محمد عالم مصباح، ایک سحر انگیز شخصیت ۔۔۔ یونس خان

پہلی قسط

یہ غالباً جنوری 1981ء کی بات ہے۔ علمدار روڈ پر واقع یزدان خان ہائی اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور یہ میرا وہاں آخری تعلیمی سال تھا۔ سالانہ امتحان پاس کرنے کے بعد، سردیوں کی چھٹیوں کے دوران میرے مرحوم چچا نے مجھے ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعہ امام صادق میں داخل کرایا۔ یہ دینی ادارہ حال ہی میں علمدار روڈ پر قائم ہوا تھا، جس کی سرپرستی علامہ محمد جمعہ اسدی (بہ قید حیات) فرما رہے تھے، اور وہ مہتمم کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔

علامہ اسدی ایران کے مذہبی شہر قم سے دینی علوم کی تکمیل کے بعد تازہ تازہ کوئٹہ آئے تھے تاکہ اس مدرسے کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔ وہ میرے مرحوم چچا نوروز علی محقق کے قریبی دوست تھے، جو ایک طویل عرصے بعد فیملی وزٹ پر ایران سے کوئٹہ تشریف لائے تھے۔ اپنے مختصر قیام کے دوران وہ تقریباً روزانہ جامعہ امام صادق جاتے اور علامہ جمعہ اسدی، علامہ اخلاقی شارزیدہ اور مدرسے کے چند نوجوان طلبہ سے ملاقات کرتے، جن میں اسحاق محمدی، عالم مصباح، محمد اکرم، لیاقت شریفی، سید مہدی، زمان جعفری، برات ریش، حاجی سردار علی، اکرم عارفی، عبداللہ محمدی، رضا واثق وغیرہ شامل تھے۔

افغانستان اور کوئٹہ کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے حصول کے لیے اس مدرسے سے وابستہ ہو چکی تھی، جسے میرے مرحوم چچا ایک خوش آئند امر سمجھتے تھے۔ بالخصوص عالم مصباح کی شخصیت اور ذہنی استعداد نے انہیں بہت متاثر کیا۔ ایک بار انہوں نے مصباح کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ایرانی کیلنڈر ڈائری، ایک قیمتی قلم اور چند فارسی کتابیں تحفے میں دی تھیں۔ انہی تحائف کی بدولت میری اور مصباح کی دوستی مزید گہری ہو گئی، جو زندگی بھر قائم رہی۔

میں، مصباح اور کوئٹہ کے کئی دیگر لڑکے تقریباً اڑھائی سے تین سال تک جامعہ امام صادق کے باقاعدہ طالب علم رہے۔ اس عرصے نے ہمارے اذہان پر گہرے اثرات چھوڑے، جن میں سب سے نمایاں اثر مطالعے کا شوق تھا، جو بعد میں ہمارے فکری ارتقاء کا سنگِ میل ثابت ہوا۔

مصباح کی کتب بینی کا شوق بعد میں آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ کوئٹہ کے غیرمطالعاتی ماحول میں رہتے ہوئے، اس کی تشنہ نگاہوں سے دنیا کی کوئی بھی حوالہ جاتی کتاب محفوظ نہ رہ سکی۔ خاص طور پر جامعہ کے ابتدائی دور میں، ہم دونوں ہفتے میں کئی بار بلوچستان پبلک لائبریری (جناح روڈ) میری سائیکل پر ڈبل سواری کرکے جاتے۔ لائبریرین، مصباح کی شخصیت اور ذوقِ مطالعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہیں ریفرنس ہال کی کتابیں بلا تردد دے دیتے۔

ان دنوں کتابوں کی واپسی پندرہ دن میں لازم تھی، مگر مصباح ہفتہ بھر میں کئی کتابیں پڑھ کر واپس کر دیتا۔ بعد میں ہم کبھی کبھار کوئٹہ کنٹونمنٹ لائبریری بھی جاتے۔ تین سال بعد جناح روڈ کی لائبریری میں ہمارا جانا صرف اردو و انگریزی میگزین اور اخبارات تک محدود ہو گیا۔

جامعہ کی اپنی ایک چھوٹی مگر ترقی پذیر لائبریری بھی تھی، جس میں دینی علوم، فلسفہ، تاریخ، سیاست، فارسی و اردو ادب، امیر خسرو، حافظ شیرازی، سعدی، خیام، بیدل، غالب، اقبال اور دیگر موضوعات پر عمدہ کتابیں موجود تھیں۔

جامعہ امام صادق اور تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی دو چھوٹی مگر پرمغز لائبریریوں نے مصباح کی علمی پیاس کو برسوں سیراب کیا۔ انہی مطالعوں کے ذریعے علامہ مرتضی مطہری، ڈاکٹر عبد الکریم سروش، جلال آل احمد اور ڈاکٹر علی شریعتی کی تحریروں نے مصباح کے دینی و فکری رجحانات کو ایک واضح سمت دی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ روایتی مذہبی عقائد سے فاصلہ رکھتے تھے اور شیعیت میں غلو و مبالغہ کے سخت ناقد تھے۔

اگرچہ زندگی کے آخری دور میں مصباح فلسفے کی دنیا میں غوطہ زن تھے، مگر وہ قوم کی ڈیڑھ سو سالہ زبوں حالی، انحطاط اور عدمِ تشخص پر گہری تشویش رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ ہزارہ قوم کا المیہ تھا کہ دنیا کی آزاد و سربلند اقوام میں ہزارستان کا نام شامل نہ ہو سکا۔

وہ سمجھتے تھے کہ ہزارہ قوم کی موجودہ شناخت اس کے شایانِ شان نہیں، حالانکہ اس کے پاس اپنی سرزمین، جغرافیہ، تاریخی و ثقافتی ورثہ اور معاشرتی خصوصیات موجود ہیں۔ اسی تناظر میں وہ افغانستان، ایران اور پاکستان میں آباد ہزارہ قبائل کے خوانین، مذہبی و سیاسی اکابرین پر سخت تنقید کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم (مرحوم قادر شریف، ظاہر ظہیر، استاد قسیم اخگر، انجینئر علی، عالم مصباح اور میں) نے کئی بار فکری نشستوں کا اہتمام کیا، جن میں ہزارہ قوم کے مخصوص سیاسی و فکری امور پر تبادلہ خیال ہوتا۔ یہ نشستیں مہینوں جاری رہیں اور بعض اوقات رات گئے تک چلتی تھیں۔

بعد میں ان نشستوں کو وسعت دینے کے لیے ہم نے مزید کوششیں کیں، جن میں آقای مرزا حسین اور امت گروپ کے دیگر ارکان (جن میں راقم بھی شامل تھا) فعال رہے۔ ہم نے کئی اہم دستاویزات پر کام کیا، جن میں سے ایک دو کو بعد میں عوامی سطح پر بھی پیش کیا گیا۔

یونس خان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *