ایک تھا لڑکا ایک تھی لڑکی ۔۔۔ عباس حیدر

ایک تھا لڑکا ایک تھی لڑکی

تحریر: عباس حیدر

وہ ایک غیرتعلیم یافتہ مگر طبیعتاً نہایت بھولا لڑکا تھا۔ حالانکہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا تھا مگر اپنا ہدف نرم و نفیس انداز میں سمجھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ عنفوان شباب میں وہ کسی لڑکی کو چاہنے لگا تھااور لڑکی بھی اُسے چاہتی تھی۔ لڑکی متواتر اسے محبت نامے لکھتی مگر وہ نہ ان محبت ناموں کو پڑھ سکتا تھا، نہ کوئی جوابِ نامہ لکھ سکتا تھا اور نہ ہی اس کی چاہت سے دستبردار ہوسکتا تھا۔ ایک روز بادل نخواستہ اس نے مجھے لڑکی کی طرف سے بھیجا گیا ایک خط پڑھنے کو کہا۔ خط پڑھنے کے دوران اس کا چہرہ خوشی اور شرم کے ملے جلے تاثرات سے سرخ ہو رہا تھا۔ آخرکار نہایت تشکرانہ اور شرمیلے انداز میں اس نے میرے ہاتھ سے خط  لے کر اپنی راہ لی۔ گھر جاکر اسے نجانے کونسے خیال نے ستایا ہوگا جس نے اسے دو تین گھنٹے بعد میری طرف دوبارہ پلٹنے پر مجبور کردیا۔ اب کی بار شام ہو چکی تھی اُس کے ہاتھ میں قلم اور ایک خوبصورت ڈائری تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے احوال پرسی کی اور مجھے باقی دوستوں سے علیحدہ کرکے ایک خط لکھنے کی درخواست کی۔ اس وقت خط لکھنے کے آداب اور جملوں کے موقع بہ موقع گردان سے میں نا آشنا تھا۔ وہ مجھے سرگوشیوں میں منانے کی کوششیں کر ہی رہا تھا کہ شرارتی دوستوں کی چھٹی حس نے غالباً انہیں آگاہ کیا کہ ہماری کھسرپھسر کسی مخصوص خط کے بارے میں ہورہی ہے جس کا اندیشہ انہیں یقینا پہلے سے تھا۔ اب بھلا ایسا موقع نوجوان دوست کب ہاتھ سے جانے دیتے ہیں، اس لیے وہ ہمیں گھیر کر خوب چھیڑنے لگے اور مجھے وہ محبت نامہ لکھنے پر مجبور کرتے رہے۔ بالاخرمجھے ”خدائے نظر“ اور ان من موجیوں کی بات ماننا پڑی، میں نے اپنے دوست خدائے نظر سے نامہ کا لب لباب پوچھا اور بمشکل اگلے روز تک کی مہلت پر اپنی جان بخشی چاہی۔

یقین جانیے، اُس رات کو میں سویا ہی نہیں اور رات کے آخری پہر تک مختلف کتابوں سے خط لکھنے کا ہنر کھنگالتا رہا، بخاطر مشق کاغذ کے دستوں کے دستے سیاہ کردئیے۔ بالاخر اس ردی پلندے میں سے ایک پر میری نظر پڑی جو بتائے گئے خلاصے سے مجھے نزدیک تراور معقول لگا۔ اگلی صبح میں نے وہی کاغذ جو خدائے نظر نے گذشتہ شب مجھے خط لکھنے کے لیے دیا تھا اور جس پر Love Letter کے انگریزی حروف جلی الفاظ میں پہلے سے پرنٹ تھے، پر نہایت خوشخطی سے اتارا۔ دوپہر کو جب میں نے اسے وہی محبت نامہ پڑھ کر سنایا، تو اس نے بہت پسند کیا اور خوشی سے ایک مرتبہ پھر اس کے چہرے پر وہی کیفیت طاری ہوئی، جو اکثر ایسے موقعوں پر نمایاں ہوجاتی تھی۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پہلے سے رکھے ہوئے ایک خوبصورت لفافے کو باہر نکالا۔ پھر اس نے نہایت پیار سے اپنی محبوبہ کے نام خط کو تہہ کرکے ملفوف کیا اور بہادری کے ساتھ اسے پہنچا بھی دیا۔

یہ سلسلہ غالباً تین مہینے تک جاری رہا۔ اس دوران میں نے بطور خامہ فرسا اس کے لیے درجن سے زائد محبت نامے لکھے جو پیار، محبت اور روٹھنے، منانے کی داستانوں سے لبالب تھے۔ دیدارِ یار بنا ان کی حالت بے چین روحوں کی سی ہونے لگی تھی اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کوئی دن ایسا نہیں گذرا ہوگا جب ان کی چوری چھپے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ پھر وہ موقع بھی آیا جب میری اور خدائے نظر کی ملاقات بہت دنوں سے نہیں ہوپارہی تھی، اس کا احوال جاننے کے لیے میں نے دوستوں سے رابطہ کیا۔ حسب عادت ان منچلوں نے میرا خوب مذاق اڑایا اور کہنے لگے، ”شاید اپنی خوابوں کی ملکہ کو اڑا کر کہیں چھپ گیا ہوگا۔“ پھر ان میں سے ایک بول پڑا ”یارو! اس معاملے سے ہم جتنا دور رہیں گے اُتنا ہی ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا۔ آج سے ہم کسی خدائے نظر، مُدائے نظر کو نہیں جانتے اور نہ ہی اس سے قبل ہم جانتے تھے۔“ انہوں نے مجھ سے بھی اس قول و قرار کا پابند رہنے کی خواہش ظاہر کی، اس لیے میں نے بھی اس موقع پر چپ سادھ لی۔

تقریباً ایک ہفتے بعد میں اور میرا ایک ہم سن و صحبت اپنی گلی میں مٹرگشتی کررہے تھے کہ ہماری نظریں اسی لڑکی پر پڑیں جس کے عشق میں خدائے نظر مجنوں بنا پھرتا تھا مگر اس وقت وہ پہچاننے میں نہیں آرہی تھی اور مجھ پر یہ گمان بھی نہیں گذرا کہ یہ وہی لڑکی ہے۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو تیز تیز قدموں سے ہماری طرف بڑھی اور ہم سے اپنے محبوب خدائے نظر کے بارے میں پوچھنے لگی۔ یہ موقع مجھے ششدر کرنے کے لیے کافی تھا کیونکہ جس لڑکی کو میں نے خدائے نظر کے ساتھ دیکھا تھا وہ تو نہایت حسین و جمیل تھی اور اب جو لڑکی مجھ سے مخاطب تھی یہ تو بہت لاغر، دبلی پتلی اور کمزور تھی۔ میں سوچوں کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ ”نجانے کیا بیتی ہوگی اُس نازک اندام پر جس کی آج یہ حالت تھی۔“ اس کے تسلسل نے مجھے چونکا دیا ”آپ سے مخاطب ہوں“ وہ رو پڑی۔ دوستوں سے باندھے قول و قرار کو اس لمحہ میں بالکل فراموش کرچکا تھا۔ میں نے کہا ”تقریباً دو ہفتوں سے ہماری ان سے ملاقات ہی نہیں ہوئی“ مجھ پر سکتہ ساطاری تھا، معلوم نہیں کہ اپنی چشم پرآب کے ساتھ وہ کیا کیا کہہ کر چلی گئی۔ ”یہ کون تھی؟“ میرے ساتھ کھڑے میرے دوست نے حیرانگی میں مجھ سے استفسار کیا۔ ”مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا……مگر شاید یہ وہی لڑکی ہو جس کی خدائے نظر کے ساتھ محبت رہی ہوگی۔“ میں بت سا بنا اسے اتنا ہی بتا سکا۔ ”یار یہ تو ہم سب کے لیے اچھی خبر ہے ورنہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ خدائے نظر اسے اڑا کر کہیں روپوش ہوچکا ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ویسا نہیں ہوا جس طرح ہم سوچ رہے تھے ورنہ ہم سب اس دلدل میں پھنس جاتے۔“ حاضرالوقت دوست بے ساختہ کھلکھلا کر بول اٹھا اور میری کیفیت ناگفتنی ہوگئی۔

خدا جانے کیا سوچ کر دوستوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ دوست ہونے کے ناطے خدائے نظر کا پتہ لگانا ہم دوستوں پر فرض ہے۔ چند دوست اُس دوکان پر گئے جہاں خدائے نظر درزی کا کام کرتا تھا۔ وہاں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ایک مہینہ پہلے خدائے نظر نے اپنے بڑے بھائی کو اس ”پری چہرہ“ کے ہاں رشتہ مانگنے کا کہا تھا جس پر وہ دل و جان سے فریفتہ تھا۔ بڑے بھائی کے انکار پرانہوں نے ان کی بہت منت سماجت کی تھی۔ ہربار اس کے بڑے بھائی نے شادی کے اخراجات کے لیے ان سے پیسے طلب کیے تھے۔ لیکن خدائے نظر کے پاس رائج فرسودہ رسم و رواج کو دوام دینے کے لیے اُتنے پیسے نہیں تھے اس لیے اس نے محنت مزدوری اور زیادہ پیسے جوڑنے کی غرض سے ایران جانے کی ٹھانی۔ اس مقصد کے لیے اس نے غیرقانونی ”قاچاق“ راستہ چنا۔ دوران سفر کار یا ایک ٹیکسی میں بشمولِ خدائے نظر پندرہ سے بیس افراد کو بٹھا کر ڈرائیور سنسان راہوں پر گاڑی کو نہایت تیزرفتاری سے دوڑاتا رہا۔ یوں  بدقسمتی اور ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے گاڑی بے قابو ہوکر کسی سیلابی کھڈے میں گر کر تباہ ہوگئی۔ اس حادثے میں خدائے نظر اپنا ارماں بھرا دل لیے اس جہان فانی کو وداع کر گیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس کے زرپرست اور فرسودہ رسم و رواجوں کے پجاری بڑے بھائی نے اس کی رسم فاتحہ بھی پوری نہیں کی۔
”ایک تھا لڑکا ایک تھی لڑکی……اُن کی محبت رہی ادھوری“
پس نوشت: کچھ روز قبل مجھے وہ ڈائری ملی جس پر اس کے جانے کے بعد میں اور میرے ایک دوست نے اُس کی یاد میں غزلیں اور اشعار لکھے تھے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی اس چشم دید ”جگ بیتی“ کو ایک خوبصورت افسانچہ کی صورت آپ کی خدمت پیش کروں …………سو! حاضرخدمت ہے۔

عباس حیدر
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *