چند دن پہلے میرے ایک مہربان دوست نے کوئٹہ سے ہزارہ کلچر ڈے کے حوالے ایک قم پلٹ مولوی کی ویڈیو شیئر کی جس میں منفور ولایت فقیہ سے وابستہ یہ شخص حسب عادت و حسب توقع ہزارہ کلچر کے بارے میں وہی گھسی پٹی باتیں، وہی ہرزہ سرائی کرتا نظر آیا کہ ہزارہ کلچر میں موسیقی نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی یا یہ کہ ہزارہ معاشرے میں رقص و سرود کا سرے سے وجود ہی نہیں، لہٰذا یہ سب چیزیں موجودہ گمراہ نسل کی ایجاد کردہ اور حرام ہے۔ مضحکہ خیز نکتہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے سب سے وحشی ڈکٹیٹرز میں سے ایک یعنی سیدعلی خامنہ ای کی مدح میں بننے والے گیت”سلام فرماندہ” کا اردو ورژن درجنوں پاکستانی شیعہ و ہزارہ بچیوں کو گوا کر اور ان کی ویڈیوز پوری دنیا کو دکھانے میں یہی مولوی پیش پیش تھا۔ وہاں نہ محرم و نامحرم آڑے آیا اور نہ حرام، حرام کی گردان کی حاجت۔ وہاں نہ محرم و نامحرم آڑے آیا اور نہ حرام، حرام کی گردان کی حاجت۔ البتہ اس مولوی کے جواب میں شاید اتنا کہنا کافی ہو کہ بنی نوع انسان کی ماقبل تاریخ کو ایک طرف رکھے، مابعد تاریخ کے کم سے کم چھ ہزار سالہ دور میں کوئی ایسی قوم، قبیلہ یا گروہ نہیں جس کے ہاں خوشی کے مواقع رقص و پایکوبی کی محفلوں سے خالی رہے ہوں؟۔ جہاں تک ہزارہ قوم کا تعلق ہے وہ تو کتبی اور ویڈیوز کی صورت میں ریکارڈ پر ہیں کہ ہزارہ قوم میں، مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین میں بھی رقص و پائی کوبی کی محافل ہوا کرتی تھیں، جنمیں “رقص پیش پو” میں خواتین، مرد کے شانہ بشانہ رقص کرتی تھیں جبکہ خوشی کے مواقع پر یہی ہزارہ خواتین “الخوم اور پوفی” کے ناموں سے اپنی خوشیوں کا اظہار کرتی تھیں جن کا نظارہ کرنے والوں میں ہر عمر کے مرد اور خواتین شامل ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی ستر، اسی سال قبل جاہل ملاوں کے نمودار ہونے کے بعد سے ہزارہ قوم کو مذہب کی آڑ لیکر فنون لطیفہ کے تمام فارمز یعنی رقص، موسیقی، مسجمہ سازی یہاں تک کے مصوری سے بھی محروم رکھنے کی شروعات ہوئیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نتیجے کے طورپر ہزارہ سماج میں رقص، مجسمہ سازی اور پینٹنگز تقریباً مفقود ہوگئیں جبکہ صرف دمبورہ کی صورت، موسیقی ایک حد تک سروائیو کرنے میں کامیاب رہی اور وہ بھی صرف مرد حضرات کے درمیان، خواتین میں چند سال قبل تک اسکا تصور گناہ کبیرہ گردانا جاتا تھا جس کی ایک مثال بلبل ہزارستان دلارام آغئی کی جبری علاقہ بدری اور قید تھی۔
امیر جابر عبدالرحمان کی ہزارہ نسل کش پالیسی اور اس کے بعد آنے والے افغان حکمرانوں کی ہزارہ دشمن پالیسیز نے سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے جس قدر مہلک ضربات ہزارہ قوم پر لگائیں، سماجی و ثقافتی لحاظ سے اتنی ہی ضربات ان جاہل ملاؤں نے لگائیں۔ معروف لکھاری ڈاکٹر حفیظ شریعتی اپنی 7 مئی 2023ء کی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ:
“ہمارے گاؤں میں دایدو (ہزارہ گی لوک موسیقی کی ایک صنف دای دو) کی صدا خاموش ہوئی، دمبورہ اور بانسری نوازی حرام قرار پائی، خواتین کی دایدو بھی حرام ہوئی، روایتی کھیل کود یہاں تک پراگ (ایک ہزارہ گی کھیل) اور پوٹلی بازی (کھینچے بازی) کو بھی سر امام حسینؑ (نعوذ بلا) سے کھیلنے کے مترادف قرار دیکر حرام قرار دے دیا گیا۔ مولوی حضرات منبروں پر یہ وعظ کرتے کہ ایک مہینہ دمبورہ بجانے پر ایک انگلی، دس مہنے بجانے پر تمام انگلیاں اور ایک سال تک بجانے پر پورا بدن جہنمی بن جاتا ہے۔ ان حالات میں بھلا کون دمبورہ بجانے کی جرات کرسکتا تھا۔ ایسے میں حالات یہاں تک پہنچے کہ استاد خان محمد دلبری کے مطابق ان ملاوں کے فنون لطیفہ پر حملہ آور ہونے سے قبل صرف دایکنڈی کی حد تک دمبورہ میں 70 سے زائد سبک (طرز یا اسٹائل) تھے جوکہ فی زمانہ 10 سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شریعتی کے مطابق ملاؤں نے ہزارہ گی قومی آداب و رسوم کے بجائے عرب آداب و رسوم کی ترویج کی جن میں سے ایک حملہ خوانی ہے (حملہ حیدری ایک کتاب کا نام ہے جن میں مہا بھارت اور شاہنامہ کی طرز پر واقعات کو دیومالائی انداز میں بیان کیا گیا ہے)۔ جس کا یہ بھیانک نتیجہ نکلا کہ ہزارہ قوم کے اندر سے نسل در نسل سینہ بہ سینہ چلنے والی لوک داستانیں، آداب و رسوم معدوم ہوتے گئے جن کے توسط سے آج ہم ہزارہ قوم کی حقیقی شناخت تک جلد پہنچ پاتے اب ان کی جگہ عربی کلچر نے لے لی ہے” ( دکتر حفیظ شریعتی سحر)۔
جہالت اور رجعت پسندی کی یہ فضا ہزارہ جات یا ہزارستان تک محدود نہیں تھی یہاں کوئٹہ جیسے بین الاقوامی شہر اور صوبہ بلوچستان میں سب سے بلند شرح خواندگی رکھنے والی ہزارہ قوم میں 70 کی دہائی تک کم و بیش وہی ہزارہ ثقافت دشمن صورتحال تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے تلاو خشک (تالاب خشک) محلہ میں ایک شخص قربان علی زاریہ رہائش پذیر تھے جن کے گھر کے سامنے نصب نلکے سے ان دنوں پورا محلہ روزانہ صبح و شام پانی بھرنے جاتا تھا۔ قربان علی زاریہ دمبورہ نواز تھا۔ وہ برنامہ ہزارہ گی ریڈیو پاکستان کوئٹہ کیلئے بھی گاتا تھا۔ شاید اسی کی تیاری میں وہ بعض اوقات اپنے گھر کے برامدہ میں دمبورہ بجایا کرتا تھا، جس پر بڑی عمر کے مرد و خواتین سخت ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرتے تھے۔ ایک روز پتہ چلا کہ بیچارے زاریہ پر لقوہ کا اٹیک ہوا ہے، جس پر ان بزرگ مرد و خواتین کا عمومی رد عمل یہ تھا کہ اسی دمبورہ نوازی کی وجہ سے اس پر عذاب خداوندی آیا ہے۔ اگلے دو تین مہینے یہی بزرگ خواتین و حضرات خوشی خوشی ہر کسی سے کہتے نظر آئے کہ کس طرح ایک لوکل ملا نے اسکا دمبورہ جلا کر اس کی راکھ نالی میں بہا دی اور کس طرح خود بیچارہ قربان علی زاریہ کو ننگے پیر اور ننگے سر امام بارگاہ نصیرآباد لے جا کر اس سے توبہ کروایا گیا۔ (اس وقت امام بارگاہ آغائے گل نہیں بنا تھا)۔
بھلا ہو تنظیم نسل نو ہزارہ مغل اور ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنہوں نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں ہزارہ ثقافت بطور خاص دمبورہ کے احیاء کے لئے تمام تر نامساعد حالات میں بھی نہایت جراتمندانہ اقدامات اٹھائے اور ان طاقتور رجعتی عناصر کی شدید مخالفت کے باوجود ہزارہ گی موسیقی و دمبورہ کی بڑی بڑی تقریبات منعقد کیں جن کے مثبت اثرات آج دنیا بھر میں آباد ہزارہ قوم میں جابجا نظر آرہے ہیں۔ چناچہ آج ہم فاطمہ عاطف آغئی کی طرف سے شروع کردہ “ہزارہ کلچرڈے” بڑے فخر اور شان سے بین الاقوامی سطح پر منارہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ جن جاہل اور رجعتی ملاؤں نے کئی عشروں تک مذہب کی آڑ لے کر ہزارہ ثافت کو مٹانے کی کوششیں کیں، انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اب مزید حرام، حرام کی گردانیں یا محرم و نامحرم کی شرمناک تاویلیں نقار خانے میں طوطی کی صدا کے سوا کچھ بھی نہیں۔
Latest posts by اسحاق محمدی (see all)
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024
The Significance of the Hazara Culture Day
Thank you, Mr Mohammadi, for this brilliant article
I would like to share this message with you and other friends on this unique occasion, dedicated to public celebration
This is obviously an iconic day on the Hazara social calendar, a rare joyful occasion for our
people to celebrate in the midst of so many challenges
When the early Shia missionaries (presumbly
the holy Sayyids) arrived long time ago among
,the Hazaras
we were forced to adopt Shia religion
However, the force of brain-washing was very coercive to the extent that we almost abandoned our connection to our language, tradditional customs, and cultural identity
The Hazaragi was declared to be a mean and
inappropriate language for deliveing religious
sermons, or for reciting religious poems,etc
The same thing happened to native peoples in Canada, Australia and New Zealand, where Christianity separated newly converted populations from their original values and sense of belonging
Let us hope for a brighter future with adequate security, wisdom, awareness, and happiness for all of us
Best wishes
Shah Wali Shafayee
Christchurch, New Zealand