جائیں تو جائیں کہاں؟ ۔۔۔ عباس حیدر

میرے کچھ دوست مجھے ہمیشہ دکان میں بیٹھے رہنے کا طعنہ دیتے ہیں۔ خود تو بڑے سخی لوگ ہیں کبھی سنوکر کلب اور کبھی گیمنگ زون میں جاتے ہیں۔ مجھے ان سے اور ان کو مجھ سے کئی باتوں پہ اختلاف ہوتا رہتاہے۔ ہم بعض اوقات ایک دوسرے کی باتوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ کبھی وہ میری بات مان لیتے ہیں تو کبھی میں ان کی بات مان لیتا ہوں۔ انہی دوستوں میں سے ایک دوست ایک بار کسی سنوکر کلب میں بیس ہزار روپے( ۲۰۰۰۰) ہار گیا۔ جب میری دکان پر آیا، ہمیشہ کی طرح کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھ سے ملا اور ہمیشہ کی طرح روزمرہ سیاست اور کام کاج کے بارے میں مجھ سے گفتگو کرنے لگا۔ اتنے میں دوسرا دوست بھی آگیا۔وہ جیسے ہی دکان میں داخل ہوا سلام و دعا کے بعد پہلے والے دوست کی طرف بڑھا اور کہنے لگا

“زوئی میں نے سنا ہے تم نے سنوکر کلب میں بیس ہزار روپے ہارے ہیں کیا یہ سچ ہے؟”

دوست نے کہا “جی ہاں یہ سچ ہے”

میں زور زور سے قہقہے لگا کر ہنسنے لگا تو وہ دونوں حیران ہوگئے کہ اسے کیا ہوا ہے! میں ہمیشہ ان کو سنوکر کلب اور گیمنگ زون جانے سے منع کرتا ہوں۔ انہوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا کہ میری بات نہیں مانو گے تو ایسے ہی نقصان اٹھاتے رہو گے۔
جواب میں دوست نے ہنستے ہوئے کہا کہ جائیں بھی تو کہاں جائیں؟ سنوکر کلب میں ہمیشہ اسطرح نہیں ہوتا بعض اوقات شوقین لوگ پیسوں کی خاطر کھیل لیتے ہیں۔ یار اگر تھڑے پر بیٹھ جائیں تو لوگ چرسی، موالی اور پتہ نہیں کیا کیا کہیں گے۔ ایک بھی مثبت جملہ سننے کو نہیں ملے گا۔ سنوکر کلب یا گیمنگ زون نہ جائیں تو اور کہاں جائیں!؟ پارک تو ہزارہ ٹاون میں ہے ہی نہیں جہاں پر ہم کچھ گھنٹے تفریح کرسکیں۔ اس کی بات کاٹتے ہوئے دوسرے دوست نے کہا “یار تین پرائیویٹ پارکس تو ہیں، اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ پہلے والے دوست نے ہنستے ہوئے کہا کہ ان پارکوں میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم آزادانہ بات چیت کرسکیں۔ وہ پارکس بہت چھوٹے اور فیملی پارکس ہیں۔

کبھی ہم نے اپنے بزرگوں سے پارک کے بارے میں پوچھا ہی نہیں اور بزرگوں نے بھی مکان لیتے ہوئے یا زمیں خریدتے وقت پراپرٹی مالکان سے پارک، سکول ،کالج ، لائبریری، بنیادی مرکز صحت اور ہسپتال کے بارے نہیں پوچھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بزرگوں سے گلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ ان پڑھ تھے۔ چلو مان لیا کہ وہ ان پڑھ تھے۔ لیکن موجودہ نئی نسل تو ان پڑھ نہیں۔ ہم سب کو اکھٹے ہوکر ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم ٹریفک میں پھنسی ہوئی گاڑی بغیر کسی نقصان کے نکال لیتے ہیں۔
جب ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تو ہماری تنقید کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ تنقید اس وقت اچھی لگتی ہے جب ہم خود قربانی کے لئے تیار ہوں اور مسائل کے حل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ ہماری زندگی کے تجربات میں ایک تلخ تجربہ یہ بھی ہے الیکشن کے دنوں میں ہم شب و روز اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہمارا من پسند امیدوار جیت جائے۔ پھر جب وہ جیت جاتا ہے تو ایک یا دو سال گزر جانے کے بعد ہم اس سے اتنی نفرت کرنے لگتے ہیں جتنی ان سے ہم الیکشن کے دنوں میں محبت کرتے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہفتے یا مہینے میں ایک آدھ بار ایک وفد بنا کر اس کامیاب امیدوار سے ملیں اور ان سے علاقے کے مسائل پر گفتگو کریں۔ ایسا کرنے سے ہمارے منتخب نمائندے بھی حرکت میں آجائیں گے اور یوں ہمارے مسائل کے حل کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔

عباس حیدر
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *