حکمران اور مذہب کا سیاسی استعمال ۔۔۔ فدا گلزاری

 
مذہب ایک ایسا آلہ ہے جسے پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ ہمیشہ سے اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے استعمال کرتی آ رہی ہے۔
اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد شروع ہوئی تو حکومتی مشنری نے عوام کی توجہ بٹانے کے لئے خبر پھیلا دی کہ اس سال غلاف کعبہ تیار کرنے کا شرف پاکستان کو حاصل ہوا ہے۔ جب غلاف کعبہ تیار ہوا تو اسے شہر شہر گھمایا گیا اور اس کی خوب تشہیر کی گئی۔
سعودی حکومت نے غلاف کی تیاری کا آرڈر مختلف ممالک کو دیا تھا مگر ایوب خان کی حکومت یہ تاثر دے رہی تھی کہ یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہوا ہے۔ بعد ازاں سعودی حکومت نے یہ غلاف کعبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اُترا تھا لیکن ایوب خان نے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا تھا کیونکہ انہوں نے کئی ماہ تک عوام کو غلاف کعبہ کی زیارت میں مشغول رکھا۔
جنرل یحیی خان اپنی غیر جمہوری حکومت کو طول دینے کے لئے ایک طرف جمہوری قوتوں پر مظالم ڈھا رہا تھا تو دوسری طرف زہرہ فوما نام کی ایک انڈونیشین عورت کو منظر عام پر لے آیا۔ اس عورت کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں موجود بچہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ پورا ملک اس عورت کے بچے کی تلاوت سننے کے لئے بیتاب ہوا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی اس عورت کو لئے شہر شہر گھومتی رہی۔ بادشاہی مسجد میں اس عورت کی آمد کے موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے پورا شہر اُمڈ آیا ہو۔ اس سارے ڈرامے کو فوجی حکومت کی خاموش تائید اور حمایت حاصل تھی۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ زہرہ فوما تو حاملہ ہی نہیں تھی اور اس کے پیٹ میں تلاوت کرنے والا بچہ ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا جو اس نے اپنے جسم کے مخصوس حصے میں فٹ کر رکھا تھا۔
بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کی تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی جسے فوجی جرنیلوں کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ بھٹو جیسے سیکولر شخص نے اپنی حکومت بچانے کے لئے قادیانیوں کو قربانی کا بکرا بنایا اور مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کی ایک ناکام کوشش کی۔
جنرل ضیاء عوام کو سیاسی اور سماجی جدوجہد سے دور رکھنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کیا کرتے تھے۔ انہی کے دور میں ایک پیر سپاہی اچانک نمودار ہوئے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کے دیدار کے لئے جمع ہو جاتے۔ ایک مرتبہ لاہور اسٹیشن پر ٹرین سے اترتے ہوئے اس نے لاوڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ جو جہاں ہے وہی کھڑا رہے اور اپنے اپنے پانی کی بوتلوں کا ڈھکن کھول دیں۔ پھر اس نے لاوڈ سپیکر پر پھونک مار کر سب بوتلوں کے پانی پر دم کر دیا۔ اس کا دعوی تھا کہ اس کا دم کیا ہوا پانی تمام بیماریوں کے لئے باعث شفاء ہے۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ پیر سپاہی ایک ڈرامہ باز تھا اور پولیس سے ڈسمس ہو چکا تھا۔ پیر سپاہی کی ڈرامے بازیوں کو مارشلائی حکومت کی حمایت حاصل تھی ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے ناک تلے کوئی اتنا بڑا ڈھونگ رچا سکے۔
دو ہزار دس کو کوئٹہ میں سید ہاشم، شیخ اسدی اور مقصود ڈومکی نے امام بارگاہ کلاں سے ایک ریلی نکالی اور پولیس کے متعین کردہ حفاظتی اقدامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ریلی میزان چوک لے آئے۔ وہاں پر موجود خودکش بمبار کے حملے کے نتیجے میں بمشکل دس افراد جان سے گئے ہونگے۔ حملے کے بعد ان ملاوں کی ذمہ داری تھی کہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے وہاں موجود جوانوں کی رہنمائی کرتے مگر یہ تینوں اپنی جان بچاتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہو گئے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 80 تک پہنچ گئی۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی یہ مُلا آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں۔
عمران خان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کبھی تسبیح کے دانے گنتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی ننگے پیر حج کو نکل پڑتے ہیں۔ کبھی مولانا طارق جمیل جیسے مذہبی اداکاروں کی خدمات لی جاتی ہیں تو کبھی تاریخی ترکش ڈرامہ ارطغرل کی سرکاری سرپرستی میں پبلسٹی کی جاتی ہے۔
مذہب کے سیاسی استعمال کا خمیازہ طالبان کی صورت میں بھگتے ہوئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ ایک بار پھر پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر طالبان کی انڈیا کے خلاف جہاد کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
مذہب کا نشہ پاکستانی عوام کی رگوں میں اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ تباہ کن نقصانات کے بعد بھی ان کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے ہیں۔ اس نشے میں عوام اس حد تک غرق ہو چکے ہیں کہ ایک طرف مکہ، مدینہ، نجف و کربلا بند پڑے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں مذہبی اجتماعات زور و شور سے جاری ہیں۔
زہرہ فوما، پیر سپاہی، طارق جمیل، سید ہاشم، اسدی، ڈومکی اور طالبان جیسے کردار ہمیشہ سے حکمرانوں کی کٹھ پتلیاں رہے ہیں جن کی مدد سے وہ عوام کے شعور کو کُند کرنے اور انہیں سیاسی حقوق اور سماجی انصاف کے جدوجہد سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
فدا گلزاری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *