حسین علی یوسفی، ایک داستان گو کی یاد ۔۔۔ طلا چنگیزی

 
حسین علی یوسفی ایک ایسی خوبصورت شخصیت کا نام جسےسنتے ہی بے ساختہ آپ کے ہونٹوں پر ایک اداس مسکراہٹ بکھر جائے. وہ بلاشبہ ایک انتہائی دلچسپ، باوقار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. وہ صرف ایک بہترین مقرر، لاجواب لکھاری، فطری و ہر دل عزیز اداکار، بااصول سیاستدان اور ایک کامیاب بزنس مین ہی نہ تھے بلکہ ایک مہذب و ملنسار شخص کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ اگرچہ مجھے ان کو قریب سے جاننے کا دعوٰی تو نہیں لیکن وقتا فوقتاً انکی صحبت میں بیٹھنے اور انکی شخصیت سے مستفید ہونے کا کئی بار موقع ضرور ملا.
 
ان کی زندگی کہنے کو تو ایک کھلی کتاب کی مانند تھی لیکن بطورِ ایک قاری میرے لیے اس کتاب کا ہر ایک صفحہ پرکشش اور ہر ایک باب تحیر اور استعجاب سے مزین تھا۔ ان کی خوبصورت لیکن کسی قدر پرتحیر شخصیت کے کئی ایک پہلو تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اپنی میٹھی بات کہنے اور دوسروں کی کڑوی بات سننے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ وہ ہر بات اتنے پراعتماد اور اپنائیت کے انداز میں کرتے تھے کہ انسان کے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہتا. ان کے لہجے کی گہرائی، با محاورہ ہزارگی گفتگو کا انداز سن کر ان پر پرانے زمانے کے کسی داستان گو کا گمان ہوتا تھا۔ وہ جب قصہ گوئی پر آتے تو ایک سماں سا باندھ دیا کرتے تھے. آپ جب ان کے پاس بیٹھ ان کے دلچسپ اور پر مزاح گفتگو سے لطف اندوز ہورہے ہوتے تو بالکل بھی اٹھنے کو جی نہیں کرتا تھا. بقول شاعر 
 
؎   وہ کہے اور سنا کر ے کوئی
 
ان کی خوش گفتاری، حاضر جوابی اور بزلہ سنجی ضرب‌المثل تھی. ان کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز، تجربات اور مشاہدات ان کی تحریروں میں جھلکتے تھے. ان کے سٹیج ڈراموں کے تخلیق کردہ کردار آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں. مجھے انکے ڈراموں کو بالمشافہ دیکھنے کا فخر حاصل ہے. وہ نہ صرف ہزارگی سٹیج ڈراموں کے بانی تھے بلکہ ان کے تخلیقی کاوشوں میں ہمیں اپنا اصل چہرہ دکھائی دیتا تھا۔ ان کے تخلیقی کردار ہمارے آس پاس کے حقیقی کرداروں کی مانند لگتے تھے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیتیں وقت اور حالات کی تپتی بھٹی میں کندن کی طرح دمکتی تھیں۔ وہ جذبات کی رو میں بہہ جانے والے شخص کی بجائے ایک ٹھنڈے دماغ کے مالک اور معاملہ فہم شخص تھے۔ اگرچہ وہ کوئی ماہر نفسیات اور سماجی علوم کے ماہر نہیں تھے لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی رویوں پر ان کی گہری نظر تھی. بنیادی انسانی جبلتوں، رویوں اور ہمارے برتاؤ کے کشمکش سے پیش آنے والے مسائل کو نہ صرف اچھی طرح سے سمجھتے تھے بلکہ ان کے خوبصورت امتزاج سے پیدا ہونے والے مزاح کو اپنی گفتگو اور تحریروں میں سموتے رہتے تھے۔
اپنی زندگی کے ذاتی تجربات سے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر پیچیدہ مسئلے کو کئی زاویوں سے دیکھنے کا فن جانتے تھے۔ اسی وجہ سے کسی کے تند رویے پر اظہارِ ناراضگی کی بجائے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔
 
آج میں اپ سب دوستوں کے ساتھ ان کا اپنا ایک واقعہ انہی کی زبانی سنانے کی جسارت کر رہا ہوں جو انہوں نےاپنے دورہ برطانیہ کے دوراں مجھے اور کچھ اور دوستوں کو سنایا تھا۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ یہ پورا واقعہ من و عن اسی طرح ضبط تحریر میں لاؤں جیسا کہ انہوں نے بیان کیا تھا، پھر بھی کسی کمی و بیشی کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں.
 
“میرے جاننے والوں کی اکثریت اس امر سے بخوبی واقف ہو گی کہ میری رہائش کوئٹہ شہر کے مضافات میں بروری کے علاقے میں تھی. چونکہ بروری، کوئٹہ شہر اور دوسرے ہزارہ نشین علاقوں جیسے علمدار روڈ اور مری آباد سے کافی فاصلے پر واقع ہے لہذا عام لوگوں کی بڑی تعداد، سستے سفری سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث روزمرہ کے معمولات زندگی کی بجا آوری کیلیے بسوں پر سفر کرنے پر مجبور تھی جو کہ آنے جانے کا واحد ذریعہ ہوتا تھا۔
 
صبح کے وقت جب بھی بروری سے شہر کی طرف میرا جانا ہوتا تو بس اسٹاپ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد شہر جانے کے لئے بس کے انتظار میں کھڑی نظر آتی تھی. میں ہمیشہ جب بھی اکیلا ہوتا تو رستے سے یا کہ کسی بس سٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑے چند ایک لوگوں کو بھی اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیتا تھا جو محنت مزدوری یا کسی دوسرے کام کے سلسلے میں شہر جانا چاہتے تھے، کیونکہ کام کے سلسلے میں میرا تو روز کا آنا جانا ہوتا تھا. سوچتا تھا کہ شہر تک گاڑی اکیلے دوڑانے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ کسی نہ کسی کو ساتھ لیتا چلوں۔ ان کے کرائے کی بھی بچت ہوگی اور بات چیت میں سفر بھی جلدی کٹ جائے گا. بروری کے اکثر لوگ میری اس عادت سے بخوبی واقف تھے اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی بخوشی گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے اور دوران سفر خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتے تھے۔ وقت بھی اچھا گزر جاتا اور رستے میں جہاں بھی انہیں اترنا ہوتا انہیں اتار دیا کرتا تھا.
 
ایسے ہی ایک دن میں گھر سے ذرا دیر سے روانہ ہوا تو تھوڑا سا مخمصے کا شکار تھا. اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ اس دن مجھے دو ضروری کام تھے. ایک کوئٹہ شہر میں اور دوسرا سریاب روڑ بلوچستان یونیورسٹی کے قریب. میں دل ہی دل میں سوچتا جا رہا تھا کہ پہلے شہر کی سمت جاؤں یا کہ سریاب روڈ. اسی کشمکش میں گاڑی چلاتے جب بروری سے تھوڑی دور مین روڈ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر شخص دھول اور مٹی سے اٹے سڑک کے ساتھ ساتھ سر جھکائے پیدل جا رہا تھا، قریب پہنچ کے میں نے گاڑی کی رفتار کم کی اور قدرے بےتکلفانہ انداز میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا.
 
“سلام قوما! لگتا ہے تمہیں کہیں دور جا نا ہے؟ ‎”
بروری کے اکثر لوگوں سے نہ صرف میری واقفیت تھی بلکہ وہ بھی مجھے اچھی طرح  جانتے اور پہچانتے تھے اس لیے میرے بے تکلفانہ انداز تخاطب سے بخوبی واقف تھے لہٰذا بغیر کسی توقف کے میری گاڑی میں بیٹھ جاتے تھے. میرے کئی بے تکلف دوست تو میری گاڑی کو ازراہ تفنن لوکل بس یا وین سے بھی تشبیہ دیتے تھے.
 
خیر میرے اچانک گاڑی روک دینے اور بےتکلفانہ انداز تخاطب سے وہ شخص بھی ٹھٹک کر رک گیا. غور سے دیکھنے پر اس کا چہرہ مجھے بالکل اجنبی سا لگا. اس کے وضع و قطع اور حلیے سے ناداری نمایاں تھی مجھے تھوڑا سا اندازہ ہوا کہ وہ بروری میں شاید نووارد تھا. میری بات سن کر وہ کچھ دیر حیرت ذدہ کھڑا بے یقینی سے مجھے تکنے لگا ۔ مخمصے اور شک و شبے کے ملے جلے تاثرات سے مجھے دیکھنے کے بعد ذرا سے کہنے لگا-
 
“نہیں مجھے مدد کی ضرورت نہیں. میں خود جاسکتا ہوں.”
 
نجانے کیا سوچ کر میں نے اسے دوبارہ قائل کرنے کی ناکام کوشش کی-
 
دیکھو بھائی میں ویسے بھی اسی طرف جارہا ہوں جس طرف تم جارہے ہو. تو اس میں ہرج ہی کیا ہے تمہیں بھی راستے میں اتار دونگا۔
 
یہ سن کر وہ پھر رک گیا اور اسی کرخت اور روکھے لہجے میں پوچھا-
“اچھا، یہ بتاؤ تم کہاں جارہے ہو؟”
 
اس کے اس سوال در سوال کے جواب میں بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ میں تو سریاب روڈ کی طرف جا رہا ہوں۔
 
“نہیں میں اس طرف نہیں جارہا مجھے کوئٹہ شہر کے نزدیک کچھ کام ہے”
 
یہ کہتے ہوے دوبارہ روانہ ہونے لگا جیسے مجھ سے جان چھڑارہا ہو-
 
اتنے میں مجھے بھی اپنا شہر والا کام یاد آگیا. انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت میں نے سوچا چلو اسی بہانے اسے شہر اتار کر اور اپنا کام نمٹا کر تسلی سے تھوڑی دیر بعد سریاب روڈ جاؤں گا. لہٰذا اسے دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا-
“دراصل مجھے بھی ایک دوسرے ضروری کام کے سلسلے میں شہر کی طرف جانا تھا، تمہیں وہاں اتار کر……….”
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک وہ شخص طیش میں آگیا اور کسی قدر غصے سے کہنے لگا-
 
“اچھا…… ابھی تو تم سریاب روڈ کی طرف جارہے تھے، جب میں نے تمہیں شہر جانے کا بتایا تو تمہیں بھی شہر میں کوئی ضروری کام ياد آگیا. تم ہو کون اور چاہتے کیا ہو؟”
 
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک اجنبی کی مدد کی خواہش اور جواب میں اس کا روکھا رویہ دیکھ کر طبعیت کچھ مضمحل ہوگئی۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ کر میں آگے چل دیا اور ساتھ ساتھ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ آخر اس شخص کی بے اعتباری اور اس کے نتیجے میں بد اخلاقی کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ چند لمحے اسی سوچ میں غلطاں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں ابھی تک اس سارے معاملے کو اپنے فکری زاویے سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مجھے مسئلے کو اس شخص کے زاویہ فکر سے بھی جانچنے کی ضرورت ہے۔
 
اس شخص کے بارے میں اتنی جلدی کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے ذرا یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں اس کا منفی رویہ اس کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات سے تو نہیں۔ نجانے اس نے ان لوگوں کے ہاتھوں کتنی مرتبہ دھوکہ کھایا ہوگا جس پر اسے اندھا اعتماد اور اعتبار تھا ؟ ضرور جھوٹ، مکر و فریب سے پالا پڑا ہوگا تبھی تو انسانوں سے اسکا اعتبار اٹھ گیا ہے۔
 
کہنے کو تو یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن اسے بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ یا کہانی خواہ کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس سے سبق آموزی کا پہلو نکل سکتا ہے بشرطیکہ آپ کھلے دماع اور ذہن سے اسکا مشاہدہ اور تجزیہ کریں۔ یوں تو ہر معاشرے میں ہر قسم کے سماجی رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں مثبت تو کہیں منفی۔ ہمارا طرز معاشرت اور تعلیم و تریت ہمارے اجتماعی سماجی رویوں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ رویے کسے بھی معاشرے کا معیار متعیں کرتے ہیں۔ اس واقعے میں ہمارے اس اجتماعی سماجی رویے طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ کسی مسئلے سے صورتحال میں کسی بھی فرد یا افراد، واقعہ یا مسئلے کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے میں بڑی عجلت اور جلدبازی سے کام لیتے ہیں. ہمیں کسی بھی مسئلے کی پیچیدگیوں اور نزاکتوں کو پوری طرح سمجھنے کی سعی کرنے کی بجائے نتیجے پر پہنچے کی جلدی ہوتی ہے کیونکہ انسان ہونے کے ناطے ہم وہی بات سمجھتے ہے جو سمجھنا چاہتے ہیں. حالانکہ کسی بھی قسم کے مسئلے یا تنازعات کی صورت میں ہم اگر غور وفکر کے بعد اس معاملے کو فریق مخالف کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں تو زاویہ نگاہ کی ذرا سی تبدیلی اور نظر ثانی سے ہم کسی بھی مسئلے کی تہہ تک بہتر انداز سے پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.
جاوید نادری
273 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *