مجھے تم سے بہت پیار ہے ۔۔۔ اکبر علی

مجھے تم سے بہت پیار ہے

اکبر علی

یہ ان دنوں کی یادداشت ہے جب میں پہلی کلاس میں تھا۔ میرے ماموں اور چچا نے مل کر ایک بیکری کھول رکھی تھی جہاں آرڈر پر بازار کی بہت ساری دکانوں کے لئے بسکٹس اور کیک وغیرہ بنائے جاتے تھے۔ دکانوں سے آرڈر لینا، ان تک سامان پہنچانا اور پھر رقوم کی وصولی میرے والد صاحب کی ذمہ داری تھی۔ ان کے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی جس پر زین کے پیچھے سامان رکھنے کے لئے انھوں نے ایک لکڑی کا باکس بنوا رکھا تھا۔ جیسے آج کل پیزہ ڈلیوری والوں کی موٹرسائیکل پر ایک ڈبہ سا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح کا ایک بڑا لکڑی کا ڈبہ انھوں نے بھی اپنی سائیکل پر لگا رکھا تھا جس میں وہ دکانوں کے لئے سامان لے جایا کرتے۔ یہ کاروبار شاید کوئی چھ مہینے یا سال بھر چلا ہوگا۔ پھر ناتجربہ کاری کے باعث ٹھپ ہوکر رہ گیا۔
لیکن یہ یادداشت لکھنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ میرے سکول سے گھر کا فاصلہ شاید کوئی چار یا پانچ کلومیٹر کے لگ بھگ ہوگا جو میں پیدل چل کر طے کیا کرتا تھا۔ میرے ابو کی کوشش ہوتی تھی کہ دکانوں کو مال کی ڈلیوری کا وقت اور میرے سکول کی چھٹی کا وقت ایسا ہو کہ وہ واپسی پر مجھے سکول سے لے سکیں۔

واپسی کا سارا راستہ وہ مجھے لکڑی کے اس باکس میں بٹھاتے اور خود کبھی تھک جاتے تو اتر کر وگرنہ پورا رستہ سائیکل چلاتے اور مجھ سے باتیں کرتے رہتے۔ میرے سکول کے بارے میں پوچھتے اور اسی طرح کی دیگر معمول کی باتیں یعنی آج کیا سیکھا، کیا پڑھا وغیرہ وغیرہ۔
مجھے یاد ہے جب سکول کے کچھ لڑکے مجھ پر ہنستے ہوئے فقرے کستے کہ دیکھو یہ لڑکا لکڑی کے کریٹ میں گھر جاتا ہے، تب میں جھینپ جاتا  اور شرمندگی محسوس کرتا۔
آج فیس بک پر ایک تصویر دیکھی جس میں ایک باپ ریڑھی پر اپنے سکول جاتے بچے کو بٹھائے ریڑھی چلا رہا ہے۔ مجھے اپنا باپ یاد آگیا۔ مجھے وہ تمام دن یاد آگئے جب میرے ابو مجھے سائیکل پر بٹھائے کس قدر محبت اور شفقت سے میرے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک قبائلی باپ ہوتے ہوئے بھی وہ میرے ہم عصروں کے والدین سے کس قدر مختلف تھے۔ میرے ساتھ اور بعد میں میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کس قدر شفقت سے بھرپور اور دوستانہ تھا۔
میری پہلی جماعت سے لے کر میری سب سے چھوٹی بہن کے کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم تک وہ کس قدر مصروف اور کوشاں رہے۔
مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس اور درد رہے گا کہ ان کی زندگی کے آخری چھ سال میں ان سے دور تھا۔ ہجرت کا درد کیا ہے کوئی “ہم بے وطنوں” سے پوچھے۔
میرا درد اس وقت زیادہ شدت اختیات کر لیتا ہے جب مجھے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میں کبھی اپنے ابو کا شکریہ ادا نہیں کرسکا اور کبھی کُھل کر ان سے یہ نہ کہہ سکا کہ

ابو! مجھے تم سے بہت پیار ہے۔

اکبر علی
228 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *