شہر یا جنگل؟ ۔۔۔ طلا چنگیزی

شہر یا جنگل؟ 
طلاء چنگیزی
 
ہم جہاں کے باسی ہیں 
جس نگر میں رہتے ہیں  
جس ڈگر پہ چلتے ہیں 
جس زمین پہ بستے ہیں  
اس کو اپنا کہتے ہیں 
اور وطن کی حرمت کا 
 کتنا مان رکھتے ہیں
 وقت گر پڑے اس پر 
 دل کی پھر کیا وقعت ہے 
 نقد جان بھی صدقے میں 
 اس پہ وار دیتے ہیں 
 گیسوئے وطن کی 
ایک ایک الجھن کو
پر فگار انگلیوں سے
ہم سنوار دیتے ہیں
 
پھر بھی یہ گلہ ہم سے
با وفا نہیں ہیں ہم
ہم الگ سے لگتے ہیں 
پر جدا نہیں ہیں ہم 
جو جفا کے خوگر ہیں 
موت کے سوداگر ہیں 
وہ تمھارے دلبر ہیں 
ظلم کونسا ہے جو 
وہ روا نہیں رکھتے 
تم خدا کا سایہ ہو
کیا ہم خدا نہیں رکھتے؟ 
تم ہمارے زخموں پر 
کیوں دوا نہیں رکھتے؟ 
 
 
 

.

ہم وفا شعاروں کے 
دل پہ جو گزرتی ہو 
خوش گمان رہتے ہیں
جو ابھی نہیں آئی 
اس سحر کے آنے کا 
اعتبار رکھتے ہیں 
 
برملا یہ کہتے ہیں
ہم گلہ نہیں کرتے
اپنے خون ناحق کے 
ایک ایک قطرے کو
وقت بھی اگر چاہے 
پر مٹا نہیں سکتے 
 ہم بھلا نہیں سکتے 
 
لیکن
اب ہر طرف اداسی ہے
ہم جہاں کے باسی ہیں
جس نگر میں رہتے ہیں
جس ڈگر پہ چلتے ہیں
جس زمین پہ بستے ہیں 
وہ بے حسوں کی نگری ہے 
بے مہر سی گلیاں ہیں  
بے ثمر سے رستے ہیں 
درد سی بیدردی ہے
اپنے گھر میں قیدی ہیں
زندگی کی بستی میں
موت سب سے سستی ہے 
 
دل کا حال کیا کہیے
شام ہی سے بوجھل ہے
فیصلہ نہ ہو پایا 
شہر ہے یا جنگل ہے؟
جاوید نادری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *