے آنسووٴں سے اس کا چہرہ تماتم دہک رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی، دو بڑے بھائیوں کی چھوٹی بہنا۔ کراچی کی ایک میڈیکل کالج میں داخلہ ملنے کے بعد وہ پہلی بار گھر اور گھر والوں سے دور ہوئی تھی۔
اکثر شام کے وقت ہوم سکنیس (home sickness) کی شدید لہر اسے گھیر لیتی ۔ کراچی کی فضاوٴں میں منڈلاتے ہوئے چیلوں اور کووٴں کو دیکھ کر اس کے دل میں بے ساختہ خواہش سر اٹھاتی کہ کاش وہ اپنا روپ بدل سکتی۔ کاش ایک دن کے لیے ہی سہی وہ چیل بن کر کوئٹہ کے پہاڑوں تک پرواز کرلیتی، اپنے گھر کے منڈیر پر بیٹھ کر گھر اور گھر کے افراد کے دیدار سے خوب جی بھر لیتی۔ اور پھر تخیّل کے اس پرندے کی آنکھوں سے جیسے وہ واقعی اپنے گھر میں جھانک رہی ہو۔ تصور ہی تصور میں امی چائے بنا کر لارہی ہے۔ چائے کی ہمراہی میں منہ میٹھا کرنے کے لیے بیکری سے ابو کیک کا ڈبہ تھامے مسکرا کر گھر میں داخل ہورہے ہیں ۔ ۔ ۔
لیکن ابو تو تحفوں کا تھیلہ تھامے سیڑھیوں کے نیچے کھڑے ہیں۔ کراچی کے مرکز میں کوئٹہ کی خاص شلوار قمیص میں ملبوس اپنایئت بھری مسکراہٹ کے ساتھ ادھیڑ عمر کا شفیق آدمی۔
“ابو، آپ نے اپنے آنے کا پہلے کیوں نہیں بتایا؟” قدرے سنبھلنے کے بعد صغرٰی نے جھوٹی شکایت کی “میں شاپنگ کے لیے نکل گئی ہوتی تو؟”
“تو کیا؟ میں یہیں گلی میں تمھارا انتظار کرتا رہتا۔ بھلا مجھے کونسا کہیں جانا ہے۔ میں کراچی تمھارے لیے ہی تو آیا ہوں”
صغرٰی اور مرزا صاحب کے لیے وہ لمحے کتنے ہی مسرت بخش کیوں نا ہوں، گرلز ہاسٹل میں ایسی ملاقاتیں شاید کوئی بہت منفرد بات نہیں تھی۔ آنے جانے والی سینئر لڑکیاں ایک نظر گرمجوشی سے ملتے باپ بیٹی کی طرف دیکھ کر کترا کر یا کبھی مختصر سا سلام کرکے گزر رہی تھیں۔
“اچھا ابو، آپ ٹھہریں، میں ایک منٹ میں تیار ہوکر آتی ہوں” باجی ثمینہ کا اشارہ بھانپ کر صغرٰی نے باقی باتیں باہر جاکر کرنے کا سوچا۔ اس شام وہ دونوں باپ بیٹی شاپنگ اور کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ہمیشہ کی طرح مرزا صاحب نے صغرٰی کو یقین دلایا کہ وہ کسی طور پر کسی لڑکے سے کم نہیں۔ اس سے پچھلی ملاقات پرصغرٰی نے کراچی کی مخصوص نمکو کی بہت تعریف کی تھی لہٰذا چائے کے ساتھ ہی، مرزا صاحب کے تھیلے سے نمکو کے پیکٹس برآمد ہوئے۔ یہ تھے مرزا صاحب، جو اپنے بیٹے بیٹیوں کی ہر خوشی اور آسائش کا اتنا اہتمام کرتے کہ وہ کسی چیز کی فرمائش کرتے ڈرنے لگے تھے کہ ایسا نہ ہو بابا اگلی دفعہ اس مذکورہ چیز کا ڈھیر ہی لگا دے۔ اب بھی یہی صورتحال تھی، صغرٰی جی ہی جی میں شرمندہ ہو رہی تھی کہ خواہ مخواہ ابو نے اتنی تکلیف کی اور پھر نمکو کے اتنے سارے پیکیٹوں کا وہ کیا کرے گی۔
“ہاسٹل میں اور بھی تو تمھاری سہیلیاں ہیں۔ ان سے چھپا کر کھاوٴگی کیا؟َ سب کو کھلا دینا” فراخدلی بھی مرزا صاحب کا وطیرہ تھا۔ اسی سبب صغرٰی جھنجھلا کر نہ بتا سکی کہ اس کی روم میٹس اپنا سامان اس سے کیسے چھپاتی پھرتی ہیں۔
“ابو، نمکو بہت مزیدار سہی لیکن صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ آپ کے بلڈ پریشر کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ نمک سے بھری ہوئی ہے یہ۔ نمک یعنی سفید زہر!”
اور حسب عادت اگلے ہی لمحے صغرٰی اپنی تازہ ترین پشیمانی بھول کر اپنی ایک اور دریافت پیش کرنے لگی۔ “اِدھر آکر میں نے میٹھی نمکو کا ذائقہ چکھا ہے، ابو۔ بہت زبردست ہے، نمکین بھی، میٹھی بھی۔ آپ ضرور ٹرائے کریں؟”
“واہ، میری بیٹی کو پسند ہے تو وہ واقعی زبردست ہوگی۔امتحان ختم ہونے کے بعد تم خود آوٴگی تو لے آنا”
لیکن بابا ۔ ۔ ۔ تو وہ صحن میں رکھے ایک تابوت میں لیٹے ہوئے ہیں۔ اُس دن بھی یہیں پہنچ کراس کی اپنے والد سے آخری ملاقات کے یادوں کی لڑی ٹوٹ گئی تھی۔ دوبارہ سے کربناک خبر نے صغرٰی کو ماضی کے چمنستان سے شعور ِحال کے دوزخ میں آ کے پھٹک دیا تھا۔ اس کی آنکھیں پھر سے چھلک اٹھی تھیں، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رورہی تھی۔
“ابو نے زندگی میں صرف نمکین نمکو کھائی، میٹھی نمکو میں کیوں نہ کھلا سکی؟” خیالات کے برہم طوفان میں پشیمانی اور تاسف کی ایک معصومانہ سی لہر اٹھی تھی جو آنسوووں میں ڈوب گئی۔
قاسم اب قدرے تیز رفتاری سے جناح روڑ کی دائیں بائیں دوکانوں کو پیچھے چھوڑتا جارہا تھا۔
مرزا صاحب کو اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا، اتنا کہ عام لوگ جاہلانہ حیرت کا اظہار کرتے، “لڑکی کی پیدائش پر اتنی خوشی، لڑکی سے اتنا پیار، لڑکی کی تعلیم پر اتنا خرچہ وغیرہ”۔ ہم عصروں کی ان سب باتوں کا احساس مرزا صاحب کو بھی تھا لیکن ان کے منہ لگنے کے بجائے وہ اپنی بیوی بیٹی اور بیٹوں کو ہی مخاطب کرکے کہتے، “خدا کی قسم مجھے اپنی صغرٰی سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی باپ کو کسی بیٹے سے ہوتا ہے” اور اگر علی اکبر اور علی اصغر آس پاس نہ ہوتے تو شرارت بھرے لہجے میں صغرٰی کی کانوں میں کہتے “یا شاید اس سے بھی زیادہ”
یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب بیٹوں کو پڑھانے کے بعد اپنی ساری جمع پونجی صغرٰی کی تعلیم پر خرچ کرنے لگے۔ عزیزوں بہی خواہوں نے سمجھایا کہ بیٹی تو پرائی ہے، غیر اس کی تنخواہ کھائیں گے لیکن مرزا صاحب کے بھڑکنے اور ان کے بگڑتے تیور دیکھ کر لوگ مزید دخل اندازی سے اجتناب کرنے لگے۔
“علی اصغر کی فلائٹ بہت دیر سے پہنچتی اس لئے تدفین میں مزید تاخیر نہیں کی۔ تم لوگ بس انتظامات پر دھیان دو”، صحن میں حاجی انور کی گرجدار آواز گونجی تو صغرٰی چونک گئی۔
انور چچا کی آواز بالکل بابا کے جیسی تھی، اس بات کا صغرٰی کو اس دن اچانک سے احساس ہوا تھا اور وہ خیالات کی رو سے جاگ پڑی تھی۔ چچا کے لیے دل میں اٹھتی ہوئی غصے کی لہر نے صغرٰی کو ہمت دلائی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور امی کی پہلو میں بیٹھی جو نیم بے ہوشی میں مسلسل بین کر رہی تھی۔ امی کی حالت بھی خراب تھی، پیار کرنے والے شوہر کی یوں موت کا اس بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ صغرٰی نے سسکیوں کے بیچ میں امی سے اپنی گزارش کر ڈالی “امی بابا میرے بھی بابا تھے، اعلان میں میرا نام کیوں نہیں لیا جا رہا؟ امی، کیا آپ اتفاق نہیں کرتے کہ ابو خود کیا چاہ رہے ۔ ۔ ۔”بین کرتی ہوئی جواہر بی بی ایک دم رک گئی، انھوں نے صغرٰی کو گھور کر دیکھا۔ صغریٰ کی کئی باتوں پر اس کی امی کو شدید اعتراضات تھے لیکن باپ ہمیشہ بیٹی کے دفاع میں کود پڑتے۔ لیکن جواہر بی بی کو ایسے موقعے پر صغرٰی سے اس جملے کی قطعی توقع نہیں تھی۔ انھوں نے حیرت اور غصّے سے صغرٰی کو گھورا۔ صغرٰی کو جسے شدید ہمدردی کی ضرورت تھی لگا جیسے اس نے دنیا میں احمق ترین بات کی ہو، نامناسب ترین بات۔ وہ شرمندہ ہوئی اور اٹھ گئی۔ اس کا جی بھر آیا، اسے لگا جیسے وہ اور اس کی امی دو الگ الگ مرزا صاحبان کا ماتم کر رہی ہوں، جیسے مرحوم کو صرف وہ ہی جانتی تھی اور اب اس کے مر جانے پر باقی لوگ کسی اور کی رسومات میں مصروف ومشغول ہوں، جیسے ماتمی مجمعے کے بیچوں بیچ وہ اپنے عزیز ترین شخص کی وفات پراکیلی ہی نوحہ کناں ہو۔
رکشہ اب گرلز کالج کے سامنے سے گزر رہا تھا، وہی کالج جہاں سے صغرٰی نے ایف ایس سی کیا تھا لیکن صغرٰی خیالات میں محو تھی جیسے کسی بہت ہی دلچسپ فلم میں ڈوبی ہوئی ہو۔
ابو کے یوں اچانک جانے کا شدید ترین صدمہ لے کر وہ کراچی لوٹی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اس غم سے پاگل ہو جائے گی لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ وہ ناقابل یقین ذہنی یکسوئی کے ساتھ امتحانات کی تیاری میں لگ گئی۔
“ابو یقینا” یہی چاہ رہے ہوں گے کہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر امتحان کی تیاری کرلوں”، صغرٰی نے خود کو بہلا لیا تھا۔ “اس معاملے پر بابا کیا کہہ رہے ہوں گے، اس موقع پر بابا کیا چاہتے۔ ۔ ۔” گویا ایک زبردست نفسیاتی فارمولا صغرٰی کے ہاتھ لگ گیا ہو، اس ایک نئی تصوراتی عینک اور اخلاقی قطب نما سے وہ زندگی کے تمام معاملات نمٹانے لگی۔
پولیس لائن کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہوئے رکشہ تعمیر ِنو کالج کو اپنے دائیں طرف پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔ “یہی ہے شاہد کا کالج”، صغرٰی نے خیالات کی رو سے ایک لمحے کو نکل کرتعمیر نو کالج کوتقریبا” گردن موڑتے ہوئے دیکھا۔ قاسم نے کافی دیر کے بعد صغرٰی کی اس حرکت کو شیشے پر محسوس کیا۔
“باجی، کیا بات ہے، آپ پریشان تو نہیں؟” اس نے ہمدردی سے پوچھا۔ اس استفسار پر صغرٰی کے پراعتماد چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ سر کی نہایت خفیف حرکت سے اس نے “سب ٹھیک ہے” کا تاٴثر دیا۔ رکشہ ہزارہ آبادی کے دہانے پر لگائے گئے فوجی چیک پوسٹ پر لگی گاڑیوں کی قطار میں جا لگا۔
صغرٰی کے لیےابو کی بے وقت جدائی کا گھاوٴ بہت ہی گہرا تھا لیکن وقت ناقابل یقین انداز میں اس شدید گھاوٴ کو بھی بھرنے میں کامیاب ہورہا تھا۔ گریجویشن سے قبل ہی صغرٰی کے لیے رشتے آنے لگے جنھیں صغرٰی کی امی کمال سفارتکاری سے ٹالتی رہی تھی۔ وہ بہتر سے بہتر رشتوں کے انتظار میں بھی تھی، تاہم وہ اچھے رشتوں کو ٹھکرا کرعمر رسیدہ بیٹی زندگی بھر گھر بٹھانے کی ممکنہ پشیمانی سے بھی بچنا چاہتی تھی۔
چیک پوسٹ کراس کرکے میجر محمد علی شہید روڑ پر رکشے کی رفتار میں کافی تیزی آگئی۔ نوجوان آس پاس تڑوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے، کچھ لڈو اور تاش کھیل رہے تھے اور کچھ چائے کی چسکیاں لے کر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کسی کو رکشے میں بیٹھی صغرٰی نظر نہیں آئی جو اب مسکرائے جا رہی تھی۔
جب شاہد کی بہن کلثوم نے شاہد کی تصویر دکھائی تھی توصغرٰی نے جیسے شاہد کی آنکھوں میں کوئی خاص چمک دیکھی تھی۔ اپنے طور پر وہ آنکھوں کی اس چمک کو ذہانت، وفاداری، اعتماد اور نجانے کن کن احسن صفات کے ساتھ جوڑتی رہی تھی۔ دراصل صغرٰی کو جو چیز بھا گئی وہ شاہد اور اس کے اپنے والد کے دیکھنے کے انداز اور زاویوں میں مماثلت تھی۔
رکشہ نو آباد اور گلستان ٹاوٴن کی حدود کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس دوران قاسم نے ایک دو دفعہ سوالیہ نظروں سے صغرٰی کی طرف دیکھا بھی جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب یہاں سے کدھر جانا ہے لیکن جواب نہ پاکر سیدھا ہی رکشہ بڑھاتا رہا۔
اگلی صبح ہسپتال جانے سے پہلے امی نے جل بُھن کر جو کہا تھا وہ ابھی بھی صغرٰی کے ذہن میں گونج رہا تھا، “اب تم بس بھی کرو، ناشکری! جیسا تم چاہتی ہو، ویسا ہی لڑکا ہے۔ خود کلثوم بتا رہی تھی کہ اس کی بیٹی کو اس کے ماموں نے اپنے خرچہ سے اسلام آباد بھجوایا ہے ۔ ۔ پڑھنے کے لیے”۔ امی کے اس جملے کے باوجود اس وقت صغرٰی کے قدم نہیں رکے وہ گھر سے باہر نکل آئی لیکن کچھ سوچ کر پلٹی اور دروازے کو پورا کھولے بغیرگھر میں منہ ڈال کر مصنوعی احتجاج کے ساتھ چیخی، “اچھا امی، اب بس بھی کردو، بات ہوئی تو کچھ بتا سکوں گی”
“باجی، کس طرف جانا ہے؟” قاسم نے رکشہ انتہائی آہستہ کرتے ہوئے آخر پوچھ ہی لیا۔ رکشہ مائیلو شہید چوک کے دوراہے پر تھا اور صغرٰی چونک پڑی، “قبرستان۔۔۔ قبرستان لے چلو”۔ قاسم کی حیرت اُسی سطح پر قائم رہی، “لیکن باجی ابھی مغرب ہونے والی ہے” اس نے احتیاط بھرے لہجے میں احتجاج کیا۔ “کوئی بات نہیں، لے چلو پھر گھر چلے جائیں گے” ڈاکٹر صغریٰ کے لہجے میں حتمی فیصلہ سنانے والے امپائر کا غیر متزلزل اعتماد تھا۔
قاسم نے بادل نخواستہ رکشے کو قبرستان روڑ پر ڈال دیا۔ اس پر بیزاری کے آثار واضح تھے۔
“ہیلو، ڈاکٹر صغرٰی ۔ ۔ سے بات ہو سکتی ہے؟ وہ ۔ ۔ میں شاہد ہوں اور ۔ ۔ ۔”
صغرٰی لنچ کے لیے کینٹین جانے والی تھی کہ شاہد کی کال آگئی اور کینٹین جانے کے بجائے وہ ہال میں چہل قدمی کرتے ہوئے فون پر بات کرتی رہی۔ وہ تین مہینے پہلے کی بات تھی۔ اِن تین مہینوں میں باتیں کہیں سے بڑھ کر کہیں پہنچ گئیں۔ ادب اور تکلف کے گملے میں اگائے گئے محبت کے پودے پر شرارت کے پھول کھلنے لگے۔ تین دن پہلے جب شاہد نے شرارتا” شادی کا موضوع چھیڑا تو صغرٰی نے جھٹ سے بول دیا، “اچھا، شاہد میاں، شادی کا شوق رکھتے ہو تو یاد رکھو میں کسی نیک اختر کی بیٹی نہیں۔ محمد مرزا کی صغرٰی ہوں”۔ شاہد کو یہ ٹیڑھی بات سمجھ نہ آئی۔ ویسے بھی وہ کھلے دماغ کا نوجوان تو تھا لیکن جن باتوں کو وہ معمولی سمجھتا تھا ان پر اپنی توانائی صرف کرنے کے خلاف بھی۔
“اگر یہی رواج عام ہے کہ دلہن کا ذکر “دخترِ نیک اختر” کہہ کر کیا جائے تو کیا قیامت آجاتی ہے؟ آخر تمھارے والد کا نام تو ہے ہی۔ محمد مرزا کی دخترِ نیک اختر! ” شاہد نے آخری الفاظ کو نسبتا” شرارت کی آمیزش سے ادا کیا۔
“لیکن محمد مرزا کی کونسی دختر ِنیک اختر؟” صغرٰی نے بھی کیڑا نکانے کی قسم کھائی ہو جیسے۔
“ارے یار، اکلوتی تو بیٹی ہو۔۔۔”
“لوگوں کو کیا پتہ ، بچارے پوچھتے پھریں ۔ ۔ بڑی کہ چھوٹی !”
اس موضوع پر شاہد اور صغرٰی کی نوک جوک تین دن چلتی رہی۔ شاہد کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ صغرٰی آخر کیوں شادی کی دعوت والے کارڑ پر اپنا نام بنفس ِنفیس لکھوانے پر یوں مُصر تھی۔ اس دوران صغرٰی نے لہجوں میں حلاوت اور شوخی میں کمی تو نہ آنے دی لیکن مطالبہ بدستور برقرار رہا۔ بالٓاخرجیت مستقل مزاجی کی ہوئی اورآج شاہد کو بقلم ِخود شادی کی دعوت والے کارڈ کا متن لکھ کراس کی تصویر صغرٰی کو واٹس ایپ پر بھیجنا پڑا۔
“۔ ۔ ۔ شاہد علی نور ِچشم صادق علی کی شادی محمد مرزا کی بیٹی ڈاکٹر صغرٰی سے ہونا قرار پائی ہے ۔ ۔ ۔”
“بس یہی روک دو، ادھر ہی” ڈاکٹر صغرٰی کی آواز گونجی اور قبرستان کے مرکزی روڑ پر قاسم نے رکشہ روکا۔ آسمان پر روشنی کی آخری کرنیں موجود تھیں۔ صغرٰی رکشے سے اتری،اس نے پرس میں سے ایک پیکٹ نکالا اور قریب ہی ایک قبر کے کنارے بیٹھ کر فاتحہ پڑھنے لگی۔
بچارے قاسم کو جوآج شروع ہی سے اس کے معمّوں کو جھیل رہا تھا، یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ صغرٰی گندم یا چاول کے بجائے قبر پر میٹھی نمکو بکھیر رہی تھی۔
- ایک جائزہ: خالد حسینی کا ناول “اے تھاوزنڈ سپلینڈڈ سنز” … سجاد حسین - 17/04/2021
- میٹھی نمکو … سجاد حسین چنگیزی - 22/12/2020
- میرا جسم کس کی مرضی؟ ۔۔۔ سجاد حسین - 07/03/2020