محمد عالم مصباح۔ دوسری قسط ۔۔۔ یونس خان

دوسری قسط

مصباح اپنے زمان و مکان سے آگے کی سوچ رکھنے والا شخص تھا۔

مصباح کی شخصیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اُس زمانے کے کوئٹہ کے تاریخی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کا ایک اجمالی تعارف ضروری ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل، انگریز سرکار کی خصوصی دلچسپی کے باعث کوئٹہ، جو اس وقت ایک پرفضا گاؤں تھا، برطانوی توسیع پسندی کا مرکز بن گیا۔ انگریز کمشنر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں آ کر تقریباً 4500 ایکڑ اراضی مختلف مقامی باشندوں سے خریدی اور شمال مغربی سرحدوں کی نگرانی کے لیے ایک اہم فوجی چھاؤنی قائم کی۔ یوں 1845ء کے بعد کوئٹہ بتدریج ایک خوبصورت شہر میں تبدیل ہونے لگا۔

ابتدائی آبادی میں برطانوی دفاعی ماہرین اور فوجی اہلکار غالب تھے، جبکہ مقامی باشندوں کی تعداد نہایت کم تھی۔ پشتون قبیلہ “کاسی” اور بلوچ قبیلہ “شاہوانی” کے چند خاندان سریاب کے علاقے میں پہلے سے آباد تھے۔ اس کے علاوہ، مغلیہ سلطنت کے دور سے ہزارہ قبیلے کے چند افراد بھی یہاں موجود تھے، جو سرحدی محافظوں اور تجارتی قافلوں کی نگرانی کی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق، ہزارہ قبیلہ کوئٹہ کے علاوہ لورالائی، ژوب، مستونگ اور خضدار میں بھی سکونت پذیر تھا۔

1893ء میں، ڈیورنڈ معاہدے اور کابل کے نئے حکمران عبدالرحمن کی حمایت یافتہ جنگی مہمات کے نتیجے میں ہزارہ ریاستوں کو شکست ہوئی، جس کے بعد کئی سو ہزارہ خاندانوں نے کوئٹہ کی طرف ہجرت کی۔ اٹھارویں صدی میں جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا، تو قلات کی ابھرتی ہوئی بلوچ ریاست کی عسکری قوت میں ہزارہ قبیلہ کا کردار نمایاں رہا۔ پانی پت کی جنگ میں وسطی افغانستان کے ہزارہ سردار میر نصیر خان نوری کے لشکر میں شامل تھے، نہ کہ احمد شاہ ابدالی کے۔

قلات کی براہوی ریاست نے وسطی افغانستان کے خودمختار ہزارہ سرداروں، بالخصوص ارغون خاندان سے اسٹرٹیجک تعلقات قائم رکھے۔ ارغون خاندان نے ملتان، سندھ اور ٹھٹھہ کے علاقوں پر دو سو سالہ حکمرانی کے دوران بلوچ قبائل کو بطور حلیف اہم کردار دیا، جس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔

انیسویں صدی کے آخری عشرے میں، وسطی افغانستان کے ایک سنی ہزارہ سردار قاضی جلال الدین، جو ایک بلند پایہ عالم دین تھے، کو کابل کے حکمران عبدالرحمن نے غوربند سے قندھار جلاوطن کیا۔ بعد ازاں وہ پشین منتقل ہوئے، جہاں ریاست قلات کے حکمرانوں سے ان کے تعلقات پہلے سے خوشگوار تھے۔ قلات کے حکمران نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا، جس پر وہ بارہ سال تک فائز رہے۔

یہ تاریخی پس منظر بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ موجودہ بلوچستان میں آباد بلوچ، پشتون اور ہزارہ اقوام کی جڑیں کس قدر گہری اور باہم مربوط ہیں۔ مرحوم عالم مصباح نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم کی اسی تاریخی بنیاد پر غیرمعمولی توجہ مرکوز کی، مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔

غالباً 1985ء سے وہ ریڈیو پاکستان کے ہزارگی پروگرام سے مستقل وابستہ ہوئے۔ اس پروگرام سے مرحوم محمد علی اختیار، پروفیسر ناظر حسین، شہید حسین علی یوسفی، داؤد سرخوش، حسن رضا چنگیزی، اسحاق محمدی، رضا واثق، ظاہر ظہیر اور دیگر شخصیات بھی منسلک تھیں، جن میں زمان دہقانزادہ اور راقم بھی شامل تھے۔ ہم اکثر پیدل ریڈیو پروگرام کے لیے جاتے اور واپسی پر میرقلم ہوٹل (واقع چھاؤنی) تک واک کرتے، جہاں پکوڑوں اور چائے کے ساتھ علمی و قومی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔

ایک دن، ریڈیو پروگرام کے بعد ہم (شہید یوسفی، داؤد سرخوش، ظاہر ظہیر، عالم مصباح اور میں) شہید یوسفی کی گاڑی میں ہزارہ قبرستان کی طرف سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں ہزارہ قوم کے مسائل اور قومی ترقی پر گفتگو ہوئی۔ مصباح نے کہا:

“ہزارہ قوم کو دنیا کی صفِ اوّل کی اقوام میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے عظیم دادا چنگیز خان، اخلاق و فراست کے پیغمبر کنفیوشس، چیئرمین ماؤ زے تنگ، ڈاکٹر چی گویرا، سپہ سالار ہنی بال، جنرل رومل، ماکیاولی اور حکیم فردوسی کی ارواح ہماری نئی نسل میں سرایت کر جائیں۔ تب ہی ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ممبر بننے کی اہلیت حاصل کر سکتے ہیں۔”

یہ بات سن کر شہید یوسفی، جو شوخ طبیعت کے مالک تھے، ہنس کر بولے:

“آپ تو عجیب مغز متفکر ہیں! قوم کے نوجوانوں میں تاریخی شخصیات کی ارواح حلول کروانا چاہتے ہیں، جبکہ ہماری قوم صدیوں سے ایک نجات دہندہ کے انتظار میں ہے، جو بہشت اور شیر و شہد کی نہریں لے کر آئے گا۔”

مصباح نے مسکرا کر جواب دیا:

“میں اپنی قوم کو انتظار کے بجائے حرکت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ جس طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی قوم کو پستی سے نکالنے کے لیے حرکت کی، انتظار نہیں۔ امام حسینؑ نے بھی انتظار کے بجائے اقدام کو ترجیح دی۔ جنہوں نے دنیا کو بدلا، وہ کسی کے انتظار میں نہیں بیٹھے بلکہ خود حرکت میں آئے۔ جس نے پچیس سال انتظار کیا، اس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔”

اگرچہ یہ باتیں مصباح نے تین دہائیاں قبل مزاحیہ انداز میں کی تھیں، مگر ان میں فکری گہرائی تھی۔ اگر “انتظار” اور “حرکت” کے ان دو نسخوں کی درست تفسیر کی جائے، تو یہ ایک ضخیم کتاب کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ مصباح اپنے زمان و مکان سے آگے کی سوچ رکھنے والا شخص تھا۔

ایسے ہی لمحات، خیالات اور باتیں—جو آج بھی یادداشت کے خزانے کا حصہ ہیں—مرحوم مصباح اور دیگر دوستوں کی صدابہار یادوں میں محفوظ ہیں۔

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور، مگر کھل کر مسکرا نہ سکا

یونس خان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *