
قسط اول
جیسا کہ میں نے اپنے ایک جداگانہ مضمون میں لکھا ہے، برصغیر اور بطور خاص سندھ و بلوچستان میں ہزارہ قوم کی موجودگی چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے، جن کی باقیات اب خاران (بلوچستان) میں نیکودری ہزارہ اور ٹھٹھہ (سندھ) میں ارغون ہزارہ کے مقبروں کی صورت میں ملتی ہیں۔ تاہم جدید تاریخ میں ان کی بڑی تعداد کی کوئٹہ آمد کا سلسلہ 1893ء میں امیر عبدالرحمان کی ہزارہ نسل کشی اور ان کی زرخیز زمینوں پر افغان قبائل کو آباد کرنے کی پالیسی سے شروع ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ابتدائی دور میں ان کی اجتماعی بود و باش سے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں، تاہم 1904ء میں ہزارہ پائینر کی تشکیل اور کوئٹہ کینٹ (موجودہ ہزارہ لین) میں اس کا ہیڈکوارٹر بننے کے بعد ان کی اجتماعی سیٹ اپ کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب ہیں۔ ان معلومات کے مطابق کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم کی اجتماعی تنظیم زیادہ تر ہزارہ پائینر کے زیرِ اثر رہی، یعنی جو بھی ہزارہ پائینر کا سربراہ (صوبیدار میجر) بنتا، وہی ہزارہ قوم کا سربراہ (کلانِ قوم) بھی ہوتا۔
حاجی سلیمان خان کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ 1904ء سے لے کر 1933ء (یعنی پائینر کے منحل ہونے تک) یہ صوبیدار میجر صاحبان ہزارہ قوم کے سربراہ رہے:
- صوبیدار میجر دوست محمد خان
- صوبیدار میجر علی دوست خان
- صوبیدار میجر خداداد خان
- صوبیدار میجر رحمت اللہ خان (حاجی سلیمان خان، صفحات 6، 7)
آگے کے ادوار میں بعض نئے چہرے سامنے آئے، جیسے حاجی ناصر علی المعروف بہ شیر کشمیر، اور سردار یزدان بخش خان المعروف بہ یزدان خان۔ یہ دونوں بھی ہزارہ پائینر سے وابستہ رہے تھے۔ سردار یزدان خان کی وفات کے بعد ان کا بیٹا سردار محمد عیسیٰ خان پہلے ایسے سردار بنے جن کا تعلق ہزارہ پائینر سے براہِ راست نہیں تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ روایتی مقتدر سرداروں کی طرح دربار لگاتے اور فیصلے کرتے تھے۔ اس لحاظ سے وہ پاکستانی ہزارہ قوم کے آخری مقتدر سردار تھے۔
اس ضمن میں جنرل محمد موسیٰ خان ہزارہ لکھتے ہیں:
“عیسیٰ (سردار) شایستہ اقدار کے مالک تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ (ہزارہ) قبیلہ کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا” (جنرل محمد موسیٰ خان، صفحہ 5)۔
سردار محمد عیسیٰ خان، شیر کشمیر حاجی ناصر علی، اور حاجی رحمت اللہ خان کی قوم دوستی اور خدمات کے معترف کئی نسلیں رہی ہیں، اور یہ روایات سینہ بہ سینہ آج تک چلی آ رہی ہیں۔
ستمبر 1963ء میں سردار محمد عیسیٰ خان کی وفات کے بعد ان کے بھائی سردار محمد اسحاق خان سردار بنے، اور 1974ء میں ان کی وفات کے بعد یہ منصب کافی عرصہ خالی رہا۔ تاآنکہ مرحوم سردار عیسیٰ خان کے چھوٹے بیٹے سعادت علی خان نے ہزارہ قبائلی عمائدین کی حمایت سے اپنی سرداری کا اعلان کر دیا۔ ان کی سرداری جولائی 2019ء میں ان کی وفات تک رہی، جبکہ اس کے بعد سے کسی نے بھی سرداری کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس طرح سردار سعادت علی خان ہزارہ، پاکستانی ہزارہ قوم کے آخری سردار تھے۔
اگرچہ قبائلی لحاظ سے وہ کافی متحرک تھے، لیکن سیاسی اعتبار سے زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ ان کے برعکس ان کے بڑے بھائی سردار نثار علی خان ہزارہ، سرداری کا دعویدار نہ ہونے کے باوجود، سیاسی لحاظ سے ہمیشہ مقبول شخصیت رہے ہیں اور دو مرتبہ الیکشن بھی جیت چکے ہیں۔
یہاں یہ تذکرہ کرنا بیجا نہ ہوگا کہ مرحوم سردار محمد عیسیٰ خان کے بعد ہزارہ قوم کے اندر سرداری نظام بتدریج کمزور ہوتا گیا، جس کی ایک اہم وجہ ملک میں سیاسی جمہوری اقدار کا فروغ بھی تھا۔ اب عام لوگ اپنے روزمرہ مسائل کے حل کے لیے سردار کے بجائے منتخب نمائندوں کی طرف رجوع کرنے لگے تھے۔
1970ء میں عام انتخابات ہوئے۔ کوئٹہ کی روایتی ہزارہ نشست پی بی 2 پر آزاد امیدوار سردار محمد اسحاق خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار کیپٹن سلطان علی ہزارہ کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ہزارہ ووٹ تقسیم ہونے کے نتیجے میں دونوں ہار گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سیف اللہ پراچہ جیت گئے۔ چونکہ یہ آئین ساز اسمبلی سات سال تک قائم رہی اور اس دوران کوئٹہ کی ہزارہ آبادی سیاسی نمائندگی سے محروم رہی، تو اس خلا نے ہزارہ قوم پر سیاسی و اجتماعی سطح پر دور رس اثرات مرتب کیے۔
1977ء کے عام انتخابات کے بعد درج ذیل ہزارہ امیدواران، ہزارہ اکثریتی ووٹوں سے جیت کر صوبائی اسمبلی کے ممبر اور وزیر بنے:
- حاجی طالب حسین ہزارہ (1977ء) — جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی وجہ سے اسمبلی تحلیل ہوئی
- سردار نثار علی خان ہزارہ (1985ء)
- حاجی نور محمد صراف (1988ء اور 1990ء) — صوبائی وزیر واسا
- سردار نثار علی خان ہزارہ (1997ء) — صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن
- کرنل محمد یونس چنگیزی (2002ء) — صوبائی وزیر کھیل و جنگلات
- جان علی چنگیزی (2008ء)
- عبدالخالق ہزارہ (2018ء) — صوبائی وزیر کھیل و ثقافت
(اصغری ہزارہ، صفحات 232 تا 235)
یاد رہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران ہزارہ ٹاؤن کی نشست بھی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار قادر علی نائل نے پہلی بار جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ نیز 2013ء کے انتخابات کے دوران کوئٹہ کی ایک نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید ناصر علی شاہ نے جیت کر پاکستانی ہزارہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔
یہاں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ مرحوم سردار محمد اسحاق خان 1965ء میں کوئٹہ-چاغی کی قومی اسمبلی کی نشست جیت کر اور وفاقی وزیر ریلوے بن کر پہلے ہی تاریخ رقم کر چکے تھے۔
ہزارہ سینیٹرز کی بات کی جائے تو اس ضمن میں پہلا نام مرحوم حاجی سید حسین ہزارہ کا آتا ہے، جو نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر 1973ء تا 1975ء سینیٹر رہے۔ دوسرا نام کیپٹن گل محمد ہزارہ کا ہے، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 1975ء تا 1977ء سینیٹر منتخب ہوئے (علی زادہ و میثم، صفحہ 35)۔
اسی طرح 2002ء کے انتخابات میں ڈاکٹر رقیہ ہاشمی بھی مخصوص نشست پر منتخب ہو کر پہلی خاتون ہزارہ پارلیمنٹیرین بنیں (کوثر علی کوثر، صفحہ 235)۔
منابع:
https://izhaar.net/archives/22331-
جوان ٹو جنرل، جنرل محمد موسی خان، کراچی پاکستان اشاعت دوئم 1987ء
تاریخچہ قوم ہزارہ در پاکستان، حاجی سلیمان علی خان کوئٹہ پاکستان 1975ء
ہزارہ، سیاست اور بلوچستان، عبدالعلی اصغری ہزارہ، کوئٹہ پاکستان 2018ء
https://www.researchgate.net/publication/370848848_We_Will_Make_Pakistan_Their_Graveyard_Systematic_Attacks_against_Shia_Hazaras_of_Quetta_Pakistan_1999-2022
تاریخ و ثقافت ہزارہ، کوثرعلی کوثر، کوئٹہ پاکستان 2003ء