ایک کشتی کے سوار۔۔۔ اسد مہری

حکومت مُلک بھر میں لاک ڈاؤن اُٹھانے کے اعلان کی تیاری میں مصروف ہے اور ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا ہے، ٹی وی اور دوسرے میڈیا پہ لگاتاریہ سُنےکو مِل رہا ہے کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور اس کشتی کو ہم نے ہی پار لگوانا ہے۔
یہ سب سُن کردُکھ ہوتا ہے کیونکہ ہم سب ایک کشتی کے سوار تو نہیں ہو سکتے ہاں البتہ ایک ہی طوفان کے شکار ضرور ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ تُمھاری کشتی ان حالات میں شاید تباہ حال ہو مگر میری شاید اب تک محفوظ اور ساحل پہ کھڑی ہو۔ کہنے کا مطلب ہے کہ سب مُختلف حالات سے گُزر رہے ہیں۔
معاشرے میں کُچھ لوگوں کے لئے یہ اپنی زندگی، حالات اور رہن سہن کو پرکھنے کیلئے بہترین موقع ہے جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ طرح طرح کے کھانے اور مشروبات سے لُطف اندوز ہو رہے ہوں تو کہیں بھوک اور افلاس کی راتیں گُزر رہی ہوں۔
کوئی اس تنہائ کو سب سے دور اور الگ تھلگ اور تنہا ہونے کو رحمت سمجھتا ہو تو کوئی اپنے خاندان سے قریب تر ہونے پر شُکر گُزار ہو۔
کسی کے لئے یہ ایک رحمت کا باعث ہو کیونکہ اس کے کاروبار اور آمدن میں کئی  اضافہ ہوا ہو تو کسی کی ساری جمع پونجی خاک میں مِل گئی ہوگی۔
کوئی کام پہ نہ جانے کی خوشی میں مٹھائی بانٹ رہا ہے تو کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے خود کُشی پر مجبور ہے۔  کچھ ایسے جو Netflix کی ساری سیریز دیکھ چکا تو کسی کے سامنے بھوک سے نڈھال بچوں کی صورتیں۔
کسی کے پاس ایک وقت کی روٹی نہیں تو کوئی ہزاروں من کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف۔ کوئی بیماری سےتڑپتے ماں باپ کے لئے ایک گولی نہیں لا سکتا تو کہیں دواؤں سے بھری الماری کی تصویریں فیس بُک پہ شئیرکر تے لوگ۔
کُچھ اس عذاب سے نجات پانے کے لئےدست بہ دُعا توکوئی نئی دَوا کی تخلیق کا منتظر۔ 
کوئی اس بیماری کو خُدا کا عذاب قرار دے رہا ہے تو کوئی یہودی سازش!
الغرض ہر شخص کی اپنی الگ کہانی!
تو پھر دوستوں میرے خیال میں ہم ایک کشتی کے سوار بلکُل نہیں۔  ہم اُس طوفان میں گرے لوگ ہیں جہاں ہر شخص کی مجبوری اور ضرورتیں مختلف ہیں۔ اس طوفان کے گُزرنے کےبعدہر شخص کی اپنی سر گُزشت اور اپنا تجرُبہ ہوگا۔ کوئی اُفق پہ چڑھتے سورج کی مُلائم کرن کو محسوس کرے گا تو کوئی تپتی دھوپ کی شدت۔
اسد مہری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *