کورونا وائرس اور میری موت (2) ۔۔۔ ناظر یوسفی

دوسری اور آخری قسط
موصوف کی حالت دیکھنےکے قابل تھی۔ حالانکہ جب وہ میری طرح زندہ تھے تب ان کی بڑی شہرت تھی۔ کہنے کو تو وہ مسلمانوں کے ایک فرقے کے ایک بڑے اور مشہور مذہبی راہنما تھے لیکن حکومت میں نہ ہونے کے باوجود ملک کا اصل حکمران انہی کو تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے معتقدین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے جن کا عقیدہ تھا کہ موصوف روئے زمین پر خدا کے مقرب ترین بندے ہیں جن کا فقط ایک نظر کرم ہی انسانوں کے جنت میں جانے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔

اس لئے جناب کو اس حال میں دیکھ کر مجھ پر اتنا خوف طاری ہوگیا کہ میں کچھ دیر کے لئے اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رہ گیا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بچے، اب تو تمہاری خیر نہیں! کیونکہ اب تمہارا پالا ایک ایسے غضبناک خدا سے پڑنے والا ہے جس کے ڈر اور خوف سے آقائی بزرگوار کی حالت بھی انتہائی خستہ ہے۔ اس آقائی بزرگوار کی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ پیدائش کے وقت شکم مادر سے نکلتے ہی اس نے (یا علی) کا نعرہ لگایا تھا، اولاد رسول ہونے کے ناطے جس کے پرنور چہرے نے امام زمانہ علیہ السلام کی بارہا زیارتیں کی تھیں اور جسے امام عالی مقام سے بالمشافہ ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ایسے میں تجھ جیسے گنہگاروں کی حیثیت ہی کیا ہے؟“

فرشتے نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو اس نے میری ڈھارس بندھائی اور مجھے سہارا دے کر آگے بڑھنے لگا۔ میں نے اپنی تمام جوانمردی اور شجاعت کو سمیٹ کر بڑی مشکل سے فرشتے سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ آقائی بزرگوار صاحب کیونکریہاں منتقل ہوئے ہیں؟ اب کی بار میری آواز اتنی کمزور تھی کہ میرے حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ غالباً فرشتہ بھی باوجود کوشش کے میری بات نہیں سمجھ سکا اس لئے اپنا کان میرے منہ کے قریب لا کر پوچھنے لگا

“کیا کہا؟”

میں نے دوبارہ کوشش کرکے نہایت نحیف آواز سے اپنا سوال دوہرایا۔ اس مرتبہ فرشتہ میری بات سمجھ گیا اور کہنے لگا:

“دراصل بات یہ ہے کہ آقائی بزرگوار اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے مردوں کے جس جم غفیر کو آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب حکومت کے خاص لوگ تھے جو تمام کے تمام کورونا وائرس کا شکار ہوکر مر گئے ہیں۔ انہوں نے پہلے پہل کورونا وائرس کی وبا سے عوام کو بے خبر رکھا تھا جس کی وجہ سے وائرس اتنا پھیل گیا کہ خود ان کے اپنے وزراء، اراکین پارلیمنٹ، مشیران اور بہت سے حکومتی عہدیدار اس وبا کا شکار ہو کر مر گئے۔ اسی تسلسل میں کچھ ہی دنوں پہلے آقائی بزرگوار ایک پرتکلف ضیافت میں شریک ہوئے جس میں حکومت میں شامل خاتون وزیر بھی شریک تھی جسے کورونا وائرس لاحق تھا لیکن کسی کو اس بابت معلوم نہیں تھا۔ وہ خاتون چونکہ آغائی بزرگوار کے بہت قریب بیٹھی ہوئی تھی اس لیے اس سے یہ وائرس ان میں منتقل ہوگیا تھا اور یہ بات بھی حکومت نے دنیا سے چھپائے رکھی۔ جس کی وجہ سے اس مرض سے وہ جانبر نہ ہو سکا اور تمہارے مرنے کے کچھ ہی لمحوں بعد وہ بھی فوت ہوگیا۔

یہ باتیں کرتے ہوئے ہم تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے جب میری نظر سامنے پڑی۔کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے میدان کے بیچوں بیچ عرش پر خدا ایک عظیم الشان تخت پر براجمان تھا جسے چار طاقتور فرشتوں نے اپنے شانوں پر اٹھا رکھا تھا۔ میدان حشر کی ایک اور عجیب بات یہ تھی کہ وہاں میرے حواس لاکھوں گنا تیز ہو چکے تھے۔ میری آنکھیں سینکڑوں میل دور کھڑے لوگوں کو صاف صاف دیکھ اور پہچان سکتی تھیں اورمیرے کان انہیں ایسے سن سکتے تھے جیسے وہ میرے بالکل سامنے کھڑے ہوں۔ خداوند تو خالص نور تھا، اتنا مسحورکن کہ نظریں ہٹانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ خدائے بزرگ و برتر کو دیکھ کر میری تمام تھکاؤٹ اور خوف ایسا دور ہوگیا جیسا کہ میں رحم مادر سے ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔ خدا کے بارے جو سوچ لے کر میں وہاں گیا تھا وہ تو ملاؤں کی ڈراؤنی تعلیمات سے ماخوذ تھا، مگر وہاں میں نے اس کا نقیض پایا۔ ملا کہتے تھے کہ خدا نے اپنے گنہگار بندوں کے لئے جہنم خلق کیا ہے، روز محشر وہ انہیں ہمیشہ کے لئے واصل آتش دوزخ کر دے گا۔ یوں ملاؤں نے خدائے ذوالجلال کی تبلیغ ایک غضبناک خدا کے طور پر کی تھی۔ جس کا کام صرف اپنے ناخلف بندوں کو سخت سے سخت سزائیں دینا ہے اور بس!

میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو مجھےہر طرف مختلف مذاہب کے بے شمار پیروکارنظر آئے جو میری طرح کفن میں ملبوس خدائے ذوالجلال والاکرام کے حضور میں پیش تھے۔ وہ تمام کے تمام حسرت بھری نگاہوں سے اپنے اپنے مسیحاؤں اور مذہبی پیشواؤں کو تلاش کر رہے تھے۔

ابھی میں انہی مناظر میں کھویا ہوا تھا جب میرے ساتھ آنے والے فرشتے نے کہا

“ایسا لگتا ہے کہ تمہاری حالت اب سنبھل چکی ہے!”
جواب میں، میں نے ہاں میں اپنا سر ہلایا۔ فرشتہ اپنا فرض پورا ہوتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مردوں کے ہجوم سے علیحدہ بائیں جانب چل پڑا اور مجھ سے کہنے لگا:
”ابھی خدا کے دربار کو لگنے میں تھوڑی دیرباقی ہے، چلو میں تمہیں ایک نئی چیز دکھاتا ہوں۔“

ہم کچھ دور چلے تو دیکھا کہ وہاں فرش سے لے کر عرش تک تا حد نظر ایک بہت بڑا پردہ آویزاں ہے۔ فرشتے نے پردے کو ہاتھوں سے ہٹایا اور مجھ سے کہنے لگا:

”یہاں آکر ذرا پردے کی دوسری جانب دیکھو، کہ وہاں کیا چل رہا ہے؟“ میں نے پردے کے دوسری جانب جھانکا تو دیکھا بہت دور میدان کے ایک سرے پر جہنم اور دوسرے سرے پر جنت صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ سب دکھانے کے بعد فرشتے نے کہا چلو خدا کی عدالت ابھی لگنے والی ہے اور ہم وہاں سے واپس چل دیئے۔ ابھی ہم اسی جگہ پہنچنے ہی والے تھے جہاں سے ہم ہجوم سے جدا ہوئے تھے کہ خدا کے تخت کو سہارا دیئے فرشتوں نے تخت کو عرش سے آہستہ آہستہ فرش کی جانب اتارنا شروع کیا۔ جب تخت فرش پر اتر چکا تو خدا کی آواز آئی کہ تمام مردوں کے اعمال نامے حاضر کئے جائے۔ اس حکم کے ساتھ ہی فرشتوں نے ایک بہت بڑے طشت سے اعمال نامے نکال نکال کر لائن میں کھڑے لوگوں کو تھمانا شروع کیا۔ اس موقع پر جو بھی اپنا اعمال نامہ وصول کرتا، وہ یا تو خوشی سے قلابازیاں لگاتا ہوا آگے بڑھتا، یا گریہ و زاری شروع کر دیتا۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہوئی، کہ رونے دھونے اور ناخوش مردوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی جو میری سمجھ سے بالاتر تھی، کیونکہ بقول دنیاوی ملاؤں کے صرف سچے شیعہ خواتین و حضرات ہی کو جنت میں جانے کا شرف حاصل ہونا تھا۔ مگر اس کے برعکس یہاں تو مجھے تمام اقوام بلکہ تمام مذاہب اور نسل کے لوگ اپنا اپنا اعمال نامہ لے کر خوشی سے قہقہے لگا کر جنت کی طرف بڑھتے نظر آئے۔

اس ناقابل یقین منظر کو دیکھ کر میں نے فرشتے سے سوال کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اس نے بتایا کہ خدا کے حضور پیشی اور حساب کتاب میں نماز روزے کی اہمیت کوئی نہیں ہوتی، کہ کس کی کتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں یا کس نے مزاروں، حج یا زیارت مقدسات کے کتنے دورے کیے ہیں۔ بلکہ خدا کی یہ عدالت تمام انسانوں کے لیے اجتماعی طور پر لگتی ہے، جس میں انسانیت کی خدمت کو اوّلیت دی جاتی ہے۔ یعنی جس جس نے انسانیت کی خدمت میں اپنے دن اور رات وقف کئے ہیں ان کو ان کی خدمات کے صلے میں انعامات اور جائزے دیئے جاتے ہیں اور جنہوں نے اپنی زندگیاں صرف اپنے لیے گذاری ہیں اور کوئی خاص انسانی خدمت نہیں کی، انہیں بھی جنت میں باعزت زندگی گذارنے کی مکمل اجازت ہے۔ لیکن ان تمام افراد، مذہبی گروہوں، استحصالی نظام کے نمائندوں اور خصوصاً جنہوں نے مذہب کے نام پر مخلوق خدا کو گمراہ کیا، انہیں تقسیم کیا، ان کی گردنیں کاٹیں، ملکی خزانہ لوٹا، زیارات اور دین کا بیوپار کرکے مال کمایا، ادیاں یعنی مذہبی ریاستیں بنا کر اپنے عوام کے تمام بنیادی حقوق پامال کرکے ان کا بھرپور استحصال کیا اور خود کو روئے زمین پر خدا کا نمائندہ قرار دے کر لوگوں پر ظلم ڈھائے، ان سب کو سزا کے طور پر دوزخ کا منہ لازمی دیکھنا پڑے گا اور تم دیکھ رہے ہو کہ تمام اقوام کے لوگ جب اپنے اعمال نامے لیتے ہیں تو خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان پر جنت میں داخلے کی خوش خبری درج ہے جبکہ جو لوگ رو پیٹ رہے ہیں ان کے اعمال ناموں پر دوزخ کی مہر لگی ہے۔

میں نے بڑے تجسس سے استفسار کیا کہ مختلف ادیان، مذاہب اور فرقوں کے ان پیشواؤں کا کیا بنے گا جن کے نام پر ان کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا؟ اس مرتبہ فرشتے نے مسکراتے ہوئے ہم سے چند قدم کی دوری پر آغائی بزرگوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا:
“ان تمام لوگوں کی حالتیں اس جیسی ہوں گی، بس تھوڑی دیر انتظار کرو اور دیکھو کہ کیا ہوتا ہے ان کے ساتھ!”

کچھ ہی دیر بعد جب آغائی بزرگوار کی باری آئی تو وہ اپنا اعمال نامہ دیکھتے ہی دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔ لیکن اس کی داد رسی میں پہنچنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ فرشتے نے ایک مرتبہ پھر آغائی بزرگوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: دیکھو! آغائی بزرگوار اور اس کی جماعت کے لوگ کیسے رو رہے ہیں؟ انہوں نے چالیس سالوں تک دین و مذہب کے نام پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام اور لاکھوں کو غیرانسانی زندگیاں گذارنے پر مجبور کیا۔

اتنے میں جب میری باری آئی تو میں بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اور فرشتے کے ساتھ اس جانب بڑھنے لگا جہاں فرش سے عرش تک ایک دلآویز پردہ آویزاں تھا۔ جب ہم کچھ آگے بڑھے تو میں نے فرشتے سے کہا کہ آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ فرشتے نے کہا پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے میدان کے گردا گرد نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا کہ: میری قبر میں مولا اور عنکر و منکر کیوں نہیں آئے، خدا کے دربار میں کوئی برگزیدہ ہستی کیوں نہیں آئی اور یہاں میدان حشر میں مجھے کہیں پر ”برے اور اچھے اعمال تولنے والا“ ترازوئے عدل اور پل صراط کیوں نظر نہیں آرہا جن کے خوف نے ہماری پوری زندگیاں اجیرن کر دی تھیں؟ میرے آخری سوال پر فرشتے نے ہنستے ہوئے جواب میں کہا کہ: بھائی زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں! بس اپنے آس پاس نظر ڈالو۔ باقی کی کہانی آپ خودبخود سمجھ جاؤگے۔
ترازوئے عدل اور پل صراط کی وضاحت میں، میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا، کہ خدا نے انسان کو عقل دے کر روئے زمین پر اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا۔ بعد میں اس کا انحصار انسان پر ہی تھا کہ وہ اپنی عقل کو کس حد تک استعمال کر سکتا تھا۔ بہرحال: مجھے یقین ہے کہ آپ نے ملاؤں کے کسی دیومالائی قصوں اور افواہوں پر کبھی بھی کان نہیں دھرے ہوں گے صرف اس کے خوف نے آپ کو پریشان کر رکھا تھا۔ یہ کہہ کر فرشتہ مجھ سے مسکراتے ہوئے رخصت ہوا۔
ناظر یوسفی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *