وہی لڑکی … زہرا علی

 وہی لڑکی 

  زہرا علی

گلی کے نکڑ پر چائے کا وہ پرانا ہوٹل اُن دوستوں کی پسندیدہ  جگہ تھی۔   شام کی چائے وہ روز وہی پیتے تھے۔   ان  دوستوں کے  گروپ کی خاصیت یہ تھی کہ وہ جب بھی اکھٹے ہوتے ان کے پاس زیر بحث ایک سے بڑھ کر ایک  موضوعات ہوتے۔  سماجی، سیاسی، ادبی، مذہبی یا کسی بھی ہلکے پھلکے مو ضوع  پر بحث و  مباحثے سے وہ کبھی نہیں کتراتے تھے۔  مظہر اور مدثر کے علاوہ باقی سارے دوست مختلف گلی محلّوں سے آتے تھے۔  اُن  دونوں کے گھر ایک ہی گلی میں تقریبآ آمنے سامنے ہی تھے ۔  وہ سارے  کالج میں  اکٹھے  پڑھتے تھے۔  چائے کے  ہوٹل پر اکھٹا ہونے کا آ ئیڈیا مظہر اور مدثر  نے ہی  باقی دوستوں کو دیا تھا۔  اور یوں وہ جگہ ان  چاروں کی شام کی چائے کا مستقل ٹھکانہ بن گیا ۔ 

اُس چھوٹے سے چائے کے ہوٹل  میں گنتی کی کچھ میزیں اور کرسیاں رکھی ہوتی تھیں  جو ان دوستوں  کے گروپ کے علاوہ  کچھ اور لوگوں کی آمد سے کچھا کھچ  بھر جاتیں۔  ہوٹل کے مالک جان علی کاکا ایک خوش مْزاج اور ملنسار آدمی تھے۔  مظہر، مدثر اور ان کے دوست کاکا  کے سب سے پسندیدہ گاہک تھے جو موقع ملتے ہی ان کی بحث میں  حصّہ دار بننے کی کوشش کرتے۔   بالکل ان دوستوں کے گروپ کی طرح  چار  لڑکوں کا ایک اور گروپ انہی کی طرح روز وہاں چائے پینے آتا تھا۔ چائے پینے کے علاوہ  ان  چاروں  لڑکوں کے  پسندیدہ مشاغل  میں مختلف قسم کے کھیل، جیسے تاش،  لڈّو اور  شطرنج  وغیرہ شامل تھے۔ عموماً چائے کے ہوٹل کے کُھلنے پر آنے والے وہ چاروں پہلے گاہگ ہوتے تھے لہذا اُنہوں نے کھڑکی کے پاس اپنی  مخصوص  نشستیں بنا لی تھیں جہاں سے باہر کا منظر بہت صاف دکھائی دیتا تھا۔ چائے پیتے اور کھیل کھیلتے وقت وہ  باہر سے گزرنے والی ہر عورت اور لڑکی پر کڑی نظر  رکھے  اُن پر تنقید اور تبصرے کرنا اپنا فرض  سمجھتے تھے۔ لڑکیوں کے لباس،  جوتے ، چال چلن  اور حلیے پر اپنے  خیالات  کا اظہار کیے بغیر اُن کا وہاں  بیٹھنا جیسے محال تھا۔   اُن کی اسی عادت سے مظہر کو سخت چڑ تھی  اور وہ دبے لفظوں میں کئی مرتبہ اسکا اظہار بھی کر چکا تھا  لیکن وہ لڑکے اپنی عادتوں سے باز آنے و الے نہیں تھے۔

 گرمیوں کی نسبت سردیوں کی شاموں کو چائے کے ہوٹل  پر معمول سے زیادہ رش لگ جاتا۔    شدید سردیو ں کی اُس ایک شام کو جب سارے دوست چائے پینے کاکا کی ہوٹل پر پہنچے تو ہوٹل کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہ  ملی۔  بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے پر اُنہوں نے  اپنا کا پروگرام کینسل کر نے کا سوچا جس کے بعد گروپ کے باقی  لڑکوں نے تو اپنی راہ لی لیکن مظہر اور مدثر  ہوٹل کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر سردی کی اُس شام میں  گرم گرم چائے کے مزے لینے لگے۔   خنک اور  تند ہواؤں کے سبب گلی میں لوگ  نہ ہونے کے برابر تھے۔  موسم کی شدت اور ہواؤں کی تُندی نے زور پکڑا تو  اُنہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی چائے کے کپ اندر لے جانے کا سوچا۔

ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے  وہ  اندر جانے کے لیے اُٹھے ہی تھےکہ اُسی وقت  ہواؤں کے تیز و تند جھونکوں  سے ایک  بڑی سی چادر  کہیں سے اڑ کر عین  ہوٹل کے سامنے  رکھی میز اور کرسیوں کے بیچ  آکر پھنس گئی۔  ابھی وہ دونوں طے بھی نہیں کر پائے تھے کہ وہ  چادر کس سمت سے آئی ہو گی کہ  بے ہنگم طریقے سے  بھاگتی  اور زار و قطار روتی ہوئی  ایک  نوجواں لڑکی ہوا کے تیز جھونکوں کی مانند دوڑتی ہوئی آئی اور اپنی چادر ڈھونڈنے کے لیے  دیوانہ وار ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ مارے پریشانی کے سامنے کرسیوں کے بیچ پھنسی  خاک میں لت پت وہ چادر اُسے نظر نہیں آ رہی تھی۔  وہ مسلسل روئے  جارہی تھی۔  اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے  کا جل بہہ بہہ کر اس کے   گالوں پر پھیل رہا تھا جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کی پشت سے صاف کر رہی تھی۔ شکل و صورت سے کوئی ہندو، بنگالی  یا  کسی اور قوم و قبیلے کی لگنے والی وہ  بلا کی حسین اور خوبصورت  لڑکی!  گہری  سانولی رنگت پر بڑی بڑی آنکھیں اور اُن میں بھرا کاجل۔  وہ  گہرے کالے  رنگ کے بکھرے بالوں میں بھی کیا قیامت ڈھا رہی تھی ۔ چست اور تنگ کپڑوں کے سبب اس کی  سڈول جسامت  اور قد کاٹھ  ہر لحاظ سے اُس کی خوبصورتی کی گواہی دے رہی تھی۔ وہ دونوں آنکھیں پھاڑے اس   لڑکی کو گھور گھور کر دیکھ  رہے تھے۔  اچانک اس لڑکی کی نظر  اپنی چادر پر  پڑی۔  وہ  ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اُس پر لپکی، بنا جھاڑے اور  الٹے سیدھے کا فرق دیکھے بنا اسے اوڑھا، ان  دونوں لڑکوں کے پاس سے گزرتی  ہوئی اُن پر ایک سرسری نگاہ ڈالی اور بھاگتی ہوئی اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔  اس اچانک واقعے سے وہ دونوں  کچھ لمحوں کے لیے اپنی اپنی جگہوں پر   جیسے جم کر رہ گئے تھے۔ ہوٹل سے باہر  نکلتے ہوئے دو آدمیوں کی آوازوں سے وہ اپنے منجمد حصّار سے باہر نکلے تو مدثر نے خاموشی توڑی!

’’ ارے یار مظہر ، تم نے دیکھا اس بلا کو، کیا غضب کی لڑکی تھی! اف یار دیکھی تم نے  ظالم کی آنکھیں ۔۔۔۔ اور  وہ  تم نے دیکھے اس کے!” مدثر نے مظہر کے کانوں میں  سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ وہ تو اس  کی اس بڑی سی چادر میں چھپے ہوئے تھے، دیکھ ہی کہاں پا تے ہم اس حسینہ کو! اگر آج  یہ ہوائیں مہربان نہ  ہوتیں تو۔۔۔۔۔ مدثر جانے کیا بولتا رہا لیکن مظہر نے ایک گھورتی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنا کپ باہر میز پر چھوڑ  کر تیز تیز قدموں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔  اس  لڑکی کے خیالوں میں کہیں گم تیز تیز قدموں سے چلتے مظہر کسی طرح اپنے گھر  پہنچا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا اور اگلے دن تک کمرے سے باہر نہیں نکلا۔

اگلے دن وہ  سب پھر سے شام کو  چائے پینے ہوٹل پہنچے تو خلاف معمول ہوٹل کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ انہیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ اُن سب دوستوں نے اگلے دن  ملنے کا وعدہ کر کے اپنی اپنی راہ لی لیکن اگلے دن بھی ہوٹل نہ کُھلا اور جب  مسلسل دو تین ہفتے یہی معمول رہا تو سب کو فکر لاحق ہوئی ۔ باہمی صلاح و مشورے سے یہ طے پایا کہ مظہر اور مدثر جان علی کاکا کی خیریت دریافت کرنے جائیں گے۔  بہت تگ ودو کے بعد  جان علی کاکا کے گھر کا پتا لگوا کر وہ دونوں وہاں پہنچے۔ دروازے پر دستک دی توتھوڑی دیر بعد دروازہ کُھلنے پر سامنے جو لڑکی کھڑی نظر آئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ اُس دن  ہوٹل کے پاس اپنی کھوئی ہوئی چادر کے لئے  رونے والی وہی لڑکی تھی۔ مظہر اور مدثر کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ دراصل وہ جان علی کاکا کی ہی بیٹی تھی۔ کاکا کی خیریت اور ہوٹل کے بند  پڑے رہنے پر  معلوم ہوا کہ کاکا کی بیوی کی طبیعت کی خرابی کے سبب انہیں  علاج کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا  پڑا  ہے ، اُن کی واپسی پر ہی ہوٹل کھلے گا۔  واپسی پر دونوں  حیرت سے  ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ وہ لڑکی جان علی کاکا کی بیٹی کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ جہاں تک  انہیں علم تھا  کاکا کی کوئی اولاد ہی نہیں تھی۔ اور اچانک سے یہ نوجواں لڑکی خود کو اُن کی بیٹی بتا رہی تھی۔  شکل و صورت سے تو وہ کسی لحاظ سے بھی جان علی کاکا کی بیٹی نہیں لگ رہی تھی۔ دل میں سوالوں کا انبا ر لیے دونوں  نے اپنی راہ لی۔  ایک یا ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد ہوٹل دوبارہ کھلا  تو  ایک عرصے بعد کھلنے سے  ہوٹل  میں گاہگوں کا رش پہلے سے نسبتا کم رہنے لگا۔ فارغ رہنے کے سبب اب کاکا خود بھی  آکر ان دوستوں کی گروپ میں بیٹھ کر  بحث و مباحثے میں شامل ہو جاتے یا گپّے  ہانکتے۔

  ایک دن مدثر کے استفسار پر  جان علی کاکا نے بتایا ، ’’گھر پر ملنے والی لڑکی ہماری اپنی اولاد تو نہیں لیکن  ہماری بیٹی کی طرح ضرور  ہے۔ سالوں پہلے  جب ہم سانگھڑ ( صوبہ سندھ کا علاقہ) میں رہتے تھے تب  ہمارے گھر کے  پاس ہی  ایک کرائے کے مکان  میں جبار نامی   ایک غریب آدمی اپنی مسیحی بیوی کیساتھ  رہتا تھا۔  سلیمہ اُنہی کی بیٹی تھی۔ بیٹی کی پیدائش کے کچھ مہینے بعد ہی ایک حادثے میں جبار کا  انتقال ہو گیا۔ اُن دنوں  سلیمہ بہت چھوٹی تھی ، وہ  اکیلی عورت اپنا اور بیٹی کا پیٹ پالنے کے لیے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے جاتی تو ننھی سلیمہ کو  ہمارے پاس چھوڑ جاتی۔ میری  اولاد کو ترسی بیوی خوشی  خوشی  صبح سے شام تک  سلیمہ  کو اپنے پاس رکھتی اور یوں ہمارے محرومیوں میں خوشیوں کا سامان کرتی وہ ننھی پری  ہماری  اپنی اولاد جیسی ہو گئی تھی۔  کام کے سلسلے میں ہمیں وہ جگہ چھوڑ کر یہاں آنا پڑا لیکن آبائی علاقہ ہونے  کی وجہ سے سانگھڑ  سےہمارا رشتہ کبھی نہ ٹوٹا، ہمارے سارے رشتے دار اور خاندان والے وہی رہتے  تھے اس لئے آنا جانا لگا رہتا  تھا۔   آخری مرتبہ   چار سال پہلے ہم وہا ں ہو آئے تو معلوم ہوا کہ وہ  مسیحی عورت انتہائی کسمپرسی  میں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہی تھی۔   اُن کا گزر بسر  بھی آس  پڑوس کے لوگوں کی مدد سے ہو رہا تھا۔  پرانی جان پہچان کے سبب ہم اُن  دونوں ماں بیٹی کو اپنے ساتھ یہاں لے آئے لیکن کچھ ہی مہینوں میں سلیمہ کی ماں کا بھی انتقال ہو گیا۔  تب سے ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے کیونکہ ہماری طرح اس کی امی کی بھی یہی خواہش تھی۔ ۔  شاید اللہ تعالی کو ہمیں اسی  طرح اولاد کی نعمت  سے نوازنا تھا جس کے لیے ہم اللہ میاں   کے بہت شکر گزار ہیں۔’’  کاکا نے اہنی بات مکمل کی تو مدثر نے مظہرکی  طرف دیکھا۔ دونوں کو یوں لگا جیسے انہیں اپنے  سوالوں کے جوابات مل چکے ہوں۔

ان واقعات کو کئی سال گزر گئے۔  اُس گروپ کے سارے دوست پڑھائی اور کام کاج کے سلسلے میں  ایک  دوسرے سے الگ ہو گئے۔ مدثر اعلی تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا اور مظہر نے ایم ۔ بی۔ اے کی تعلیم مکمل کر کے  ایک بینک میں نوکری کرلی۔  مظہر  کی نوکری دوسرے شہر میں ہونے  کی وجہ سے وہ اپنا پرانا مکان بیچ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ نئے شہر منقل ہو گیا پھر کچھ عرصے بعد اُس کی شادی بھی ہوگئی۔ کام کاج، نیا شہر، نیا گھر اور  نئی نئی شادی کی خوشیوں میں گم وہ  اپنے پرانے دوستوں کو فراموش ہی کر بیٹھتا اگر  آفس کے ایک معمول والے دن مدثر کی اچانک آمد نہ ہوتی۔ مظہر  کو مدثر کو پہچاننے میں ذیادہ دقت تو نہیں ہوئی لیکن مدثر کا حلیہ پہلے کی نسبت کافی بدل چکا تھا۔  وہ   پہلے سے کہیں زیادہ وجیہہ اور خوبصورت نوجوان بن چکا تھا۔  مظہر اس کی  شخصیت میں آنے والے خوبصورت نکھار سے  متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔  مدثر نے پڑھائی کے بعد لندن میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی اور اب سالوں بعد دونوں دوست یوں اچانک ملنے پر خوشی  سے نہال تھے۔ مدثر مظہر سے دوبارہ ملنے کا وعدہ لے کر چلا گیا۔

آفس سے چھٹی والے دن  مظہر مدثر سے ملنے اُس کے گھر گیا  تو دونوں کی خوب محفل جمی۔ سننے  اور سُنانے کو  دونوں کے پاس بہت کچھ تھا۔ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔  سالوں پرانی دوستی، کالج کے زمانے کی باتیں اورچائے کے ہوٹل پر  سارے دوستوں کے قصے سُنا سُنا کر دونوں خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ باتوں  باتوں میں مظہر نے  مدثر کو مشورہ دیا کہ وہ  اب کے وطن لوٹ ہی آیا ہے تو  شادی کر کے ہی واپس چلا جائے۔ شادی کی بات  سُن کر مدثر نے اپنی جیب سے  اپنا موبائل فون نکالا اور مظہرکو  ایک انگریز گوری لڑکی کی تصویر دکھائی ۔

مظہر کے پوچھنے پر مدثر نے بتایا ،’’ یہ ماریہ ہے ، لندن میں ہم  دونوں ایک ساتھ ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اچھی  ذہنی ہم آہنگی کے  سبب ہماری جلد ہی خوب دوستی ہوگئی جو بعد میں محبت میں بدل گئی۔ پچھلے دو سالوں سے ہم نے اپنا خود کا فلیٹ  خرید رکھا ہے۔ تب سے ہم ایک ساتھ ہی رہ رہے ہیں اور جلد ہی شادی کا سوچ رہے ہیں ۔ یہاں پر آنے کا مقصد یہی ہے کہ  ماں باپ کو اس شادی پر راضی کر سکوں،  لیکن وہ ایک غیر مسلم لڑکی سے میری شادی پر تیار نہیں ہیں جبکہ میں ایسی شادی پر راضی نہیں جس میں میری اپنی مرضی شامل نہ ہو۔  وہ میری شادی  یہیں کسی لڑکی سے کرانے کا سوچ رہے ہیں، فی الحال گھر میں یہی معاملہ زیرِبحث ہے۔ ’’

مدثر  کی بات سُن کر مظہر کسی سوچ میں پڑ گیا۔   مظہر کی خاموشی کو دیکھ کر مدثر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ ارے یار مظہر ۔۔۔ ایک اور بات تو میں تمہیں بتانا ہی بھول گیا، یہی قریب ایک سال پہلے  بھی میرے ماں باپ نے   میری شادی کے لیے ایک لڑکی پسند کر لی تھی، لیکن مجھے جیسے ہی پتا چلا کہ وہ کونسی لڑکی ہے تو میں نے  فوراً صاف صاف  انکار کردیا۔  ارے میں کیا تو بھی ہوتا تو ، تو بھی انکار کر دیتا یار۔ ’’ مدثر نے اپنی بات میں  مظہر کی تائید مانگتے ہوئے  اُس کی طرف  ایک  امید  بھری نگاہ ڈالی۔

  ’’اچھاکون  تھی وہ لڑکی؟’’ مظہر  نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’  تمہیں اس دن   ہوٹل کے پاس  ہونے والا  وہ واقعہ یاد ہے کیا اور وہ  لڑکی  ؟  کیا نام تھا اس کا؟ یاد نہیں آر ہا  ابھی ، ارے وہی  لڑکی اس دن جس کی چادر ہوا میں اُڑ کر بالکل ہمارے سامنے آئی تھی۔ بالکل  ہمارے سامنے ہی تو بے پردہ ہوئی تھی  وہ ۔ کتنی بے عزتی ہوئی تھی بےچاری  کی چچ چچ چچ ،  تم نے خود بھی تو دیکھا تھا  زار و قطار روتے ہوئے اس لڑکی کو اپنی بے عزتی پر ۔’’  مظہر پھٹی آنکھوں اور حیرانی سے مدثر کو دیکھ رہا تھا۔

مدثر نے اُس کی حیرانی  دیکھ کر اپنے دماغ پر ئےور ڈالتے ہوۓ کہا،’’ ارے تمہیں یاد کیسے نہیں ہے  وہ لڑکی، نام اُس کا  یاد نہیں آرہا ابھی لیکن  ۔۔۔( مدثر نے سر کُجھاتے  ہوۓ سوچا) ارے ہاں  چائے کے  ہو ٹل کے مالک کی  بیٹی بھی تو تھی وہ، اب تو یاد آیا ناں؟؟؟’’ 

مظہر  نہایت حیرانی  اور بے یقینی سے مدثر کی باتیں سُن رہا تھا۔  اُسے  یقین نہیں آرہاتھا کہ وہ اس کا اپنا ہی دوست  مدثر بول رہا تھا اور جو کچھ ہی لمحوں پہلے اپنے موبائل فون پر انگریز لڑکی کی تصویر دکھا کر  فخریہ انداز میں اُسے بتا رہا تھا کہ  وہ دونوں پچھلے دو سالوں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور  آیندہ شادی کا سوچ رہے ہیں۔ مدثر کے  اس قسم خیالات سے وہ کبھی واقف نہ تھا۔ کیا یہ سچ میں وہی  لبرل اور پڑھا لکھا  مدثر ہی تھا یا مدثر کے حُلیے میں چائے کے ہوٹل پہ آنے والے ان لفنگے لڑکوں میں سے کوئی ایک جس کی نظرمیں لڑکیوں کی عزت و آبرو محض اُن کے اپنے چھوٹے سے ذہن کی تخلیق کردہ پیداوار تک محدود ہوتی ہے۔ مظہر کو واقعی کچھ سمجھ  نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا، کیوں اور کیسے یا  کچھ بھی کہے۔

  اُسکی خاموشی پر مدثر نے  بات کا رُخ موڑتے ہوئے  پوچھا، ’’ ارے یار۔ میری شادی کی بات تو چھیڑ دی لیکن  اپنی شادی پر دعوت بھی  نہیں دی۔ اگر تم ا پنی شادی  پر  دعوت دیتے تو میں شاید کچھ مہینوں پہلے آجاتا۔ لیکن کوئی بات نہیں۔، تم سناو اپنی شادی  شدہ زندگی کا حال۔ کیسی چل رہی ہے تمہاری  زندگی؟ خوش تو ہو تم !؟ کون ہے میری بھابھی؟  شادی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے یا ماں باپ کی مرضی سے؟ ’’ مدثر نے   سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

  وہ چُپ ہوا تو مظہر نے  جواب دیا، ” میری شادی  کوتقریباً چار مہینے ہو گئے ہیں۔ لڑکی میری اپنی پسند کی ہے اور الحمدُللہ بہت اچھی اور خوش باش زندگی گزر رہی ہے میری۔” 

مظہر کے جواب پر مدثر نے حیرانگی سے پوچھا، ’’ تمہاری اپنی پسند کی لڑکی؟؟  تم نے کب  اپنے لیے لڑکی پسند کرلی؟؟ مجھے تو یہی لگتا تھا کہ تم نے کسی لڑکی کو  آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوگا،  چھپے رستم نکلے تم تو آں مظہر۔۔’’ مدثر نے شرارتاً کہا تو مظہر نے ایک ہلکی مسکراہٹ پر ہی اکتفا کیا۔  

کون ہے  وہ لڑکی اور کیا  نام ہے میری بھابھی کا ؟؟ مدثر نے پوچھا۔

’’سلیمہ’’ مظہر نے مختصراً جواب دیا۔

’’ سلیمہ! کون سلیمہ؟؟’’ مدثر نے پھر سے سوال کیا۔

“چائے کے ہوٹل والے  جان علی کاکا کی بیٹی۔ سلیمہ” مظہر نے جواب دیا ۔

زہرا علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *