نمبرز کی دوڑ یا نفسیاتی مریض بنانے کی مشین ۔۔۔ فدا حسین

نمبرز کی دوڑ یا نفسیاتی مریض بنانے کی مشین

تحریر: فدا حسین

”تم سب پاس ہو“

یہ شستہ اور بارعب آواز آج سے لگ بھگ کوئی پچاس سال قبل گورنمنٹ پرائمری سکول مری آباد کے تمام طالب علموں کو مخاطب کرتے ہوئے ہمارے انتہائی شفیق ہیڈ ماسٹر ”راجہ محمد اکرم صاحب“ کی تھی۔ یہ فیصلہ اُنہوں نے طالب علموں کے پژمردہ چہروں کو غور سے دیکھنے کے بعد دیا تھا جو باقی اساتذہ کے نکالے گئے امتحانی نتیجوں کے تقریباً الٹ تھا۔ یاد نہیں پڑتا کہ بندہ اس وقت کونسی کلاس میں تھا۔ البتہ طالب علموں کی خوشی سے اوچھل کود آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

پہلی نظر میں جماعت پنجم کے انچارج راجہ صاحب کی پروقار شخصیت اور مردانہ وجاہت پر بعینہٖ قائداعظم محمد علی جناح کا گمان گذرتا تھا، جس کا دیدار ہمیں ہرصبح ہمارے ہی استقبال میں کھڑا نصیب ہوتاتھا۔ سارے بچے ایک یا دوکتاب، ایک تختی اور قلم دوات اور ایک سلیٹ پر مشتمل ہلکے پھلکے بستے کاندھوں پر لٹکائے انہیں سلام کرکے گذر جایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی کسی بچے پر تشدد نہیں کیا، البتہ ایک کالے رنگ کا موٹا گول ڈنڈا جسے وہ ”رول“ کہا کرتے تھے، بغل میں دبائے عموماً کلاسوں کا  دورہ  کیا کرتے تھے۔ یہاں میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ راجہ صاحب نے شاید پوری زندگی اپنا رول کسی بچے پر آزمایا نہیں ہوگا۔ آنجناب کے عہد میں ہر طالبعلم کا یہ دعویٰ ہوتا کہ پانچویں جماعت تو وہ آنکھیں بند کرکے پاس کرلے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے اپنے عہد میں کسی بچے کو فیل نہیں کیا اور نہ ہی پانچویں جماعت کے کسی طالبعلم کو اس کے حاصلکردہ نمبروں سے آگاہ کیا۔ بس یہ کہہ کر نتائج کا اعلان ختم کرتا

”تم سب پاس ہو“

رزلٹ کے روز سارے بچے ایک جیسے خوش نظر آتے۔ جب ہم نے پانچویں جماعت پاس کی، شاید وہ یا اس سے اگلا سال راجہ صاحب کا آخری سال رہا ہوگا۔ کیونکہ بعداً نکالئ گئی میری سند پر ”ناصر علی صاحب“ کی تصدیق ہے۔ جس پر بنا تذکرہ حاصلکردہ نمبر اور ڈویژن فقط یہ جملہ جلی الفاظ میں درج ہے

”تصدیق کی جاتی ہے، کہ فدا حسین ولد حاجی عبدالعلی جس کا نام سلسلہ نمبر 582 میں درج ہے، سکول ہذا میں جماعت پنجم تک طالب علم رہا۔ جس کی تاریخ پیدائش سکول ریکارڈ کے مطابق 5-2-1963 پانچ فروری سن انیس سو تریسٹھ ہے“ اور ساتھ میں دستخط و مہر ہیڈ ماسٹر صاحب ثبت ہیں۔“

یقینا آن زمان ایسی ہی سند لائق سے لائق ترین سمیت مجھ جیسے کم فہم طالب علم کے لیے ایک جیسی تھی۔

مگراین زمان میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب سارا سال اپنے نونہالوں کو صبح سویرے ناتواں کاندھوں پر کتابوں سے ٹھنسے ہوئے بیگ لٹکائے سکول جاتے دیکھتا ہوں، جسے اٹھانے کے لیے شاید ایک قلی درکار ہو۔ مجموعی تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی کی قوتِ خرید سے بیرون ان کتابوں کو محسن انسانیت کے داعی ازراہ منافع وکمیشن والدین پر زبردستی فروخت کر رہے ہیں جن میں قیام پاکستان سے آج تک وہی دقیانوسی طرزِتعلیم بھرپور انداز میں براجمان ہے اور ایک طالب علم کے فیصدی نمبرز انہی کتابوں کو رٹنے کے صلے میں ملتے ہیں۔

میری نظر میں حاصلکردہ نمبروں کی دوڑ طلباء و طالبات کی تعلیم میں کسی زہرقاتل سے کم نہیں۔ اس دستور کو ناچیز ”نفسیاتی مریض بنانے کی مشین“ سے اس لیے تشبیہ دیتا ہے کیونکہ کلاس میں فقط ایک ہی طالبعلم اس چوٹی کو سر کرلیتاہے جس سے مذکورہ طالب علم احساس برتری جبکہ باقی احساس کمتری اور احساس محرومی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یوں سکول کے تمام طلباء یا طالبات اس نفسیاتی عارضے کا شکار بن کر رہتے ہیں۔ ”جو کسی صورت درست نہیں۔“

جب ہم اپنے بچوں کے رزلٹ کارڈز پر زائد فیصدی نمبرز دیکھتے ہیں تو ہمارا جی باغ باغ ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہم یہ سوال کرنا بھول جاتے ہیں کہ بچے کو یہ نمبر اس کی کونسی لیاقت کے عوض میں ملے ہیں؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں سکول میں کون کون سے مضامین کس طرز میں پڑھائے جاتے ہیں؟ ہماری نئی نسل کے سامنے ان کی درسی کتابوں میں گذشتہ 72 سالوں سے دُنیا بھر کے خونخوار، لٹیرے، دھتکارے  ہوئے اور سرپھرے فاتحین کو ”ہیرو“ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حاصلکردہ نمبرز ہمارے طلباء و طالبات کی ذہنی ارتقا میں پستی کا پیمانہ ہے۔ (یعنی: جتنا زیادہ رٹا، اُتنے زیادہ نمبر)

خامہ پرداز عموماً اپنے بچوں کی کتابوں کا سطحی مطالعہ کرتا رہتا ہے جس کے بعد ذہن میں یہ سوال ہلچل مچا دیتا ہے کہ ان کتابوں یعنی فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی میں غیرفزیکل، غیرکیمیکل اورغیر بائیولوجییکل قصے کہانیاں اور اقوال زریں کا کیا کام جنہیں نئی نسل کے ننھے ذہنوں پر طوعاً و کرہاً تھونپا جا رہا ہے؟ ہمارے ماہرین تعلیم یہ کر کیا رہے ہیں؟ یقین جانیے کہ پوری دُنیا میں ”قصیدہ خوانی“ کا اگر مقابلہ ہو تو ہماری قوم سے کوئی نہ جیت پائے۔ کیونکہ اس میدان میں ہمارا 72 سالہ مستند تجربہ ہے۔

اسی بنا پر وفاقی محکمہ تعلیم سے میری دست بستہ درخواست ہے کہ علم کتابوں کے وزن بڑھانے سے نہیں بلکہ معیارتعلیم بلند کرنے سے آتا ہے۔ اس لیے کتابوں کی شکل ”غیرضروری اور غیرملکی ہیروز“ کا بوجھ نہ ہمارے طالبعلموں کے کاندھوں پر براہ راست ڈالے اور نہ ان کے ننھے اذہان پر۔ اگر پھر بھی مقصود ہو تو اپنے ہیروز کا تذکرہ ضرور کریں۔ تاکہ ہماری نئی نسل مطلق صداقتوں سے آشنا ہو۔ میری درخواست ہے کہ کم از کم پرائمری سطح تک حاصلکردہ نمبروں کی دوڑ والی ”نفسیاتی مریض“ بنانے کی اس مشین کو فی الفور بند کیا جائے جس کی موجودگی میں ہمارامعاشرہ ایک بیمار معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔

فدا حسین
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *