ذرا جرآت کے ساتھ
میر اسلم رند
بلوچستان میں ہر آنے والا دن تعلیم کے لئے زوال پذیر اور پستی کی طرف گامزن ہے۔
اس سے پہلے بھی بلوچستان کے تعلیمی نظام سے متعلق لکھ چکا ہوں لیکن آج ایک بار پھر لکھنے کو دل چاہ رہا ہے۔ ہر آنے والی حکومت سے یہ امیدیں وابستہ کرنا ایک قدرتی امر ہے کہ شاید یہ حکومت تعلیم کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ لیکن افسوس کہ عوام کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ہاں البتہ حکومت کی طرف سے بڑے بڑے دعوے ضرور کئے جاتے ہیں۔
2008 کے الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد نئی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ بلوچستان کے ہر سرکاری اسکول میں پہلی جماعت سے انگلش پڑھایا جائے گا اور تمام اساتذہ کرام کو اس بابت تربیت دی جائے گی۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ میں 800 ارب روپے ملنے کے باوجود ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے تعلیمی لحاظ سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لا سکے۔ اس کے بعد 2013 میں قوم پرستوں کو حکومت ملنے کے بعد بھی اسی طرح کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے لیکن ان کی بھی نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے 15 ہزار اساتذہ کی اسامیاں پر نہ ہو سکیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے ہزاروں اسکولوں میں آج بھی اساتذہ کی کمی ہے۔ حالانکہ ان کے منشور میں شامل تھا کہ ہر بچہ اسکول میں ہو گا۔ لیکن ان کا یہ نعرہ بھی صرف واک اور ذاتی تشہیر تک ہی محدود رہا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام دن بہ دن زبوحالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اور محکمہ تعلیم پرائمری اور مڈل اسکولوں کی تعلیم کو بہتر کرنے کی بجائے تمام ذمہ داریاں سیکینڈری بورڈ پر ڈال دیتے ہیں۔۔ سال میں کئی بار اخبارات میں سیکنڈری بورڈ کی طرف سے پریس کانفرنسز منعقد ہوتی ہیں یا پھر یا بیانات دیے جاتے ہیں کہ اس بار طلباء کو کسی صورت نقل نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس دوران زیادہ تر سپرنٹنڈنٹ اور نگراں سفارش پر تعینات کئے جاتے ہیں اور انہی امتحانی مراکز کے باہر نقل دینے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام انتظامی امور پر سفارشی آفیسرز تعینات کئے جاتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر برانچ میں ایک سینئر افسر کے اوپر ایک جونیئر آفیسر بیٹھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر نظام تعلیم کیسے ٹھیک ہو گا !؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمام پرائیویٹ اسکولوں کے منتظمین محکمہ تعلیم کو سرکاری سطح پر تعلیم کو زوال پذیر کرنے کے لئے پیسے دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ ایک سرکاری اسکول کے ایم ایڈ یا بی ایڈ تجربہ کار ٹیچر سے کسی پرائیویٹ اسکول کا نارمل ایف اے یا بی اے پاس ٹیچر اچھا پڑھا سکے۔
لہٰذا ہم بلوچستانی عوام کا اپنے حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ آپ تعداد بڑھانے کے ساتھ معیار بڑھانے پر بھی توجہ دیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے تمام اساتذہ کرام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ آپ اپنی یونین پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے بلوچستان کے ان غریب بچوں پر بھی توجہ دیں جو خدا کے بعد اپنے اساتذہ سے امید رکھے ہوئے ہیں۔
آخر میں سیکرٹری تعلیم سے گزارش ہے کہ جن اسکولوں کی سالانہ پروگرس ٹھیک نہیں ان اسکولوں کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹرز کے خلاف کاروائی کی جائے۔
- ذرا جرآت کے ساتھ ۔۔۔ میر اسلم رند - 03/08/2019
- ذرا جرأت کے ساتھ ۔۔۔ میر اسلم رند - 17/05/2019