ہزارہ قوم کی پہلی خاتون پی ایچ ڈی ڈاکٹر زیب النساء نے 15 مارچ 1942ء کو معروف قوم دوست شخصیت کیپٹن سلطان علی کے گھر میں آنکھ کھولی۔ میٹرک تک تعلیم سینٹ ٹریسا سکول سے حاصل کی۔ 1960ء میں انہوں نے اور محترمہ فاطمہ چنگیزی نے جب مروجہ رسومات کے برخلاف کالج میں داخلہ لیا تو روایت پسند حلقوں نے اس کا بہت برا منایا۔ یہاں تک کہ ایک مقامی ملا نے کالج نہ چھوڑنے پران کا سوشل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن ان دونوں کی خوش قسمتی کہ ان کے گھر والے بطور خاص مرحوم کیپٹن سلطان علی اور ایئر مارشل شربت علی چنگیزی (فاطمہ چنگیزی کے بھائی) کی بھرپور حمایت سے انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے نہ صرف اس ٹیبو کو پاش پاش کرکے آنے والی نسلوں کے لئے تعلیم کا درواز کھول دیا بلکہ اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی قابل فخر کامیابیاں حاصل کیں۔ (اس بابت جناب ائیر مارشل شربت علی چنگیزی نے سردار نثارعلی خان کالج کی ایک تقریب میں کافی تفصیل سے بات کی تھی نیز خود ڈاکٹر زیب النساء نے رسالہ طلوع فکر سے ایک انٹرویو میں بھی اس کا تذکرہ کیا تھا)۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد محترمہ زیب النساء نے تعلیمی مدارج اس طرح طے کئے:-
بی اے اردو ادب، پنجاب یونیورسٹی لاہور 1965ء
بی ایڈ، لیڈی مکلیگن لاہور، 1968ء
ایم اے فارسی ادب، پنجاب یونیورسٹی لاہور، 1969ء
ماسٹر کرنے کے بعد بھی چونکہ ان میں علم کی تشنگی باقی تھی لہٰذا انہوں نے مزید علوم کی تلاش جاری رکھی۔ بلاخیر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور 1971ء میں انہیں تہران یونیورسٹی فیکلٹی آف آرٹس میں اسکالرشپ مل گئی جس کا شمار اس زمانے میں ایشیا کی اہم ترین درسگاہوں میں ہوتا تھا۔ اس طرح وہ کم از کم پاکستانی ہزارہ تاریخ کی پہلی اہسی خاتون بنیں جنہوں نے ایک بار پھر فرسودہ روایت کے برعکس عمل کرتے ہوئے علم و دانش کے حصول کے لئے نہ صرف شہر بلکہ اپنا ملک تک چھوڑنے پرآمادہ ہوئیں۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد باہمت زیب النساء نے 1977ء میں پہلی فیمیل ہزارہ کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے پی ایچ ڈی کی اعلی ترین ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ پی ایچ ڈی میں ساڑھے تین ہزار صفحات اور تین جلدوں پر مشتمل ان کے ضخیم تھِسیس کا عنوان “تذکرہ مجمع النفائس سراج الدین علی خان آرزو” ہے جس کی پہلی جلدیں مرکز تحقیقات ایران و پاکستان اسلام آباد کے توسط سے چھپ چکی ہیں۔ پی ایچ ڈی کے بعد انہیں ایران میں ہی درس و تدریس کا موقع ملا جس سے انہیں جنون کی حد تک لگاو تھا۔ اس دوران انکی شادی ایک ایرانی جرنلسٹ علی خان سے ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا نوید ہے جو بقول ڈاکٹر صاحبہ، عادات و اطوارمیں بالکل چنگیزی ہے اور اسی طرح گرم مزاج رکھتا ہے۔ 1993ء کے دوران وہ تہران یونیورسٹی میں فارن لینگویجز کے تحت اردو ڈیپارٹمنٹ کھلنے کے بعد آپ اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1995ء میں آپ اس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ بنیں جو تہران یونیوسٹی کی تاریخ میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ آپ پہلی غیر ایرانی ہیں جو کسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ بنی ہیں۔ یوں ڈاکٹر زیب النساء نہ صرف ہزارہ قوم کی پہلی پی ایچ ڈی بیٹی بلکہ کسی اعلیٰ تعلیمی مقام پر پہنچنے والی پہلی ہزارہ خاتون کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ اس دوران سینکڑوں طلبہ و طالبات نے ان سے علم حاصل کیا ہے جن میں درجنوں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز شامل ہیں۔ درس و تدریس اور بعد از آں انتظامی امور میں بے پناہ مصروفیت کے باوجود اس بلند ہمت خاتون نے تحقیقی میدان میں بھی گراں قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ چنانچہ وہ اس میدان میں بھی ہزارہ خواتین میں اول مقام پر ہیں۔ ڈاکٹرزیب النساء کے درجنوں مقالات اب تک مختلف جرائد کی زینت بن چکے ہیں جب کہ درج ذیل کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں:-
1-تذکرہ مجامع النفائس سراج الدین علی خان آرزو جلد اول، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستان 2004ء
2- اردو فارسی ضرب الامثال، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستان 2004ء
3- مشترکہ ضرب الامثال، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستان 2007ء
4- فرہنگ زیب اللغات اردو فارسی، مجمع ذخائر اسلامی قم ایران 2009ء
5- خاطرات شاہدہ بخاری، قلات پبلی کیشنز کوئٹہ پاکستان 2012ء
6- جامع اللغات ہزارگی سلطانی، ہزارہ گی اکیڈمی کوئٹہ پاکستان 2013ء
7- رسم ورسوم مناطق مختلف پاکستان (فارسی ترجمہ) پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی تہران 2013ء
8- فرہنگ تطبیقی گویش ہزارگی 2 جلدیں، ہزارہ گی اکیڈمی کوئٹہ پاکستان 2015ء
مندرج بالا کتب کے علاوہ ڈاکٹر زیب النساء کی درج ذیل کتابیں غیر مطبوعہ ہیں:-
1-تذکرہ مجامع النفائس سراج الدین علی خان آرزو 2 جلدیں
2- فرہنگ دوبیتی ہای عامیانہ ہزارگی
3- جامع الغات ہزارگی سلطانی (ہزارگی، فارسی، اردو، پنجابی، انگریزی، فرانسیسی)
4- امثال و حکم ہزارہ (ہزارگی، فارسی، اردو، پنجابی، عربی، انگریزی)
5- تذکرہ خلاصتہ الکلام از خلیل ابراہیم خان
6- لغت آزاد از مولانا محمد حسین آزاد
7- فرہنگ محاورات زنان (اردو- فارسی)
8- تصحیح خریط جواہر دیوان مظہر جان جانان
9- پاکستان کے آثار قدیمہ از شیخ نوید اسلم (فارسی ترجمہ)
10- امتیاز علی تاج کا ڈرامہ “انارکلی” (فارسی ترجمہ)
11- 22 اردو افسانوں کا فارسی ترجمہ
12- پاکستان کی عشقیہ علاقائی کہانیاں (فارسی ترجمہ)
13- کوہ نور، احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا فارسی ترجمہ
14- یا خدا، قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کا فارسی ترجمہ
بلا شبہ علمی سرمائے کے حوالے سے افغانستان، ایران اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بسنے والی ہزارہ قوم کی خواتین تودور کی بات، بہت کم حضرات، ڈاکٹر زیب النساء کی ہمسری کرسکتے ہیں۔ ان کی علمی خدمات کے بدلے انہیں مختلف یونیورسٹیز اور اداروں کی طرف سے نصف درجن سے زائد انعامات اور اعزازات دیئے گئے ہیں جن میں تہران یونیورسٹی کی طرف سے “بیسٹ اسکالر آف دی ایئر 2000ء”، “بیسٹ بک آف یونیورسٹی پبلی کیشن 2009ء اور “سلیکٹیڈ بک آف یونیورسٹی پبلی کیشن 2015ء” بھی شامل ہیں۔
ایک دنیا ڈاکٹر زیب النساء کے علمی مقام کی معترف ہے، ان کی تحقیقی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ایک حد تک اس کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کی ہے، لیکن اگر وہ نا شناختہ ہیں تو اپنے لوگوں کے لئے۔ بلکہ مزید ستم ظریفی یہ کہ اپنے شہر کوئٹہ میں اپنی قوم کے درمیان۔ یقیناً اسکی ایک بڑی وجہ ابھی تک ہمارے سماج کے اندر ” Gender inequality” یعنی جنسی نابرابری کی موجودگی ہے جس کو بظاہر ٹوٹے ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اس کی جڑیں ابھی تک ہمارے مرد سالار سماج میں موجود ہیں۔ لاریب اگر ڈاکٹر زیب النساء کی جگہ کوئی ہزارہ مرد اس پایے کا اسکالر ہوتا تو ہمارے لوگ اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتے، اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے، مگر چونکہ ڈاکٹر زیب النساء خاتون ہیں اس لئے انہیں Gender inequality کا سامنا ہے۔ میرے خیال میں اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، ہمیں ان کے علمی مقام کو تسلیم کرکے ان کے علم و دانائی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خاص طور پر خواتین کے لئے ان کی زندگی، جدوجہد اور کامیابیاں، مشعل راہ بن سکتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کی زندگی کے مختلف ادوار یعنی بحیثیت ایک جری طالبعلم جب وہ فرسودہ روایات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، پھر بحیثیت ایک پُرعزم استاد و محقق اور ایک ذمہ دار ایڈمنسٹریٹر، ایک غیر ملک میں اور نامساعد حالات میں اپنا لوہا منواتی ہیں اور آخر میں بحیثیت ایک مہربان خاتون خانہ، ان تمام بیرونی مصروفیات کے باوجود جملہ امور خانہ داری خود ہی انجام دیتی ہیں، یہ سب ان تک پہنچائے جائیں۔ ایک اور نکتہ یہ کہ محترمہ ڈاکٹر زیب النساء کی غیر مطبوعہ کتابوں کی اشاعت کی طرف عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ ان کی دو کتابیں ہزارہ گی اکیڈمی کی وساطت سے چھاپی جا چکی ہیں جوکہ قابل تحسین ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اکیڈمی نے انہیں خالص سونے سے بنا میڈل بھی عطا کیا ہے۔
خیر سے اس وقت دو اکیڈمیز میدان عمل میں ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کی ہزارہ و ہزارگی سے متعلق کتابوں سے اپنے کام کا آغاز کریں۔ باقی ہمارے ٹی وی چینلز خاص طورپر میچید ٹی وی، اس زندہ لیجنڈ اور قومی اثاثے کی زندگی کے مختلف گوشوں کی بابت معیاری ڈاکیومینٹریز پروڈیوس کرے اور ان کو نئی نسل اور آنے والی نسلوں تک پہنچائے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کی تیاری میں جناب مرزا حسین آزاد کے مخلصانہ تعاون کا بے حد شکریہ
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024
MASHALLAH Brilliance at its peak.What an amazing lady. Shes a true inspiration . Bravoo