پاکستان کا نظام تعلیم اور ہماری ذمہ داری ۔۔۔۔میر افضل خان طوری

لفظ تعلیم عربی زبان کے باب تفعیل سے مشتق ہے۔ اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی عمل کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مادہ ع ل م ہے۔ یہ وہی مادہ ہے جو علم کا ہے۔ یعنی علم حاصل کرنے کے تسلسل کو تعلیم کہتے ہیں۔
آج ہمیں جو ممالک اور اقوام دنیا میں سب سے آگے نظر آ رہی ہیں ان کی سب سے اہم اور بڑی وجہ اپنے ممالک میں موثر نظام تعلیم کا نفاذ ہے۔ ان ممالک میں آپ ہر وقت دنیا کا جدید ترین لیٹریچر موجود پائیں گے۔ وہاں پر آپ کو بہترین لائبریریوں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا۔ ان ممالک کے ہر شہر میں بہترین سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لیبارٹریز ہوں گی۔ دنیا کی ہر زبان میں شائع ہونے والی جدید کتابوں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہوگا۔
یورپ ، امریکہ ، چائینا اور جاپان کو گالیاں دینا بہت آسان ہے مگر وہاں کے نظام درس و تدریس کو سمجھنا بہت دشوار۔ ان ممالک کے تعلیمی نظام کو سٹڈی کرنے اور انکی بے مثال علمی ترقی پر غور کرنے کے لئے شاید ہم جیسے ترقی پزیر ممالک کے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لئے ہم ان کو ایک یا دو گالیاں دے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ اینڈریو کارنیگی جیسی شخصیات نے اپنی ساری دولت لٹا کر پورے امریکہ میں سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لائبریریاں قائم کی تھیں۔ ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کہ یورپ میں کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی علمی درسگاہیں کب اور کس نے قائم کیں؟ ہم نے کبھی جاپان اور چین کے نظام تعلیم کو پڑھنا اور سمجھنا گوارا نہیں کیا۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں انسان سے فرماتا ہے کہ ” کیا انھوں نے دنیا کی سیر نہیں کی کہ ان کو وہ دل میسر آجاتا جس کے ذریعے وہ تعقل کرتے اور وہ کان میسر آتے جن کے ذریعے وہ سن پاتے”۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے ان کے نظام تعلیم کو بار بار کفر کے نظام سے تعبیر کرکے ٹھکرا دیا اور ان پر کبھی غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ہم نے کبھی اپنے ملکی تعلیمی نظام کو ان کے برابر لانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے ہم پلہ بہترین اسلامی تعلیمی نظام کو قائم کرسکتے تھے۔ مگر ہم ایسا کیوں کریں گے۔ ہم نے تو ساری دنیا سے پیچھے رہنے کی قسم کھائی ہے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں پہلے یورپ، امریکہ، جاپان اور چین کے نظام تعلیم کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر جب کبھی ہمارے کسی بچے کو وہاں کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے تو پھر اس کو اپنی سب سے بڑی سعادت اور خوشبختی بھی سمجھتے ہیں۔ جس جس شخصیت نے بھی وہاں کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے وہ آج بھی ہمارے ہیرو ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
کاش کہ ہمارے ملک میں بھی انڈریو کارنیگی جیسی شخصیات پیدا ہوں کہ وہ اپنی دولت سے پاکستان کے ہر شہر میں بہترین سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور جدید علوم سے آراستہ لائبرئیریاں قائم کرے۔ ہمارے پاس بھی علم اور کتاب کے قدردان پیدا ہوں۔ ہمارے ہاں بھی سوچنے اور پرسنل ڈیویلپمنٹ پر ہزاورں سمینار منعقد ہوتے ہوں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قوم کو جعلی عاملوں اور جعلی پیروں سے فرست ہی نہیں مل رہی۔ ہماری قوم اپنی ذاتی اور ملکی ترقی کے لئے کسی بہت بڑے معجزے کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے کسی جعلی عامل کے ہاتھوں میں اپنا مستقبل ڈھونڈ رہی ہے۔
 آج کی جدید دنیا میں انسانی ذہانت کو دریافت کرنے کیلئے سائنسی مراکز میں ریسرچ جاری ہے۔ سوشل انٹیلیجنس، ایموشنل انٹیلیجنس اور ملٹیپل انٹیلیجنس کی بات ہو رہی ہے۔ ان موضوعات پر سینکڑوں کتابیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ لکھی اور پڑھی جانیوالی کتابیں جعلی عاملوں اور جادوگروں کی ہیں۔
 آج بھی ہمارا نوجوان قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ اس کو پتہ ہی نہیں کہ اس نے کہاں جانا ہے؟ کس فیلڈ کو سلیکٹ کرنا ہے؟ اس کا مائنڈسیٹ کس جانب مائل ہے؟ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ جیسے اہم امور کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔
 ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کی سمجاجی ذہانت کی آبیاری نہیں کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد بھی انسانیت سے عاری ہوتے ہیں۔ ہم ڈاکٹرز، انجنیئرز، وکیل وغیرہ تو بن جاتے ہیں مگر انسان بننے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی یافتہ افراد میں بھی وحشی درندوں جیسی صفات پائی جاتی ہیں۔
 ہمارے استاد کو فزکس، کیمسٹری اور بایو وغیرہ تو آتا ہے مگر پڑھانا نہیں آتا۔ ہمارے اکثر اساتذہ کرام کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کو سبق کیسے سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔ ہمارا استاد اعلی اخلاقی اقدار سے عاری ہے۔ ہمارے اساتذہ شاہین پیدا کرنے کی بجائے کوے پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے استاد کو نہیں پتا کہ بچوں کو سبق پڑھانے سے پہلے تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ استاد کی کردار سازی پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق انسان کے الفاظ کا اثر صرف 7 فیصد ہوتا ہے۔ باقی 93 فیصد اس کے لہجے اور باڈی لینگویج کا اثر ہوتا ہے۔ استاد کا لہجہ ، الفاظ کی ادائیگی اور لباس بچوں کے سیکھنے پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب تک قابل، تربیت یافتہ اور باکردار اساتذہ ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنتے، ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔
 اب بحیثیت قوم ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کو درست سمت پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم ان کو اچھی تعلیم اور تربیت فراہم کریں گے تو بہت جلد مملکت پاکستان بھی ترقی یافتہ مملک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔
میر افضل خان طوری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *