وقت کم، مقابلہ سخت ۔۔۔ طلاء چنگیزی

سر ڈیوڈ ایٹنبرا کے نام سے ہم سبھی واقف ہیں۔ اپنی ایک ڈاکومنٹری میں فرما رہے تھے کہ ہم کبھی کبھار چھوٹے چھوٹے حشرات الارض یا جرثوموں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ “ہماری دنیا اور ہماری زمین” پر رہنے والے ایک غیر ضروری بوجھ کی مانند ہیں۔ لیکن درحقیقت دیکھا جائے تو وہ ہماری دنیا میں نہیں بلکہ ہم اُن کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں تو ہم ابھی نووارد ہیں۔ ماحولیات پر بوجھ وہ نہیں بلکہ ہم انسان ہیں جن کہ وجہ سے پوری دنیا کا ماحول آلودہ ہوچکا ہے۔ جنگلی و آبی حیات کو خطرہ ان سے نہیں بلکہ ہماری طرز زندگی سے ہے۔ اور اگر ہم انسانوں نے اس دنیا میں زندہ رہنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں اپنی طرز زندگی اور سوچ میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی وگرنہ بقول شاعر:
ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

اس تمہید کا مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ کرونا پینڈیمک کے ابتدائی دنوں میں ٹی وی پر اِسی حوالے سے دو ماہرین آپس میں گفتگو کررہےتھے۔ مباحثے کے دونوں شرکاء کا تعلق غالبا یوکے اور امریکہ کے وائرولوجی اور ایپیڈیمیالوجی کے علوم سے تھا۔ ان کے مطابق وائرسز اور بیکٹیریاز زندگی کی ابتدائی اشکال ہیں جو اربوں سالوں کے ارتقائی عمل سے گزر کر بھی کم و بیش اپنی پرانی ہیت میں موجود ہیں جبکہ انسان یا انسان نما مخلوق کو اس سیارے جسے ہم زمین کہتے ہیں پر صرف چند ملین سال ہی ہوئے ہوں گے۔ اگر ہمیں اس پینڈیمک کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں ان جرثوموں کے وبائ انداز میں پھیلنے کے انداز اور طریقوں کو سمجھنا ہوگا اور انہی کے مطابق قوانیں وضع کرنے اور اپنے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ان کے مطابق ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں یہ وباء جنگلی جانورں سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہو لیکن اب یہ صرف ایک متاثرہ انسان سے دوسرے انسانوں میں پھیل رہی ہے۔ اس سلسلے میں جو مختلف عملی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں پہلے اس پھیلاو کے چین کو کسی طرح سے روکنا یا توڑنا ہوگا۔ فی الحال جو قلیل مدتی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اگر ہم نے اس وباء کو روکنا ہے تو ہمیں چائنا کی طرز پر ڈراکونین ( سفاکانہ اور ظالمانہ ) قوانیں اپنانے ہوں گے۔ جیسے مکمل لاک ڈاون، ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ اور دوسری ضروری احتیاطی تدابیر۔ یہ قوانین بلاشبہ ہمارے مروجہ بنیادی انسانی حقوق اور ضابطہ اخلاق سے متصادم ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ ظالمانہ قوانیں نہ صرف عملی ہیں بلکہ اس وباء کو روکنے میں بڑی حد تک روکنے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ کیونکہ یہ اس وبائی مرض کے جرثوموں کے پھیلاؤ کی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیے گئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے فی الحال ہمارا اجتماعی ردعمل اور رویہ زیادہ تر تردید، جزباتیت، تعصب اور الزام تراشی کے ہی گرد گھوم رہا ہے۔ یہ وقت ان غیر ضروری باتوں میں ضائع کرنے کی بجائے ہمیں عقلیت پسندی سے کام لیتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر ایک واضع حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔

جیسے

1۔ بنیادی احتیاطی تدابیر یا بیسک ہایئجین پر عمل کرنا۔

2۔ سوشل ڈسٹینسنگ یا سماجی فاصلہ برقرار رکھنا۔ ہر قسم کےسماجی اجتماعات سے دوری اختیار کرنا۔

3۔ ممکنہ مختصر مدتی یا جب تک ضروری ہو مکمل لاک ڈاؤن پر عمل کرنا۔

اُمید ہے کہ سائنس کی رو سے مندرجہ بالا اقدامات پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم اس وباء کا مقابلہ اور اسے مزید پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام ہم میں سے کوئی بھی انفرادی طور پر انجام نہیں دے سکتا بلکہ یہ اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہے کیونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور ہم مزید اس کے ضیاع کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *