ایف اے ٹی ایف اور پاکستان ۔۔۔ افتخار حسین تاج

*
حالیہ دنوں پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے کےحوالے سے مزید کام کرنا ہوگا وگرنہ پاکستان کا نام اگلے سال فروری میں گرے سے بلیک لسٹ میں شامل ہوگا۔
بنیادی طور 1989 میں گروپ آف سیون کے ممالک نے بین الااقوامی حالات و واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی تنظیم بنائی تھی جس کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے اور منی لانڈرنگ جیسے کاموں پر مکمل قابو پانا تھا، جسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کانام دیا گیا۔ اس ٹاسک فورس کا کام دنیا بھر میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ ،منی لانڈنگ اور ٹیکس ایمنسٹی پر مضبوط نظر رکھنا ہے تاکہ بعد میں وہ بین لااقوامی امن کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اب تک اس تنظیم کے ممبران کی کل تعداد 39 ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ ان کے ہاں دہشت گردوں کی مالی معاونت، ان کی سرپرستی اور بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی جا رہی ہو۔ ایسے ممالک کو پہلے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف ان کے خاتمے کے حوالے سے موثر اقدامات اُٹھائیں اور مثبت کاروائی نہ کرنے پر ایف اے ٹی ایف ان ممالک کو بلیک لسٹ میں شامل کرتی ہے جس کے بعد ان پر شدید بین الااقوامی سیاسی، سماجی اور معاشی پابندیا ں لاگو کی جاتی ہیں۔
پاکستان افغان جہاد کے بعد دہشت گردوں کے لیے ایک بہترین سرزمین بن چکاتھا اور ملک کے اکثر علاقوں میں ان دہشت گرد تنظیموں نے اپنے قدم جما لیے تھے جہا ں وہ بغیر کسی خوف و خطر اپنی تربیتی مشقیں، لشکر سازی، فنڈ ریزنگ اور اپنی طرز کے نظام کو متعارف کرنے میں مصروف عمل تھیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے ایک زخمِ ناسور کی شکل اختیار کر گئی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ 2012 میں پاکستان کی گرے لسٹ میں انٹری کے بعد ملک کی سول اورعسکری قیادت نے ان کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف، ان کی مالی معاونت، تربیت گاہوں اور منی لانڈنگ کے خاتمے کے لیے موثر کاروائی کا فیصلہ کیا جس کے بعد ان تنظیموں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا جو کافی حد تک کامیاب رہا، جس کی بنا پر 2015 میں پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سےخارج کر دیا گیا۔
پاکستان جسے کئی عرصے سے بد امنی، لاقانونیت، بیروزگاری، دہشت گردی، سماجی بدحالی اور غیر مستحکم معاشی مسائل کا سامنا ہے، کو 2018 میں دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا جو اب تک اس لسٹ میں موجود ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس جو پیرس میں منعقد ہوا، پاکستان نے اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا اوربتایا کہ حکومتِ پاکستان اس مسلئہ کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے جس پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی کاوشوں کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت، محفوظ پناہ گاہوں اور منی لانڈرنگ کے خاتمے پر مزید اصرار کیا۔ اس سلسلے میں تنظیم نے پاکستان کو مزید چار مہینے کی مہلت دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ فروری 2020 تک ملک سے ان عناصر کا مکمل خاتمہ کرے۔
اب پاکستان کے پاس فروری تک وقت ہے کہ وہ ان تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بِلا کسی تعصب کے بھر پور کاروائی کرکے ان کا مکمل خاتمہ کرے تاکہ وہ بعد میں دوبارہ ملک کے لیے درد سر کا باعث نہ بنیں۔ کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے اگلے سال کے اجلاس میں پاکستان کو ان ہدایتوں پر عمل نہ کرنے پر (ڈومور) کا نہیں کہا جائے گا بلکہ پاکستان کو بھی ایران اور شمالی کوریا کی طرح بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا جو پاکستان کےلیے کسی حوالے سے نیک شکون نہیں ہوگا۔ بلیک لسٹ میں جانے سے پاکستان کو صرف اقتصادی، سفارتی اور معاشی دھچکا ہی نہیں لگے گا بلکہ پاکستان کے بین لاقوامی مالیاتی اداروں سے تعلقات، کریڈٹ ریٹنک، تجارت اور مالی ساکھ بھی کافی متاثر ہو گی۔ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو نیک نیتی سے ایف اے ٹی ایف کی دی گئی ہدایتوں پر سختی سے عمل کرنا ہو گا اور ان دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے حوالے سے ہر وہ ممکنہ قدم اٹھانا ہوگا جو پاکستان کو بلیک کے بجائے وائٹ یا گرین لسٹ میں شامل کرنے کا باعث بن سکے۔
افتخار حسین تاج
Latest posts by افتخار حسین تاج (see all)
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *