راشومن افیکٹ ( Rashomon Effect) ۔۔۔ طلا چنگیزی

راشومن افیکٹ  ( Rashomon Effect)

طلا چنگیزی

سچ کیا ہے؟ سچائی کی تعریف اگر آپ کسی سے پوچھیں تو یقینا اس کا جواب ہوگا کہ جو بات حقیقت پر مبنی، معقول اور اصلیت سے قریب ہو۔ لیکن یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ بات واقعہ یا مظہر جسے میں حقیقت سمجھتا ہوں کسی دوسرے یا تیسرے شخص کے لیے بھی وہی معنی رکھتا ہے۔ احتمال قوی ہے کہ اس کا امکان بہت ہی کم ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر انسان ہر واقعے، بات یا مظہر کو اپنے مخصوص نقطہ نظر اور فکری زاویے سے دیکھنے کا عادی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے جغرافیائی پس منظر، تعلیم، رویہ اور ذہنی رجحانات۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ہی واقعے کے کئی چشم دید گواہان نے بعد میں اسی واقعے کی مختلف انداز میں تشریح پیش کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان بیانات میں تضاد کی وجہ صرف یہ بھی نہیں تھی کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہے تھے۔ اس مظہر کو عرف عام میں راشومن افیکٹ ( Rashomon Effect ) کہتے ہیں۔ یہ دلچسپ عمل اس وقت پیش آتا ہے جب ایک پیچیدہ واقعے کا مشاہدہ کرنے والے کئی افراد بعد میں متضاد انداز میں اس کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات ریکارڈ پر ہیں جب دن کی روشنی میں کسی ایک حادثے کا مشاہدہ کرتے ہوئے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بعد میں اتھاریٹیز کے سامنے جب اپنا بیان ریکارڈ کروایا تو کوئی ایک بیان بھی دوسرے سے مماثلت یا مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

یہ اصطلاح دراصل 1950 میں بننے والی ایک جاپانی فلم سے اخذ کی گئی ہے جس میں ایک ہی واقعے کو چار افراد چار مختلف اور متضاد نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہم جب بھی کسی مبہم یا پیچیدہ صورتحال یا واقعے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اسے اپنے مخصوص نقطہ نظر یا تناظر سے دیکھنے اور اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے کی لاشعوری کوشش کرتے ہیں جو ایک عام اور نارمل انسانی رؤیہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مختلف افراد میں اختلاف رائے کی صورت میں کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کون غلط بیانی سے کام لے رہا تھا۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حالات کو ظاہری تناسب سے دیکھنے میں کبھی کبھار جزئیات دھوکا دے جاتی ہیں یا ہمارے مشاہدے میں بھی نقص ہوسکتا ہے یا پھر یہ کہ ہماری یاداشت بھی دھوکا دے سکتی ہے۔ بہرحال کسی حد تک یہ طے ہے کہ مشاہدات میں کسی بھی فرد کے مخصوص نقطہ نظر یا فکری تناظر کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

اس سے ہمیں یہ نتیجہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہر قسم کے مباحث میں الجھنے سے پہلے ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جس بیان، دلیل یا بات کو ہم حقیقت کے قریب سمجھتے ہیں یا جو اظہار بیان ہمارے لئے سچائی کا درجہ رکھتی ہے ضروری نہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس سے متفق ہوں۔ اختلاف رائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ صرف ہمارا نقطہ نظر ہی سچائی پر مبنی اور ہر قسم کی غلطیوں سے مبرا ہے جبکہ باقی فکری زاویے ناقابلِ اعتبار اور مشکوک ہیں۔ یہ سب نقطہ نظر کے کرشمے اور تناظر کا کمال بھی ہوسکتا ہے۔ جس کے پیچھے انسانی رویے، تجربات، مشاہدات، رجحانات اور افراد کا منفرد پس منظر بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم یہ حقیقت مدنظر رکھیں تو نہ صرف ہمارے مابین کئی قسم کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے بلکہ اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد مزگی سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

“So let’s agree to disagree”

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *