میرا جسم کس کی مرضی؟ ۔۔۔ سجاد حسین

فیمنزم گزشتہ صدی میں مغرب میں عورتوں کے حقوق کی لیے اٹھنے والی شعوری تحریک ہے۔ اس تحریک کی تاریخی وابستگی بلاشبہ “لبرل ازم ” کے ساتھ ہے، یعنی عورت اپنے خاندان، قبیلے کی بندشوں سے بہ حیثیت فرد آزاد ہو۔ لیکن گزشتہ صدی ہی میں لبرلزم کے مقابل دیگر توانا فکری تحریکوں نے اپنے اپنے انداز میں لبرل یا کیپٹلسٹ فیمنزم پر زبردست تنقید کرتے ہوئے اس کے سوشلسٹ یا نیشنلسٹ متبادل پیش کیے۔ سوشلسٹ فیمنزم ہی کی کوکھ سے لبرل فیمنزم پر یہ زبردست تنقید ہوئی کہ گویا آپ عورت کو اس کے بھائی، شوہر اور باپ کے چنگل سے چھڑا کر سرمایہ داروں کے لیے کھلونا بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔

انڈین اور افریقی فیمنسٹوں نے مغرب کی سرپرستانہ فیمنزم کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ آپ ہمیں ہمارے بھائی بندوں سے آزاد کرنے پر جتی ہوئی ہیں، لیکن ہمارے بھائی بندوں کو آپ کے بھائی بندوں کے ظلم و ستم سے کون آزاد کرائے گا؟ بیسیوں صدی کے آخری نصف میں مغربی کالونیلزم کے مقابل یہ سوالات بڑے زور و شور سے اٹھائے گئے۔

اسلام اور مسلم معاشروں کے ساتھ کالونیلزم نے بڑی زیادتی یوں کی ہے کہ بدگمانی کی وہ دیواریں کھڑی کر دی ہیں کہ مذہبی مسلمانوں کو مغرب میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا اور مغرب اور مغرب زدوں کو مسلم اقدار میں یا اسلامی افکار میں کچھ بھی اچھا نظر نہیں آتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ترکی کے مصطفٰی کمال پاشا اور مسلم معاشروں میں اس سوچ کے حامل دوسرے لیڈران ہیں جن کے مطابق مسلمانوں کو دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی پوشاک، اپنا طرز ِ تحریر، اپنی زبان اور حتٰی مذہب یا مذہبی لائف سٹائل کو ترک کرنا پڑے گا۔ یہ وہ عظیم قربانی ہے جو دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے طلب نہیں کی گئی۔ صرف اسلام کے معاملے میں مغربی جدیدیت کے قائل لیڈران اور ان کے مقابل اسلامی سیاسی تحریکوں کے رہبران اس بات پر مضحکہ خیز حد تک متقفق ہیں کہ اسلام ہے تو سائنس و ترقی نہیں، یا پھر ترقی چاہیئے تو اسلام کو ترک کرنا پڑے گا۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں ایک پاکستانی خاتون پروفیسر صبا محمود کا کام اس حوالے سے زبردست ہے۔ انھوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ کیا مذہبی مسلم خواتین کی سماجی تحریکوں کو فیمنسٹ فریم میں رکھا جاسکتا ہے یا پھر جیسا کہ عمومی خیال ہے کہ اسلامی خواتین اپنے حقوق حاصل ہی نہیں کرنا چاہتی۔۔

ان دنوں عورت مارچ کے حوالے سے جاری مباحثے میں یہ نعرہ سب کی توجہ کا حامل ٹہرا ہوا ہے کہ “میرا جسم میری مرضی”۔ میں اسلامی اسکالر بالکل بھی نہیں لیکن اسلامی لٹریچر میں اس کا متبادل (مخالف نہیں، متبادل)” میرا جسم اللہ کی مرضی” ہے۔ اکثر لوگ ان دو نعروں کو ایک دوسرے کے برعکس اور مخالف دیکھیں گے لیکن حق مغفرت کرے پروفیسرصبا محمود کو جو صرف ستاون برس  کی عمر میں چل بسی اور جنہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ در اصل “اللہ” کی ذات میں اپنا اختیار رکھنا، عورت کے لیے اپنے مرد کی غیر مشروط بلا چوں و چرا فرمانبرداری نہیں۔ صبا محمود کی تحقیق میں شامل مصرکی مذہبی خواتین نے برملا بتایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اتنی ہی سنتی ہیں جو ان کے فہم کے مطابق شرعی اور اخلاقی طور پر جائز ہیں۔ یعنی ان کے والدین اورشوہر ان سے کوئی غیر شرعی کام کروانے کے مجاز نہیں۔ ان میں سے کئی خواتین دراصل اپنے شوہروں اور بھائیوں کی مرضی کے خلاف قرآن اور اسلامی کلاسز اٹینڈ کر رہی تھیں اور یہ وہ اپنا بنیادی انسانی اور اسلامی حق سمجھ کر کر رہی تھیں۔ بہ الفاظ ِ دیگر میرا جسم اللہ کی مرضی کے مطابق آپ اپنا اختیار اگر اپنے پاس نہیں رکھتی تو اپنے شوہر کو بھی نہیں دیتی، بلکہ ایک نیوٹرل ذات یعنی اللہ کو سونپ دیتی ہیں اور ان کی قضاوت اور عدالت کے سامنے نہ صرف عورت کو بلکہ مرد کو بھی سر جھکانا پڑتا ہے۔

اسلامی لٹریچر سے مختصر تعارف میں یہ بات مجھے اچھی لگی ہے کہ اسلامی فلسفے میں جسم آپ کا اپنا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے۔ یعنی آپ کو یہ شرعی حق حاصل نہیں کہ اپنے جسم کو جان بوجھ کر نقصان پہنچائیں مثلا” خودکُشی حرام ہے، کئی شیعہ مجتہدین اسی نکتے کی بنیاد پر قمہ زنی اور چھری مارنے کی مذمت کرتے ہیں۔ باقی جس طرح کا اسلام زمانہ ھٰذا اور ماضی میں رائج رہاہے اس میں عورتوں کے حقوق مردوں سے برملا کمتر ہی رہے ہیں، اس پہ کوئی تکرار نہیں۔ میری عرضداشت صرف اتنی ہے کہ میرا جسم اگر اللہ کی امانت ہے تو بھی امین میں ہی ہوں، عاقل و بالغ ہونے کے بعد مشروط اختیار (غیر مشروط اختیار نہیں) بھی مجھے ہی دیا گیا ہے سو اس حوالے سے “میرا جسم اللہ کی مرضی” اور “میرا جسم میری مرضی” میں فکری اور عملی حوالے سے بہت زیادہ فرق نہیں سوائے اس بات کے اسلام آپ کو اپنے جسم پر مشروط اختیار دیتا ہے اور سیکولر فیمنزم فکری حوالے سے غیر مشروط البتہ قانونی اور عملی اعتبار سے کوئی آزادی غیر مشروط ہو ہی نہیں سکتی!

اس وضاحت کے ساتھ آخری گزارش ہے کہ جب اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ عورت کو جو حقوق (اسلام میں)ملنے چاہیئے، وہ نہیں ملے ہیں تو آئیں ایسا معاشرہ بنائیں جہاں عورت آج کے معاشرے کی نسبت زیادہ محفوظ ہوں، وہ حضرت خدیجہ کی طرح بزنس وومن ہوں، وہ بیوہ ہو کر دوسری تیسری شادی کر سکیں، وہ پڑھ لکھ سکیں، معاشرے کے ہنرمند افراد بن کر انسانیت کی اور اسلام کی بہتر خدمت کر سکیں۔

بالخصوص جو مرد باپ بھی ہیں، ان سے گزارش ہیں کہ اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھیں، جو مستقبل، جتنی آزادی اور جو اختیار وہ اپنی بیٹیوں کے لیے چاہتے ہیں، وہی رویہ اپنی بیویوں، بہنوں ماووں اور معاشرے کی دیگر خواتین کے ساتھ رکھیں۔!

سجاد حسین
0 Shares

One thought on “میرا جسم کس کی مرضی؟ ۔۔۔ سجاد حسین

  1. Mashallah, best one.
    Have been written beyond religious convictions or secularist bigotries.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *