سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی

6 جولائی 1985ء کے المناک سانحہ کے بارے راقم نے کئی آرٹیکلز لکھے ہیں۔ اس بار یہ نئی تحریر لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس بابت ایک نئی کتاب آئی ہے جس کا عنوان “دی شیعہ آز آف پاکستان” ہے۔ یہ کتاب اے ٹی ریک کی لکھی ہوئی ہے جس نے عمومی طورپر پاکستانی اہل تشیع کی تاریخ بیان کی ہے اور جس میں سانحہ 6 جولائی کوئٹہ کا مختصر ذکر بھی شامل ہے۔ اسی کتاب کو کوئٹہ کے ایک مولوی صاحب نے بڑے طمطراق کے ساتھ حاضرین و ناظرین کو دکھا کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں سانحہ 6 جولائی کو لیڈ کرنے والے ایران نواز مولوی حضرات جیسے شیخ جمعہ اسدی، شیخ یعقوب توسلی وغیرہ اور اس وقت کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے علامہ عارف حسین حسینی حق و صداقت پر تھے۔ کتاب کے مندرجات کو بار بار پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ مولوی موصوف نے یا تو یہ کتاب پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہے یا پھر عوام فریبی کے آزمودہ فارمولے کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی دانستہ کوشش کررہا ہے۔ حالانکہ مصنف نے اپنی کتاب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہڑتال کی یہ کال علامہ عارف حسین حسینی نے صرف تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے اندر موجود اپنے حریف علامہ حامد موسوی گروپ کو نیچا دکھانے کی خاطر دی تھی، جنہوں نے جونیجو حکومت سے باقاعدہ مذاکرات کرکے ایک مفاہمتی یادداشت پر اتفاق کرلیا تھا۔ مصنف کے بقول
“25 فروری (1985) کو (غیر جماعتی) انتخابات کے انعقاد اور (10 اپریل) کو محمد خان جونیجو کے زیر قیادت سویلین حکومت کی تشکیل کے بعد مؤخر الذکر نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ساتھ مذاکرات کیے جو ایک معاہدے پر منتج ہوا۔ جس پر راولپنڈی میں احتجاج کو ختم کردیا گیا۔ 21 مئی 1985 کا موسوی – جونیجو کے اس نام نہاد معاہدہ میں عزاداری کے روایتی راستوں کی حفاظت کے لئے اقدامات اور 1980 کے اسلام آباد معاہدہ پرعمل درآمد کے لیے تجاویز دینے کے لیے سولہ رکنی کمیشن کی تشکیل بھی شامل تھی۔ مزید یہ کہ کوئی ایسے نئے اسلامی قوانین نہیں لائے جائیں گے جو فقہ جعفریہ سے متصادم ہوں۔ لیکن علامہ عارف حسینی اور ان کے پیروکار، موسوی (حامد) کو اہل تشیع کی طرف سے کسی مذاکرات میں نمایندہ حیثیت دینے پر راضی نہیں تھے اور اس (معاہدہ) کو مسترد کرنے کے بہانے ڈھونڈھ رہے تھے۔ چنانچہ حسینی نے اسلام آباد معاہدہ کی پانچویں برسی کے موقع پر کراچی کے علاوہ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں زبردست احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی۔ جب پابندی کے باوجود 6 جولائی کوایسا ہی احتجاجی جلوس کوئٹہ میں امام بارگاہ قندھاری سے نکالا گیا تو پولیس نے فائرنگ کردی جس میں سترہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے (صفحہ 225)”۔
یہاں چند باتیں نہایت واضح ہیں:
1- یہ کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی سویلین حکومت اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ حامد موسوی گروپ کے درمیان معاہدہ ہوچکا تھا کہ اعلان اسلام آباد پر عمل درامد کیا جائے گا۔
2- یہ کہ علامہ حسینی نے محض اپنے حریف حامد موسوی گروپ کو نیچا دکھانے کے لئے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہڑتال کی کال ان حالات میں دیدی تھی کہ پورے ملک میں مارشل لاء نافذ تھا اور ڈکٹیٹر جنرل ضیاء پوری قوت سے ایم آرڈی کی تحریک کو بزور طاقت کچلنے میں لگا ہوا تھا اور مزید کسی متشدد تحریک کا سامنا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔
3- یہ کہ انتظامیہ نے ایک دن پہلے جلوس نکالنے پر پابندی لگائی تھی اور اس وقت کے ایس ایس پی کوئٹہ اور ایکٹنگ ڈی آئی جی مرحوم سردار خیرمحمد خان ہزارہ نے اپنے بھانجے پولیس آفیسر سارجنٹ محمد ادریس کے ذریعے شیخ جمعہ اسدی اور شیخ یعقوب توسلی کو کئی بار یہ بات پہنچائی تھی کہ جلوس نکالنے کی صورت میں سخت اقدامات اٹھانے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں کنیڈا میں مقیم جناب سارجنٹ ادریس سے راقم کی کئی بار بالمشافہ گفتگو ہوچکی ہے اور ہر بار اس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ “اس نے 6 جولائی کے دن کئی بار اوپر کے پیغامات براہ راست شیوخ تک پہنچائے تھے اور جلوس نہ نکالنے کے لئے باقاعدہ منتیں کی تھیں، لیکن بقول جناب سارجنٹ کے انہوں نے ان پیغامات کو نظرانداز کرکے امام بارگاہ میں موجود شرکاء کے مذہبی جذبات کو اشتعال دینے کیے لئے “من لبنون میسازم” کی آتشین تقریریں کیں اور جنگی ترانے جیسے اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا گوائے”۔
اپنے ایک انٹرویو میں شیخ جمعہ اسدی خود اس بات کا اققرار کرچکا ہے کہ تمام مطالبات تسلیم ہوچکے تھے، لیکن اس روز ہم جلوس لے کر یکجہتی کونسل والوں سے ملنے جارہے تھے!!!۔ یعنی 30 کے قریب بے گناہ انسانوں کا خون ناحق صرف یکجہتی کونسل سے ملنے کے بہانے بہایا گیا جب کہ درجنوں دیگر زخمی و معلول ہوئے، سینکڑوں لوگوں کوجیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور بہت ساری مصیبتیں اور رسوائیاں ان کے علاوہ۔ بات صاف اور واضح ہے کہ اگر ہم بیرونی عوامل کو رد بھی کریں تو عارف حسین حسینی کی ہٹ دھرمی کی سیاست، حکومت سے براہ راست ٹکراو کی پالیسی اور ان کی حامد موسوی گروپ سے چپقلیش، ساتھ ہی کوئٹہ میں جلوس کو خونین شکل میں تبدیل کرنے کی شیوخ کی ضد، ناعاقبت اندیشی اور کوتاہ نظری کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کے منفی اثرات 40 سال گذرنے کے باوجود اب تک ہمارا پیچھا کررہے ہیں جن کو جھٹلانا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف اور ایک بڑی خیانت ہے۔ یاد رہے کہ دہشتگرد تنظیمیں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کئی سالوں تک 6 جولائی کے دن ایوب اسٹیڈیم سے جلوس نکال کر کوئٹہ شہر کی گلیوں میں کافر کافر کے نفرت بھرے نعرے لگا کر گزرتے رہے۔ یہ وہ دھبہ ہے جس کو اپنے دامن اور چہرے سے صاف کرنا اان مذہبی حلقوں کے لئے کسی طور ممکن نہیں۔ بھلا ہو سابقہ آرمی چیف جنرل محمد موسیٰ خان ہزارہ کا جس نے درمیان میں آکر ہمیں مزید نقصانات سے بچایا۔

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *