عامل بابا … طلا چنگیزی

عامل بابا

طلا چنگیزی

رات کا شاید کوئی آخری پہر ہوگا جب اچانک ایک ہولناک چیخ, خاموشی کی دبیز چادر کو چیرتی ہوئی ابھری اور تاریک گلی کے سناٹے میں دوبارہ کہیں ڈوب گئی. 

مائی حلیمہ گہری نیند سے ہڑبڑا کر بستر پر اُٹھ بیٹھی اور کمرے کے گھپ اندھیرے میں ایک ہاتھ سےآنکھیں ملتے اور دوسرے سے دیوار ٹٹولتے ہوئے جھٹ سے کمرے کی بتی جلادی. پاس ہی چھ سالہ عدنان اپنے بستر پر لیٹا، اپنی بے ربط سانسوں، لرزتے ہاتھوں اور پیروں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا. پریشانی کے عالم میں اپنی چادر کے پلو سے اس کے ماتھے سے پسینے کے قطروں کو خشک کرتے ہوئے حلیمہ اسے تسلی دیتے ہوئے کہنی لگی. 

“بیٹا  کیا پھر وہی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟ ” 

عدنان نے خوفزدہ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے فقط اثبات میں سر ہلا دیا.

“کل میں تمہیں عامل بابا کے پاس خود لیکر جاؤں گی. خدا نے ان کے دم دعا میں بڑا اثر رکھا ہے اور ان کے تعویذ کا کاٹا پانی نہیں مانگتا”۔

اسی اثناء میں عدنان کی تین بڑی بہنوں میں سے دو، جو دوسرے کمرے میں سو رہی تھیں، بھی بیدار ہو کر کمرے میں آکے پوچھنے لگیں تو اماں  انہیں واپس اپنے کمرے میں جانے کا اشارہ کرکے تحکمانہ انداز میں کہنے لگیں۔

” کچھ نہیں، کچھ نہیں ہوا. بس ننھا نیند میں ڈر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور تم سب واپس جاکر اپنے کمرے میں سو جاؤ ” 

اس پر وہ سب زیرلب بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔

عدنان اپنے ماں باپ کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا. ہوتا بھی کیوں نہیں، تین بہنوں کے بعد خدا کے فضل اور عامل بابا کی دُعاؤں سےجو اس دنیا میں آیا تھا. یوں تو وہ بھلا چنگا لگتا تھا اور سارا دن کھیلتا بھی رہتا تھا لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے کبھی کبھار نیند میں ڈر جایا کرتا تھا اور جاگنے کے بعد بھی کافی دیر تک بے سدھ پڑا رہتا جیسے کسی نے اس کے جسم سے جان نکال دی ہو. گھنٹہ آدھ گھنٹے کے بعد کہیں جا کر دوبار سے اسکی طبیعیت سنبھلنی شروع ہوجاتی تھی. اسکے والدین اس بارے میں کافی پریشان رہتے تھے کیونکہ دوروں کے درمیان کا وقفہ کم ہوتا جا رہا تھا. اس کا والد اسلم رات کو چوکیداری کرتا تھا اور دن کو کسی سرکاری آفیسر کے گھر کام کرتا تھا تب جا کر مشکل سے گھر کا گزارہ ہوتا تھا لیکن پھر بھی کچھ پیسے گھر کے خرچے بچا کر انہوں نے پہلے پہل محلے کے ڈاکٹر سے علاج کرانے کی کوشش کی، اس سے کچھ نہ کچھ افاقہ تو ہوا لیکن مکمل صحتیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس پر ڈاکٹر نے اسے شہر کے ایک بڑے اسپیشلسٹ  کو دکھانے اور دوائیں نہ چھوڑنے کی ہدایات دے کر رخصت کردیا۔ لیکن بڑے ڈاکٹر کی فیس چونکہ ان کی پہنچ سے باہر تھی اسی لئے اس کی ماں اسے عامل بابا کے پاس لے گئی. 

اگلے دن جب وہ عامل بابا کے ڈیرے پر پہنچے تو دیکھا کہ ہجرے کے باہر صحن میں لوگوں، خصوصاً عورتوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی جہاں سب  اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے. عدنان اور اسکی اماں بھی اسی قطار کے آخر میں بیٹھ گئے. کچھ دیر انتظار کے بعد عدنان نے اکتا کرصحن کا سرسری جائزہ لیا. صحن کے وسط میں ایک بڑے درخت کے سائے میں ایک لڑکی جو تقریباً اس کی ہم عمر تھی، زمین پر بیٹھی اپنی گڑیا سے کھیل رہی تھی. اماں کے پاس سے آہستہ سے کھسک کر وہ اس لڑکی کے پاس جاکر بیٹھ گیا. لڑکی اسی طرح اپنی گڑیا سے کھیلنے میں مگن تھی. عدنان درخت کے سائے کی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کرتے ہوئے اس لڑکی سے کہنے لگا

“میری بہن کے پاس بھی ایسی ہی ایک گڑیا ہے”

لڑکی نے چونک کر پہلی مرتبہ اس کی طرف حیرت سے دیکھا اور دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہوگئی. اس کے معصوم چہرے اور گوری رنگت پر تھکی تھکی سی آنکھوں کے گرد پڑے کالے حلقے بہت عجیب لگ رہے تھے.. تھوڑے سے توقف کے بعد وہ اپنی گڑیا کے کپڑے درست کرتے ہوئے عدنان سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ 

“کیا اس کے بال بھی سنہری ہیں اور اس کے کپڑے سرخ رنگ کے ہیں ؟” 

“ام م م ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی سے پوچھ کے بتاؤں گا” 

عدنان نے کچھ سوچ کر جواب دیا. 

“کیا آپ میرے بابا کے پاس تعویذ لینے آئے ہیں؟ “

لڑکی نے دوبارہ، عدنان سے پوچھا. 

“جی، وہ اماں لائی ہیں” 

“کیوں؟” 

“وہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی ناں،  نیند بھی نہیں آتی” 

“تمھیں بھی نہیں آتی؟”

حیرت سے کہہ کر لڑکی دوبارہ اپنے گڑیوں کے کھیل میں مگن ہوگئی۔

عدنان دوبارہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک اماں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جو اسے اپنےپاس بلا رہی تھی کیونکہ اگلی باری ان کی تھی۔  اپنی باری پر جب وہ ہجرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک چھوٹے، نیم تاریک کمرے میں اگربتی اور دیسی عطر کی تیز اور قدرے ناخوشگوار خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور کمرے کے کونے میں ایک لکڑی کے تختے کے عقب میں ایک چھریرے بدن والا شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے کرخت چہرے پر گہری سرمہ لگی ہوئی آنکھیں اور مہندی لگی داڑھی ایک پراسرار سا تاثر دے رہی تھی۔ مائی حلیمہ کی بپتا سننے کے بعد اس نے عدنان کو اپنے پاس بٹھایا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اس کی دونوں آنکھوں میں زور سے پھونکیں ماریں اور اسے منہ کھولنے کا کہا۔ جیسے ہی اس نے اپنا منہ ذرا سا کھولا، عامل بابا نے اس کے منہ کے اندر اپنی تھوک کی ایک چھوٹی سی پچکاری مار کر دوبارہ سامنے پڑے تختے پر رکھے کاغذ کے ٹکڑوں پر کچھ لکھنے لگا۔

 عدنان جو عامل بابا کی اس “عملیات” کے لیے بالکل تیار نہیں تھا، بےساختگی سے اپنی آستین  سےاپنے لبوں سے تھوک کے  چھینٹے  صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ عامل بابا کی بدبودار سانسوں اور کمرے میں پھیلی، قوت شامہ پر ناگوار گزرنے والی تیز خوشبو سے اسے کراہت اور متلی سی محسوس ہونے لگی۔ اور وہ بے چینی سے باہر جانےکی ضد کرنےلگا۔ مائی حلیمہ اسے زبردستی ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ بیٹھ جانے کا کہنے لگی۔ 

جانے سے پہلے عامل بابا نے کاغذ کے کئی ٹکڑے مائی حلیمہ کو بشمول کچھ ہدایات اور تاکید کے دیے۔ ہجرے سے نکلنے سے پہلے مائی نے نذرانے کے طور پر کچھ رقم عامل بابا کے غالیچے کے نیچے رکھی اور عدنان کو لے کر گھر کی راہ لی۔

شام ہوتے ہی عدنان کے گلے میں موجود  تعویزوں میں ایک اور تعویذ کا اضافہ ہو چکا تھا اور رات سونے سے پہلے مائی حلیمہ نے عدنان کو پانی میں گھول کر ایک تعویذ پلادی۔ عدنان نے بڑی مشکل سے اپنی ابکائ روک کر وہ پانی حلق سے نیچے اتارا۔ وہ رات اور اگلی کئی راتیں جب خیر خیریت سے گزر گئیں تو مائی حلیمہ عامل بابا، اس کے تعویزوں اور “عملیات” کی اور بھی معتقد ہوگئی۔ ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیں بند کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہر نماز کے بعد چادر پھیلا پھیلا کر عامل بابا کو دعائیں دینے لگیں۔ 

ہفتہ دس دن بھی نہیں گزرے ہوں گے  کہ اچانک ایک رات عدنان کو دوبارہ سے دورہ پڑا۔ اس بار دورے کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔ کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد کہیں جا کر اسے آرام آیا۔ خوش قسمتی سے اسکا والد اسلم گھر پر تھا اور اگلے دن جس آفیسر کے گھر کام کرتا تھا اس کی اتنی منت سماجت کی کہ اسکا دل پسیج گیا اور اس نے کہیں سے سفارش کرواکے بڑی مشکلوں سے بڑے ڈاکٹر سے ننھےعدنان کو دکھانے کی نہ صرف اپائنٹمنٹ لے لی بلکہ فیس بھی معاف کروادی۔ اسلم تشکر کے جذبات سے مغلوب ہو کر رہ گیا ورنہ بڑے ڈاکٹر کی فیس اسکے پورے مہینے کی تنخواہ کے برابر تھی۔

اپائنٹمنٹ والےدن اسلم کو چھٹی نہ ملنے کے باعث مجبوراً مائی حلیمہ کو عدنان کو بڑے ڈاکٹر کے پاس دکھانے کے لیے لے جانا پڑا۔ رکشہ سے اتر کر دونوں بڑے ڈاکٹر کے عظیم الشان، پرائیویٹ کلینک میں داخل ہوئے تو مائی حلیمہ یکدم مرعوب سی ہو کر رہ گئی۔ رسیپشن پر نام لکھوانے کے بعد ان دونوں کو مردانہ انتظار گاہ کے ساتھ ہی زنانہ ویٹنگ روم میں بیٹھنے اور اپنی باری کا انتظار کر نے کا کہا گیا، جہاں پہلے سے عورتوں اور بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔

عدنان کچھ دیر مائی حلیمہ کے پہلو سے لگ کر بیٹھا رہا پھر انتظار کی طوالت سے اکتا کر آہستہ سے کھسک کر ساتھ والے مردانہ انتظار گاہ میں جھانکنے لگا جہاں مرد مریضوں اور اس کے ساتھ آنے والے دوسرے افراد بیٹھے بیزاری سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ 

کمرے میں نظر دوڑاتےہوے، اچانک اس کی نظر ایک چھ سات سال کی لڑکی پر پڑی جو اپنی گڑیا کو گود میں لیے ایک چھوٹے سے سٹول پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے کپڑے درست کررہی تھی۔ اسکے معصوم چہرے اور گوری رنگت پر تھکی تھکی سی آنکھوں کے گرد پڑے کالے حلقے آج بھی بہت عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس لڑکی کو دیکھ کر عدنان کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق سی جاگی اور جاکر اس لڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔

“میں نے باجی سے پوچھا تھا اس کی گڑیا کے بال کالے اور کپڑے سنہری ہیں”

“اچھا”

لڑکی نے یہ کہہ کر تھکی تھکی نظروں سے اسے دیکھا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ 

عدنان دوبارہ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے حیرانی سے کہنے لگا۔

“آپ کس لئے بڑے ڈاکٹر کے پاس آئئ ہیں”

لڑکی تھوڑی سی ناگواری سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔

“میرے سر میں جو ہر وقت درد رہتا ہے اور رات کو نیند بھی نہیں آتی اس وجہ سے بابا مجھے بڑے ڈاکٹر کے پاس لائے ہیں”

عدنان مزید کچھ کہنے والا ہی تھا کہ اچانک اسے پاس ہی ایک مردانہ ہیولے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے آتے ہی بڑے دلار سے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور ایک مانوس سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائ۔

“زینب بٹیا ۔۔۔۔ چلو ہماری باری آگئی”

اس شخص نے گرمی کے باوجود اپنے سر اور گردن کے گرد ایک چادر لپیٹ رکھی تھی جس سے صرف اس کا آدھا چہرہ دکھ رہا تھا، سرمئی آنکھ کے نیچھے ادھ کھلی سرخ داڑھی۔ 

دفعتاً عدنان کو اپنے چہرے اور ہونٹوں پر تھوک کے چھینٹے پڑتے محسوس ہونے لگے۔ اپنی ابکائی روکنے کی ناکام کوشش کرتے اور آستین سے اپنا چہرہ ملتے ہوئے اس نے دوسرے کمرے میں بیٹھی مائی حلیمہ کی جانب دوڑ لگادی۔  

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *