نذر اللہ، نیازِ حسین(ع) ۔۔۔ فدا حسین

*
سفید پوش ہزارہ گی معاشرے کی معاشی حالت روزبروز نہایت پتلی ہوتی جارہی ہے۔  بظاہر سفیدپوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اور اپنی خودداری کو گھائل کیے بغیر ہم کسی کے سامنے اپنا دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ اس نوعیت کی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خاص طور پر  جو زمانے پر افشائے راز ہوچکی، میری اس بہن کی غربت و بیچارگی ہے جسے چند سال قبل کرائے کی عدم ادائیگی پر مالک مکان نے شاید دھکے دے کر گھر سے نکال دیا تھا اور اس بیچاری نے اپنے ننھے بچوں کے ساتھ حیدرعلی سٹریٹ کے چوراہے پر جھاڑے کی لمبی سرد راتیں جاگ جاگ کر، اپنے بچوں کو دلاسے دے دے کر اور ہزارگی معاشرے کے منہ پر زناٹے دار طمانچے کس کس کر گذاری تھیں……”کچھ یاد آ رہاہے کہ نہیں!؟
 
چلیں! ……چونکہ ہماری یادداشت نہایت ضعیف اور ہماری بے حسی عروج پر ہے، چنانچہ میں آپ کو پچھلے ہفتے کی نزدیک ترین وہ دردناک حقیقت یاد دلاتا ہوں جس نے ہمارے مکدر چہروں کی اس وقت نقاب کشائی کی، جب میری دوسری بے سروساماں و بے خانماں بہن نے بچوں سمیت سرینا ہوٹل کے چوک پر بے یارومددگار کئی کٹھن راتیں بِتائیں؛……”یہ تو یاد ہوگا، ناں“
 
میں تو اسے ظالم اور بے حس معاشرے کے خلاف اپنی بے خانماں بہنوں کا غیرموثر احتجاجی دھرنا تسلیم کرتا ہوں۔ جنہوں نے اپنی بے کسی سے ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تھی……”مگر میری نظر میں وہ اس میں ناکام رہے“
 
خامہ فرسا کے غریب خانے سے گذشتہ تیس پینتیس سالوں سے ہر آٹھویں محرم کو علم برآمد ہوتا آرہا ہے۔ جس میں چار سو عزادارانِ امام حسین(ع) کے لیے نیاز میں حسب توفیق کبھی مٹن بریانی تو کبھی چکن بریانی کی دیگیں پکتی ہیں۔ مگر اس سال معاشرے کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے میں نے کچھ اور سوچا۔ کہ کیوں نہ مخصوص نیاز کی یہ رقم کسی ایک ایسے  نادار خاندان کو دی جائے جو اس کے  پورے سال کے لیے کافی ہو؟ تب میں نے حساب لگایا کہ آٹھویں محرم کو ہمارے ہاں چار سو افراد بشمول وہ عزادار جو پہلے معلوم نہیں کتنے اعلام مومنین کے گھروں سے برآمد کرکے ان کی نذرونیاز سے مستفیض ہو چکے ہوتے ہیں، تشریف لاتے ہیں۔ پھر میں نے بریانی کا ”دال اور سبزی“ سے موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ دال اور سبزی کی نسبت بریانی پر تین گنا زیادہ خرچہ آتا ہے۔  یعنی ان پیسوں سے بارہ سو (1200) افراد کوایک وقت کا سادہ کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔ اب میں نے بارہ سو کو سال کے تین سو پینسٹھ (365) دنوں پر تقسیم کیا تو پتہ چلا کہ اس رقم سے بچوں سمیت چار افراد پر مشتمل خاندان کے لیے تین سے چار مہینوں تک روزانہ تین وقت کے کھانے کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔  پھر میں نے ویسا ہی کیا جیسا سوچا تھا۔ یعنی وہ رقم میں نے ایک بے کفیل خاندان کے حوالے کر دی۔ میری کوشش ہوگی کہ بشرطِ توفیق اس عمل کی ہر سال تکرار کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تین یا چار بندے چاہیں تو مل کر اس طریقے پر عمل کرکے پورے سال کے لیے کسی ایک بے سہارا خاندان کے کھانے کا بندوبست کر سکتے ہیں۔
”اب سوال یہ بنتا ہے، کیا اس طور و طریق پر میری نیاز قبول ہوئی ہوگی……کہ نہیں؟“ 
فدا حسین
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *