درد مشترک ۔۔۔ طلاء چنگیزی

٭

بس بولان کی خوبصورت وادی کے ساتھ ساتھ، سانپ کی طرح بل کھاتی دلاویز لیکن خطرناک سڑک پر روان دواں تھی۔ بس میں زیادہ تر ہزارہ اور پشتون طالب علم اور دوست سوار تھے اور اس کی منزل وادی بولان کا سحر انگیز اور طلسماتی، تفریحی مقام پیر غائب تھی۔۔۔۔۔۔۔ موسم بھی خوشگوار تھا اور بس میں بجنے والی خوبصورت موسیقی کے پس منظر میں سب مسافر آپس میں ہنسی مذاق میں مصروف تھے کہ بس چلتے چلتے اچانک کچھ جھٹکوں کے بعد رک گئی ۔۔۔۔۔۔۔ سب مسافر یکدم خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے سے بس رکنے کی وجہ پوچھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔

وہ بھی ایک دوست کے ساتھ بس کے بائیں رو میں بیٹھا کھڑکی سے باہر جھانک کر بس رکنے کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ باہر کا منظر بہت دلخراش تھا۔ ایک ڈاٹن پک اپ سڑک سے پسل کر تقریبآ ۸۰ یا نوے فٹ نیچھے گہرے نالے میں گر کر الٹ گئی تھی اور گاڑی کے آس پاس زمین پر کئی لوگ زخموں سے نڈھال پڑے تھے۔ حادثہ اُن کے پہنچنے سے شاید چند لمحے قبل ہی پیش آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اِسی اثناء میں بس میں سوار کئی مسافر نیچے اُتر کر زخمیوں کے پاس پہنچ گئے، جن میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں شامل تھیں۔ مسافروں نے زخمیوں کو جلدی جلدی گہرے نالے سے نکال کر اوپر سڑک تک پہنچانے میں مدد دی۔ ایک عمر رسیدہ بزرگ سمیت چند زخمیوں کی حالت زیادہ خراب تھی۔۔۔۔۔ بدقسمت پک اپ کے سارے مسافر براہوئی سپیکنگ بلوچ تھے جو شاید کسی شادی کی تقریب سے واپس آرہے تھے کہ ڈرائیور کی بے احتیاطی سے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ نزدیکی ہسپتال یا طبی امداد کا مرکز یا تو مچھ تھا یا پھر سبی۔ مچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ مخالف سمت میں جانے والے کئی گاڑیوں کو روکنے کی ناکام کوششوں کے بعد ۔۔۔۔۔۔ بس کے مسافروں نے سڑک بلاک کر کے ایک دو پک اپ وینز کو زبردستی روک کر زخمیوں کو ان پر سوار کرا کے قریبی طبی امدادی مرکز کی جانب روانہ کر دیا۔ اس کے بعد بس کے مسافر بھی سوار ہو کر دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے لیکن چونکہ اس ہولناک حادثے کی یاد ابھی تک سب کے ذہنوں پر طاری تھی لہٰذا باقی ماندہ سفر اداسی میں کٹ گیا۔

منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد مسافروں پر حادثے کا اثر قدرے زائل ہوا تو سب حسب معمول پیر غائب کے تالاب میں اتر کر تیراکی کرنے لگے۔ اتنے میں وہ بھی قمیض اتارنے ہی لگا تھا کہ اس کی نظر کپڑوں پر لگے خون کے دھبوں پر پڑی جو سوکھ کرسیاہی مائل ہوگئے تھے۔ غالباً وہ حادثے میں زخمی ہونے والے کسی شخص کے تھے۔ اس نے قمیض پیرغائب کے تالاب کے پانی سے دھو کر دھوپ میں رک دی تاکہ جلدی خشک ہوسکے۔ بعد میں وہ بھی تالاب کے پانی میں اتر کر باقی دوستوں کے ساتھ گرم پانی کا لطف اٹھانے لگا۔ کچھ دیر کے بعد تالاب سے نکلتے وقت پانی کی تہہ میں کسی نوکیلے پتھر سے اس کا ایک پاؤں کٹ گیا۔ اس وقت تو اُسے اتنا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔ لیکن جب باہر نکل کر دیکھا تو اس کے دائیں پاؤں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ فرسٹ ایڈ کٹ تو تھا نہیں اس لیے مفلر یا کسی اور کپڑے سے باندھ کر گرہ لگا دی تاکہ خون بند ہو سکے۔ کچھ دیر کے بعد خون تو رک گیا لیکن مفلر کا برا حال ہوچکا تھا۔ پکنک کے اختتام پر اس نے قمیض پہنی تو دھبے ابھی بھی باقی تھے۔

گھر واپس پہنچنے پر اس نے میلے کپڑے اور مفلر دھونے کے لیے رکھ دیے۔ والدہ نے مفلر کی حالت دیکھی تو پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ پاؤں پر چھوٹا سا کٹ لگ گیا تھا، مفلر سے باندھا تھا اسی لیے نشان پڑ گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ اسی دوران ماں کی نظر قمیض پر پڑی تو پریشان ہو کر بے یقینی سے دوبارہ پوچھنے لگی۔

“عجیب بات ہے ۔۔۔۔۔ چوٹ پاؤں پر لگی تھی اور دھبے قمیض پر؟”

اس نے جھجھکتے ہوئے راستے میں پیش انے والے حادثے کا سرسری سا ذکر کیا لیکن ساتھ ہی ماں کا دل رکھنے کو ہنستے ہوئے کہنے لگا ۔

“پریشان نہ ہوں، قمیض پر لگا خون تیرے بیٹے کا نہیں”

لیکن ماں کے چہرے کی پریشانی پھر کم نہ ہوسکی اور قمیض کی طرف دیکھتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگی۔

“جس کا بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی ماں پر نہ جانے کیا بیت رہی ہوگی؟ “

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *