سمر سسٹرز سکالرشپ، امریکہ میں چند روز۔ دوسرا حصہ ۔۔۔ شمامہ حسن

سمر سسٹرز سکالرشپ، امریکہ میں چند روز

شمامہ حسن

دوسرا حصہ
سفر اور سکالرشپ سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنے کی غرض سے اورینٹیشن پروگرام کا مرحلہ بھی گزر گیا تو سارے شرکا دوبارہ گھروں کو لوٹ گئے۔ اگلا مرحلہ ویزے کے حصول کا تھا جس کے لیے تمام کامیاب طالبات سے متعلقہ دستاویزات مانگی گئیں۔ پاسپورٹ ہم پہلے ہی جمع کرا چکے تھے۔ میرے لیے بارہ صفحات کا ویزہ فارم بھیجا گیا جس میں گھر کے پتے سے لیکر سکول سے متعلق ڈھیر سارے سوالات پوچھے گئے تھے۔ اسی طرح فارم میں میرے اور میری فیملی سے متعلق بھی بہت سارے سوالات موجود تھے جن میں اس سے قبل بیرون ملک ہمارے سفر کی تفصیلات بھی مانگی گئی تھیں۔ فارم مکمل ہوگیا تو میں نے اپنی تصویر بھی اتروالی اور دیگر اسناد کے ساتھ کراچی بھیج دی۔ دو دن گزرے ہوں گے جب ای میل کے ذریعے مجھے ہدایت کی گئی کہ میں اپنی نئی تصویر بھیجوں کیونکہ میری وہ تصویر ویزے کی شرائط کی شرائط پر پورا نہیں اترتی۔ میں نے دوسری بار تصویر اتروا کر بھیج دی لیکن اس پر بھی اعتراض ہوا۔ بالاخر ڈیڈ لائن کے عین آخری دن میری تیسری تصویر کو اوکے کردیا گیا۔
یہ مرحلہ بھی کسی طرح اختتام کو پہنچا تو کچھ دنوں بعد تمام کامیاب طالبات کو ویزہ انٹرویو کے لیے ایک بار پھر کراچی آنے کی دعوت دی گئی۔ اس بار بھی آنے جانے اور قیام و طعام کے تمام اخراجات منتظمین کے ذمے تھے۔ کراچی میں قائم امریکن قونصلیٹ میں انٹرویو کے دوران مجھ سے بہت زیادہ سوالات نہیں پوچھے گئے. یوں یہ مرحلہ بھی بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔
اب ہمیں سفر کی تیاریاں کرنی تھیں اور اس دن کا انتظار کرنا تھا جب ہم دو ہفتوں کے لیے پاکستان کو الوداع کہتے۔ اس دوران بھی ہمیں ہمارے پروگرام اور اس میں ہونے والی چھوٹی موٹی تبدیلیوں سے متعلق پوری طرح آگاہ رکھا گیا اور ہمیں NSLC کی انتظامیہ کی طرف سے مسلسل اپ ڈیٹس ملتی رہیں۔ وہ لمحہ میرے لیے بہت خوشی کا تھا جب NSLC کی انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے ای میل میں کہا گیا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آپ اس کانفرنس میں شرکت کرنے آرہی ہیں۔
ہمارے سفر کی تاریخ جوں جوں نزدیک آرہی تھی میری بے چینی میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔ سفر کے آغاز سے ایک ہفتے قبل ہی ہمیں ہماری رفت و آمد کی ٹکٹیں فراہم کردی گئیں ساتھ ہی ہمیں اس سفر کے روٹ، دورانیے، سامان کے مقررہ وزن اور مختلف مقامات پر مختصر سٹے سے متعلق بھی بتایا گیا تاکہ ہم ذہنی طور پر تیار رہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کی خصوصی طور پر تاکید کی گئی کہ ہم اپنے سرپرست سے ایک اتھاریٹی لیٹر بھی لکھوا کر لے کر آئیں جس میں ہمیں اپنے Mentors کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہو تاکہ ایئرپورٹ پر ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کراچی سے ہماری پرواز 9 جولائی کے لیے تھی۔ میں 8 جولائی کو کراچی پہنچی۔ ایک رات کراچی میں قیام کے بعد میں اپنی دیگر ہمسفر طالبات اور مینٹورز کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچی تو ہمیں امیگریشن اور دیگر جانچ پڑتال کے طویل مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اس فلائیٹ میں میرے ساتھ دو نگران خواتین کے علاوہ اٹھارہ دیگر طالبات تھیں جبکہ چھ طالبات ہم سے پہلے ہی کسی اور امریکی شہر کی طرف پرواز کر چکی تھیں۔ پرواز سے قبل تمام طالبات کو بطور پاکٹ منی 114 امریکی ڈالرز دیئے گئے تاکہ اگر دوران سفر انہیں کھانے پینے سمیت کسی چیز کی ضرورت پڑے تو خود ہی خرید سکیں۔ 

وہ 10 جولائی کی صبح تھی جب ہمارا جہاز واشنگٹن کے ڈلیس (Dulles) انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا۔ میں جہاز سے باہر نکلی تو میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ایئرپورٹ کے لاونج میں پہنچی تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر دو قطاریں بنی ہوئیں تھیں جن میں کھڑے مسافر امیگریشن یا دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ ایک قطار خاص امریکی شہریوں کی تھی جبکہ دوسری قطار میں دیگر ملکوں سے آئے مسافر کھڑے تھے۔ ہم بھی اسی قطار میں شامل ہوگئے۔ امیگریشن کا مرحلہ گزر گیا تو ہم سب اپنا سامان لینے پہنچے۔ اگرچہ ہمیں کافی دیر ہوگئی تھی لیکن یہ دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے سامان کو بے دردی سے کہیں پھینکنے کے بجائے انہیں ایک طرف بڑے سلیقے سے رکھا گیا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے کئی خوشگوار باتیں نوٹ کیں۔ لوگ تمام کام ایک خاص تہذیب اور سلیقے سے انجام دے رہے تھے۔ کوئی دھکم پیل نہیں ہورہی تھی۔ سب قطار بنا کر کھڑے تھے۔ امیگریشن کا عملہ انتہائی خوش اخلاقی سے اپنا کام انجام دے رہا تھا اور مسافروں سے سوال پوچھتے وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پٹخنے اور پھینکنے کے بجائے سامان کی منتقلی میں بھی بہت احتیاط سے کام لیا جارہا تھا جنہیں دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اب میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہوں۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر مجھے پہلی نگاہ میں جو بات سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہ تھی کہ میں نے وہاں لوگوں کو بہت حد تک متحمل مزاج پایا۔ حالانکہ میں نے سن رکھا تھا کہ امریکہ کے لوگ مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن میرا پہلا تجربہ ان تمام باتوں کی نفی کر رہا تھا۔ میں امیگریشن کی قطار میں ایک ایسے حلیے میں کھڑی تھی کہ میں نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی جبکہ اپنے بالوں کو سکارف میں چھپا رکھا تھا۔ لیکن مجھے کسی مرحلے پر ایسا احساس نہیں ہوا کہ میرے لباس اور سکارف کی وجہ سے میرے ساتھ دوسروں سے مختلف سلوک کیا گیا ہو یا میرے ساتھ بات کرتے ہوئے کسی کے رویے میں کسی قسم کی منفی تبدیلی آئی ہو۔ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے اور سامان کی وصولی کے بعد ہم ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون کو اپنا منتظر پایا۔ وہ سمر سسٹرز سکالر شپ پروگرام کی پروگرام مینیجر تھی جنہوں نے بڑی خوشدلی سے ہمارا استقبال کیا۔ پانچ منٹ کے بعد وہاں ایک شٹل بس آ کر رکی جس کا بندوبست پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ بس میں بیٹھ کر ہم امریکن یونیورسٹی کی طرف چل پڑے۔ میں تو راستے بھر کھڑکی سے باہر دکھائی دینے والے مناظر میں ہی کھوئی رہی۔ صاف ستھری کشادہ سڑکیں، ہر کچھ قدم بعد سڑک کنارے رکھے ڈسٹ بن اور سڑک کے دونوں اطراف سرسبز درختوں کی قطاریں۔ میں انہی مناظر میں کھوئی ہوئی تھی جب مجھے دور سڑک کنارے کچھ لوگ کھڑے نظر آئے۔ وہ یقیناً سڑک پار کرنے کی نیت سے وہاں کھڑے تھے لیکن باوجود اس کے کہ اس وقت ان کے سامنے سڑک پر کوئی گاڑی موجود نہیں تھی، وہ آرام سے اپنی جگہ کھڑے ٹریفک لائٹس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس لمحے مجھے بھی سڑک کے پار لگا وہ ڈبہ نظر آگیا جس پر ایک ہتھیلی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ڈبے سے لال رنگ کی روشنی نکل رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ فی الحال سڑک پار کرنا منع ہے۔ ہماری بس نزدیک پہنچی تو ٹریفک لائٹس بھی تبدیل ہونے لگیں۔ اب سڑک کے اس پار ہتھیلی والا لال سائن بجھ چکا تھا جبکہ ایک سبز رنگ کا سائن روشن ہوچکا تھا جس پر ایک چلتے آدمی کا خاکہ بنا ہوا تھا۔ ہماری بس رک گئی اور سڑک کنارے کھڑے لوگ زیبرا کراسنگ والے نشان پر چل کر سڑک پار کرنے لگے۔ یہ میرے لیے بڑا حیران کن تجربہ تھا۔ سڑک پر نہ تو مسلح پولیس کھڑی تھی نہ ہی زور زور سے سیٹیاں بجانے والا ٹریفک کا کوئی اہلکار۔ اس کے باوجود گاڑیاں اور پیدل چلنے والے لوگ بڑے ہی منظم انداز میں اپنا اپنا سفر طے کر رہے تھے۔
بس آدھے گھنٹے تک مختلف سڑکوں پر دوڑتے رہنے کے بعد بالاخر امریکن یونیورسٹی پہنچی تو ہم اتر کر ہاسٹل کی طرف جانے لگے جو چھٹیوں کی وجہ سے خالی پڑی تھی۔ ہاسٹل کی عمارت چھ منزلہ تھی جس کا اخری فلور ہمارے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔

شمامہ حسن
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *