لبرلائزیشن، پرائیوٹائزیشن اور گلوبلائزیشن سرمایہ داری کے فطری ارتقاء کا نتیجہ اور اظہار ہے ۔۔۔ علی رضا منگول

سرمایہ داری کے آغاز میں تقریباً 1500ء سے 1800ء تک دنیا کے کچھ ممالک عمومی طور پر یورپ اور خصوصاً مغربی یورپ اٹلی، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور آسٹریا میں ایک معاشی نظریہ اپنایا گیا جسے Mercantilism کہا جاتا ہے۔ یہ معاشی نظریہ ان ممالک میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور باہمی تعلقداری کے بغیر کم و بیش ایک ہی مکتب فکر کی حیثیت میں مگر مختلف ناموں سے یاد کیے جاتے تھے۔ مثلاً برطانیہ میں اسے مرکنٹلزم، فرانس میں Colbertism یعنی(Jean-Baptiste Colbert) جو 17th سترہویں صدی عیسوی میں فرانس کے مطلق العنان بادشاہ لوئس چاردہم کے معاشی منتظم تھے، کے نام سے موسوم ہے اور جرمنی میں (Cameralism) کیمرلزم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے یاد کیے جانے کے باوجود درپردہ ان تمام معاشی مفکرین کا ایک ہی خیال ”مضبوط قومی ریاست“ کی تعمیر تھا۔ ان ممالک میں اس طرز معیشت کو اپنانے کے باوجود ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا بلکہ یہ جدا جدا اس نظریے کو آگے بڑھا رہے تھے البتہ اس کے لئے بعد میں آدم سمتھ نے باقاعدہ مرکنٹل ازم کی اصطلاح کا انتخاب کیا۔
مرکنٹل ازم ایک ایسی طرز معیشت تھی جس کے تحت درآمدات کی حوصلہ شکنی اور برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی تاکہ ملک کو معاشی لحاظ سے مضبوط کیا جاسکے۔ مضبوط قومی ریاست کے تصور کے پیش نظر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ بیرونی تجارت کو حکومتوں کے زیرتسلط یا زیرانتظام فروغ دے کر ملکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے۔ سونا اور چاندی کو تجارت اور لین دین کی بنیاد بنا دیا گیا تھا اور جس ملک کے پاس  سونے اور چاندی کی زیاد مقدار ہوتی وہ اتنی ہی مضبوط قومی ریاست کہلاتی تھی۔ یوں ہر ملک نفسیاتی طور پر کم سے کم درآمد کو شعار بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا جس کے نتیجے میں تجارت، پابندیوں کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئی جو اس کے فطری ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ بننے لگی۔ اس سے تجارت کو بہت نقصان پہنچا، خصوصاً بڑے پیمانے پر اضافی تجارتی اجناس کی تیاری کے دور میں کنٹرول اور پابند تجارتی پالیسیاں تجارت اور معاشی نقصان کی صورت میں سامنے آنے لگیں۔
سرمایہ داری کے ارتقاء کی بدولت صنعتی پیداواری صلاحیت نے تجارت کو مختلف ملکوں اور قوموں تک رسائی کے لیے نئے حالت پیدا کیے۔ سائنسی ترقی نے سمندری راستوں کے تعین کے لئے سورج اور ستاروں کی مدد کی بجائے Compass یا قطب نما کی دریافت انقلابی تبدیلیوں کا مؤجب بنی جس کی وجہ سے تجارت کی بین الاقوامیت کی سوچ نے جنم لیا۔ یوں سمندر کے راستے دور دراز کے ملکوں تک اضافی صنعتی پیداوار کو پہنچانے میں آسانی پیدا ہوئی۔ منڈی کی اس نفسیات نے تقریباً 1750ء سے 1780ء کے درمیان ایک اور معاشی نظریے Physiocracy کو جنم دیا جس کے تحت تجارت پر ریاستی کنٹرول کے حق کو چیلنج اور اس کی مخالفت کی گئی۔ اس نظریے کا سرخیل Quesnay تھا جس نے لوئس پانزدہم کے دور میں فرانس میں اس مکتب فکر کو ترقی دی۔ مگر 1776ء میں جب آدم سمتھ کی کتاب Wealth of Nations شائع ہوئی تو اس میں انہوں نے تجارت میں ریاستی سرپرستی اور مداخلت کو بے جا قرار دیا اور اسکی مخالفت کی۔ آدم سمتھ کے مطابق معیشت کے قدرتی ارتقاء کے لئے تجارت کو حکومتی بندشوں اور رکاوٹوں سے آزاد ہونا چاہئے جس سے تمام ملکوں کو فائدہ حاصل کرنے کے مواقع دستیاب ہوں گے۔ اس طرح اس نظریے کا جنم اور پذیرائی Mercantilism اور ریاستی تحفظاتی پالیسی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ البتہ 1929-30 کے عالمی معاشی زوال کے وقت John Maynard Keynes نے دوبارہ Keynesian Economics کے تحت اس مکتبہ فکر یعنی حکومتی مداخلت کے ذریعے معیشت کو دوبارہ استحکام بخشا۔
اس وقت دنیا میں عالمی معاشی صورتحال، لبرلائزیشن، پرائیوٹائزیشن اور گلوبلائزیشن کے تسلط اور غلبے کا باعث بن گئی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کا محنت کش طبقہ اپنی روایتی قیادت کی تنگ و محدود سوچ کی بدولت اب بھی ان تبدیلیوں کو گہرائی میں سمجھنے سے قاصر ہے اور قیادت کی پچھڑی ہوئی نفسیاتی کیفیت میں محنت کش تذبذب اور پریشانی کا شکار ہے۔ دنیا میں اس وقت Economic liberalism کے ذریعے آزاد منڈی اور نجی ملکیت پر زور دیا جارہا جس کے نتیجے میں آنے والے حالات میں صحت اور تعلیم سمیت تمام ایسی معاشی اکائیاں جو حکومتی سرپرستی میں کام کررہی ہیں کو نجی شعبوں کے حوالے کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ اس سے ایک طرح کے سماجی زلزلے کے آثار نمایاں ہورہے ہیں جو عوامی غصے اور بغاوتوں کا موجب بنیں گے جس کے باعث سماج میں خانہ جنگی اور انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
پاکستان میں مختلف و متعدد تنظیموں کے تحت ملازمین کے اتحادوں کا جنم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ملازمین اور حکومت میں تناؤ بڑھ  رہا ہے اور جلد یا بدیر ان کے مابین تصادم کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ عوام کی معاشی بدحالی میں تیزی کے سبب عمومی بے چینی اور پریشانی عوام کو ملازمین کے ساتھ جوڑ سکتی ہے جو مشترکہ جدوجہد اور ایک بڑے پیمانے پر تحریک کو بھی وجود میں لاسکتی ہے۔ اس وقت ملازمین کو چاہیے کہ وہ عوام اور خصوصاً طلباء، کسانوں اور پورے محنت کش طبقے کے شعوری اکٹھ پر توجہ مرکوز کرکے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں تاکہ عین وقت پر پچھتاوے سے بچا جاسکے۔
علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *