روضہ خوانی کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ ۔۔۔ علی امیری

*
ترجمہ: اسحاق محمدی
کوئی پانچ صدی قبل ہرات میں مقیم کمال الدین حسین بیہقی کاشفی المعروف ملا حسین واعظ کاشفی نے “روضتہ الشہداء” نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل تھی۔ بتدریج ماہ محرم کے پہلے دس دن کے دوران اس کا ایک باب روز پڑھے جانے کی شروعات ہوئیں، جس نے آگے چل کر ایک بہت بڑی روایت کی شکل اختیار کرلی جسے آج کل “روضہ خوانی” کہا جاتا ہے۔ خود ملا کبھی کبھار شہدائے کربلا کی شان میں اشعار لکھتے اور سبزوار و دیگر علاقوں میں لوگوں کے اجتماع میں ترنم سے پیش کرتے تھے۔ تاریخ علمائے خراسان کے مصنف عبدالرحمان مدرس کے مطابق ملا حسین کاشفی، نقشبندی سلسلے کا سنی العقیدہ صوفی مسلک تھا۔ روضتہ الشہداء تاریخی حقائق پر استوار ہونے کی بجائے ملا کے اپنے تخیلات کی پیداوار تھی۔
واعظ کاشفی کی وفات کا زمانہ ایرانی صفویوں کے ظہورسے قریب تر ہے۔ صفویوں کا نسلی تعلق شیخ صفا الدین اردبیلی سے تھا جو ملا کاشفی کی طرح صوفی مسلک سنی تھے، لیکن انکی اولاد کٹر سنی مخالف اور صوفی مخالف شیعہ مسلک کے پیرو کار بن گئے اورا نھوں نے سنی ملا (واعظ کاشفی) کی طرف سے شروع کردہ روضہ خوانی کی روایت کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر پھیلانا شروع کردیا۔ ایرانی صفوی اپنے آپکو سلطنت عثمانیہ کا ہم پلہ حریف سمجھتے تھے لہذا انھوں نے عثماینوں کے جو سنی العقیدہ صوفی مسلک تھے کے برخلاف، صوفی دشمنی اور روضہ خوانی کو اپنی سلطنت کی اساس قرار دے کر اس کی ترویج میں جت گئے اور انہی کی حمایت کے بل بوتے پر اس کی نئی نئی صورتیں ظہور پذیر ہونے لگیں۔
قاجار دور حکومت میں تعزیہ اور شبیہ نکالنے کی روایت چل پڑی جس پر عقیدہ کی بجائے نمود و نمائش کی چھاپ زیادہ تھی ( آیت اللہ مطہری کے مطابق یہ رسم قفقاز کے عیسایوں سے لیا گیا ھے جاذبہ و دافعہ علیؑ ص 154 مترجم)۔ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں سرکاری تکیہ خانے، تفریح گاہ بن گئے تھے جہاں بڑے القاب والے روضہ خوان جیسے سلطان الذاکرین، ملک الذاکرین، تاج الذاکرین موسیقی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ روایتی ایرانی کلاسیکل موسیقی کے چند بڑے نام جیسے سید عزیز اللہ ملک الذاکرین، تاج نیشاپوری تاج الذاکرین، مرزا حبیب شمس الذاکرین اور مرزاطاہر ضیاءالذاکرین انہی تکیہ خانوں کی پیداوار ہیں
بیسویں صدی کے دوران جب اسلامی دنیا ناکامیوں سے دوچار تھی واقعہ عاشورا کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی۔ اسلامی جنگجو گروپوں کی یہ کوشش رہی کہ وہ اس واقعہ کو سیاسی رنگ دیں اور امام حسینؑ کی ذات کو ایک انقلابی کے روپ میں پیش کریں۔ چنانچہ علی شریعتی، اپنے خطابات میں امام حسینؑ کو چہ گویرا کے طورپر پیش کرتےہیں۔ گلبدین اور علامہ اسماعیل بلخی اسی طرز فکر کے حامی رہے ہیں
ایرانی اسلامی انقلاب نے بہت سی چیزوں کو سیاسی شکل دی ہے جن میں روضہ خوانی سرفہرست ہے۔ یوں عاشورا جو قبل ازایں مختلف طرز فکر، ثقافت اور اجتماعی ماحول کا عکاس تھا، اب ایرانی اثرونفوذ کے زیراثر یکسانیت کی طرف جارہا ہے۔ ایران اپنی سیاسی آیئڈیالوجی کی ترویج کی خاطر بڑے پیمانے پر روضہ خوانی کے اہتمام پرجتا ھوا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی تبدیلی عزاداری کو روایتی تکیہ خانوں سے نکال کر “اسٹریٹ پاور” کا روپ دینا ہے۔ چنانچہ اب عزاداری، ایران کے سیاسی پروگرام کا ایک اہم جزو ہے۔ یوم القدس، شب ھای قدر ، عیدین اور یوم انقلاب وغیرہ کی طرح عزاداری، ایرانی سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک اھم ذریعہ بن گیا ہے۔ اسکی یہ صورت امام حسینؑ سے اظہار محبت سے زیادہ اہم ایران کی اپنی سیاسی آیئڈیالوجی ہے۔ افغانستان، پاکستان، عراق، لبنان اور شام میں تمام تر جعرافیائی دوریوں کے باوجود ان مراسم میں یکسانیت لانے کے پیچھے دراصل ایران کی وسیع سرمایہ کاری کا عمل دخل ہے
روضہ خوانی کی اس نئی تبدیل شدہ شکل نے تشدد پسندی کو فروغ دیا ہے۔ اس مکتبہ فکر کے حامی دوسروں کے خلاف تلخ زبان یہاں تک کہ کفرکے فتوے دینے اور دوسروں کیلئے عذاب پیدا کرنے کو اپنا مسلمہ حق گردانتے ہیں۔ انکے مخالف سنی گروہوں کا رویہ بھی بالکل اسی طرح ہے۔ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، القاعدہ اور ان سے وابستہ وہابی طرز فکر کے حامل تشدد پسند تنظیمیں عزاداری کی اس جدید روپ کو سیاسی قدرت نمائی ہی سے تعبیر کرتی ہیں۔ چناچہ پاکستان، افغانستان اور عراق میں ان مراسم پر متواتر حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان حملوں کا تعلق ان مراسم کے سیاسیت زدہ ہونے سے ہے۔ اب جبکہ عزاداری کے یہ مراسم اپنے اصلی تاریخی اور ثقافتی دائرہِ سے نکل چکے ہیں، ایسے میں کیا انکو اس ڈگر سے نکالنا ممکن ہے ؟ اس سوال کے جواب کو حالات پر چھوڑتے ہیں۔
اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *