ویلنٹائن ڈے کا حل بھی نکل ہی آئے گا ۔۔۔ محمد تقی رمضان

14 فروری کو پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے متعدد کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، تاہم اس تحریر کا مقصد اس دن کی تاریخ  کوجانچنا نہیں، اس لیے اس بحث کو فردا کے لیے رکھتے ہیں۔ صرف اتنا ہی جاننا ہمارے لیے کافی ہے کہ اس دن کی مناسبت سے محبت کرنے والے  نئے جوڑے کھل کر اپنی محبت کا اظہار  کرتے ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہنے کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور پرانے جوڑے پرانی  یادوں کو  تازہ کرکے دل میں زندگی کی نئی امنگ جگاتے ہیں ۔ یہ دن ہر کوئی منا سکتا ہے، لیکن نوجوان اس دن  کا زیادہ بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں، جس کی وجہ شاید زندگی کے غم و اندوہ سے ان کی نا آشنائی ہو گی۔    لیکن اسلامی ملکوں، خاص طور پر پاکستان میں اس دن کی روز افزوں بڑھتی مخالفت کی وجہ سے اب اس دن کا منانا اس قدر آسان نہیں ہو گا ۔ مذہبی حلقے سوشل میڈیا اور  دیگر مختلف مقامات پر اس کی پر زور مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔     جذباتی پوسٹوں کی صورت میں غیرت اور عزت کے نام پر ہر ممکن بلیک میلنگ جاری ہے اور احادیث اور اسلامی حکایات اور روایات کا بھی آز ادانہ استعمال کیا جا رہا ہے( جن کی صداقت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا)۔

راقم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ویلنٹائن ڈے منانا صحیح ہے یا غلط، کیونکہ ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے اور یہ اس کا استحقاق ہے کہ کسی دن کو منائے یا نہ منائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عا م آدمی  مانے تو کس کی مانے۔ اگر مذہبی حلقوں کی بات مانتا ہے تو دنیا خطرے میں اور اگر اپنے  دل کی مانتا ہے تو دین  خطرے میں۔ اور ابھی ہر کوئی تو خطروں کا کھلاڑی نہیں کہ  سب سے پھنگے لے، کیونکہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی سکون سے گزرے۔  تاہم اس نازک صورتحال میں جب ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو کچھ امید سی بندھتی نظر آتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر مذہبی بنیادوں پر سخت پابندی عائد تھی، تاہم گزرتے وقت اور بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے  آخراس کی اجازت دے دی گئی اور احادیث بھی سامنے  آنے لگیں کہ علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے (احادیث تو پہلے سے موجود ہوں گی مگر انھیں اتنا عرصہ کیوں چھپایا گیا یہ ایک الگ بحث ہے)۔ اسی طرح ٹی وی اور ریڈیو کی مخالفت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہو گی۔ لیکن ان کے استعمال کی بھی آخر اجازت مل ہی گئی۔ بعد میں کیمرے کا   نمبر آیا  تو اس پر بھی نہایت سخت فتوے صادر ہوئے، مگر بعد میں اس کی بھی جان بخشی ہوئی اور آج کل اُس کا سب سے زیادہ استعمال ہی مذہبی حلقوں میں کیا جا تا ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا کافی عرصے تنقید کا شکاررہا مگر آج کل اس   پر بھی دینی علما کا ہی راج نظر آتا ہے۔ مدر ڈے اور فادر ڈے بھی کوئی پرانی بات نہیں ، جن کی مقبولیت نے کینڈل مافیا کے بعد نیا استعارہ کیک مافیا کو جنم دیا ۔ ان تمام مثالوں میں اگرایک واقعے کا ذکر نہ کیا جائے تو نا انصافی تصو ر ہو گی۔  دہشتگردی کے واقعات جب عروج پر تھے تو ایک سیا سی پارٹی کے مردوں سے جب کچھ نہ ہو سکا تو ان کی خواتین نے ایک جلوس نکالا اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا  ۔ اس احتجاج کی ایک نمایاں بات یہ تھی کہ ان خواتین نے اسمبلی کے گیٹ پر علامتی طور پر اپنی چوڑیاں لٹکا دیں تاکہ صوبائی حکومت کچھ غیرت کرے اور قتل عام کی روک تھام کرے۔ اس علامتی احتجاج کا مقتدر قوتوں پر تو کوئی اثر نہ ہوا لیکن مذہبی حلقوں نے ان خواتین کو سخت سست کہا اور یہاں تک کہ انہیں گشتیوں اور بد کردار عورتوں سے تشبیہ دی۔ لیکن اسی واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جب علمدار روڈ پر شہدا کے خاندانوں نے دھرنا دیا اور ایک مذہبی سیاسی پارٹی  کو اس میں سیاسی فوائد نظر آئے تو انھوں نے پھر اپنا نظریہ بدلا اورتنقید سے بچنے کے لیے اس عمل کو زینبی کردار کا نام دیا اوراس کی بھرپورحمایت  کی۔  

مختصرا یہ کہ ہر نئی چیز آنے پر اس کی مخالفت ضرور ہوتی ہے اور بعد ا  زاں اس پر بحث مباحثے سے اس کےاچھے برے ہونے کا اندازہ لگایا جا تا ہے۔ تاہم   کچھ لوگوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ہر  چیز کی بے جا مخالفت کرتے ہیں جسے بعد میں معاشرتی دباؤ کے تحت انہیں ماننا ہی پڑتا ہے۔  اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتی فیصلوں کی بجائے تمام معاشرتی اورانسانی  اصولوں، جبلتوں اورضرورتوں  کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی معاملے پر غور و خوص کیا جائے  اور پھر کسی نتیجے پر پہنچا جائے،  تاکہ بعد میں اپنے اصولوں اور نظریات کی قربانی نہ دینی پڑے۔ اس تمام ڈسکشن سے اور کچھ حاصل ہوا یا نہ ہوا ہو مگر نوجوانوں کے دل کو یہ تسلّی ضرور ہوئی ہو گی کہ غم نہ کرو “ویلنٹائن ڈے کا حل بھی نکل ہی آئے گا”۔

محمد تقی رمضان
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *