ہزارستان کی زرعی زمینوں پر کوچیوں کے قبضے کی روایت ۔۔۔ اکبر علی

٭

افغانستان کے مرکز میں موجودہ ہزارستان کے تمام علاقے پہاڑی اور بے آب و گیاہ خشک پتھریلی زمینوں پر مشتمل ہیں۔ قابل زراعت میدانی زمینیں، نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے باوجود ان پہاڑی علاقوں کے رہنے والے جہاں کہیں چھوٹا سا ہموار ٹکڑا پائیں، اس پر گندم وغیرہ کاشت کرتے ہیں جو برآمد وغیرہ تو درکنار، خود ایک خاندان کی کفالت کیلئے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ آبپاشی کا تمام تر دارومدار بارشوں اور برفباریوں پر منحصر ہے۔ لوگ غربت کی لکیر سے کہیں نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔

ایسے میں کوچی قبائل کا اپنے اونٹوں اور مال مویشیوں سمیت سالانہ ان علاقوں پر حملہ ور ہونا اور مقامی افراد کی مزاحمت کے جواب میں ان کے گھروں کو مسمار کرنا اور جملہ مال و متاع کی لوٹ مار کے بعد قتل و غارت گری سے بچ جانے والی اشیاء اور انسانوں کو آگ لگانا ان وحشی کوچی قبائل کی روایات میں سے ایک ہے۔

کوچیوں کی یہ روایت افغانستان کے وطن فروش اور انگریزوں کے ایجنٹ امیر، عبدالرحمن کے وقت سے چلی آرہی ہے۔

اٹھارہ سو بانوے ترانوے میں سقوط ہزارستان کے بعد تمام بہترین زرعی میدانی علاقے کوچی قبائل میں تقسیم کئے گئے۔ یہ قبضے اور غصب کی تاریخ اتنی نئی ہے کہ اب بھی بہت سے ایسے معمر افراد حیات ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے باپ دادا کی زمینیں طاقت کے زور پر غصب کی گئیں۔ ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے باپ دادا کی زبانی اپنی زمینوں کے ایک ایک انچ سے واقفیت رکھتے ہیں جو اب کوچی قبائل کے قبضے میں ہیں۔

ان زمینوں کی واپسی پر کوئی بات نہیں کرتا، نہ ہی ان قابضین کو معمولی سا بھی خدشہ ہے کہ یہ زمینیں واپس بھی لی جا سکتی ہیں۔

ان غصب شدہ زمینوں کا ان کے اصلی مالکوں کو واپسی کی بجائے سالانہ کوچی قبائل کا باقی ماندہ خشک پتھریلی علاقوں پر حملہ اسی قبضہ اور قتل کی روایت کا تسلسل ہے جس کی بنیاد افغانستان کے جابر امیر عبدالرحمن نے ڈالی تھی اور اس روایت کے تسلسل میں افغانستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں ہمیشہ شریک رہی ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی مقامی افراد نے اپنے گھروں کے دفاع کے لئے کوچی قبائل کے سامنے مزاحمت کی تحریک شروع کی تو جہاں بہت سارے قومی فاشسٹوں نے واویلا شروع کیا، وہیں پر ایک سزایافتہ جنگی مجرم، گلبدین حکمتیار کے کمانڈر، زرداد فریادی نے ایک دھمکی آمیز ویڈیو پیغام جاری کیا جو کہ پی ٹی ایم کے مقتول رہنما عارف وزیر کی افغانستان کی غیر پشتون اقوام کو دھمکی دینے والی تقریر سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال جرمنی میں رہائش پذیر ڈاکٹر حلیم تنویر نے بھی کچھ اسی قسم کی دھمکی آمیز گفتگو کی تھی۔

زرداد فریادی اس گلبدین حکمتیار کا کمانڈر ہے جس نے کابل پر اتنے راکٹ برسائے جن  کی زد سے ایک بھی عمارت نہ بچ سکی، اس نسبت سے اہالیان کابل گلبدین حکمتیار کو گلبدین راکٹیار کے نام سے جانتے ہیں۔

راکٹیار کے سزایافتہ جنگی مجرم کمانڈر زرداد فریادی نے اپنے ویڈیو میں ہزارہ قوم کا نام لے کر دھمکی دی کہ اگر کوچیوں کی ہزارستان میں آزادانہ نقل و حرکت کے خلاف کوئی مزاحمت کی گئی تو بامیان اور دیگر باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ کر لیں گے۔

فریادی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوچی قبائل کے پاس دستاویزات اور تاریخی اسناد موجود ہیں جن  کی رو سے وہ پورے ہزارستان میں جہاں ان کا جی چاہے، بغیر روک ٹوک لوگوں کی چراگاہوں اور فصلوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اب بھلا اگر پوچھا جائے کہ یہ اسناد اور دستاویزات آپ کو کس نے عطا کئے ہیں تو جواب میں کہیں گے کہ عبدالرحمن نے خود ان دستاویزات پر دستخط کئے ہیں۔

افغانستان کے معروف مزاح نگار سخی داد ہاتف کے بقول یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ڈاکو آپ کے گھر گھس آئے اور اگر آپ مزاحمت کریں تو جواب میں وہ ڈاکو کہے کہ ہمارے پاس دستاویزات ہیں جن پر ہم سے پہلے والے ڈاکو کے دستخط موجود ہیں جن کی رو سے آپ کے باقی ماندہ سامان پر ہمارا قانونی حق ہے۔

اب جب کہ عبدالرحمن کو مرے عرصہ گزر چکا ہے، اب وہ دور بھی نہیں رہا کہ طاقت کے بل بوتے پر ایک پوری قوم کا صفایا ممکن ہو ( اس کام میں عبدالرحمن بھی ناکام و نامراد ہی رہا)، لہٰذا افغانستان کی موجودہ حکومت کو چاہئے کہ عبدالرحمانی خواب و خیال کو اپنے سر سے دور پھینک کر ایک ایسے ملک کے قیام کے لئے عملی اقدام کرے جس میں تمام قومیتوں کے حقوق مساوی ہوں۔ یہ اکثریتی اور اقلیتی قومیتوں کے ڈھکوسلے بھی  اب بند کردینے چاہئے  کیونکہ افغانستان میں ایسی کوئی مستند دستاویز ہی نہیں جس کی رو سے ثابت ہو کہ کون سی قوم اکثریت میں ہے اور کون سی اقلیت میں ۔ لہذا افغانستان میں رہنے والی تمام اقوام کی فلاح اسی میں ہے کہ زورگوئی کی سیاست نہ ہو، انسانیت کی بنیاد پر تمام اقوام کے ساتھ انصاف ہو اور امن کے لئے کوششیں کی جائیں۔ اسی میں ہزارہ، پشتون، تاجک، ازبیک اور دیگر تمام اقوام کی بہتری ہے۔

اکبر علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *