محمد ابراہیم شہید ہزارہ ۔۔۔ اسحاق محمدی 

محمد ابراہیم شہید ہزارہ

تحقیق و تحریر: اسحاق محمدی 

محمد ابراہیم شہید ہزارہ 5 مارچ 1965 کو ایک معزز ہزارہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد حاجی علی رضا اخلاقی حقیقی معنوں میں اسم با مسمیٰ تھے۔ ظاہری اخلاقی اوصاف کے علاوہ وہ ہر کسی کے دکھ درد اور خوشیوں میں پیش پیش رہنے والے انسان تھے۔ ابراہیم شہید ہزارہ نے ابتدائی تعلیم جامعہ امامیہ پرائمری سکول سید آباد اور میٹرک یزدان خان ہائی سکول سے حاصل کی اور ڈگری کالج سریاب روڑ میں داخل ہوگئے جو اس وقت ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک مظبوط گڑھ تھا۔

اس وقت وہاں شادروان عالم مصباح، رحیم چنگیزی، ناظریوسفی، اسماعیل چنگیزی، ایوب نویان، نسیم جاوید، میجر جواد چنگیزی سمیت سو کے قریب ہزارہ سٹوڈنٹس زیر تعلیم تھے۔ ابراہیم شہید ہزارہ نے اپنے بڑے بھائیوں نادرعلی ہزارہ اور احمدعلی ہزارہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہزارہ ایس ایف میں شمولیت اختیارکی اور بہت جلد اپنی فطری قائدانہ خوبیوں کی بدولت ڈگری کالج یونٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ وہ نہایت ہنس مکھ اور خوش باش نوجوان تھے۔ کوہ نوردی اوراسکاؤٹنگ کے دلدادہ تھے۔ نوجوانوں کو اکٹھا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ابراہیم شہید ہزارہ نے اپنے ان تمام اوصاف کوفیڈریشن کو آگے بڑھانے کے لیے اس خوبی سے استعمال کیا کہ ڈگری کالج نہ صرف ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن بلکہ ہزارہ قومی تحریک کا ایک مظبوط قلعہ بن گیا۔ سیاسی و ثقافتی تقاریب کی ایک نئی ریت چل پڑی۔ تقریباً ہرمہینہ ایک فنکشن ہونے لگا جس کے ساتھ ہزارہ گی ڈرامہ و دمبورہ کی محفلیں لگتیں۔ حسین علی یوسفی شہید نے اپنے ڈراموں کا آغاز یہی سے کیا۔ انہی تقاریب نے ہزارہ طلباء کو آپس میں جوڑنےکے لیےسیمنٹ کا کام کیا اور اس وقت کی ایران نواز امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سمیت کسی کو بھی ہزارہ طلباء میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملا۔ حالانکہ انقلاب ایران کو کامیاب ہوئے کئی سال بیت چکےتھے۔

ایران نواز تنظیمیں بھاری ایرانی رقوم اور مذہب کی آڑ لیکر ہزارہ جوانوں کو ورغلانے کے درپے تھیں۔ ہر چند ماہ بعد تبلیغی اجتماع یا دیگر بہانوں سےپاکستان کے مختلف شہروں کے دورے کرائے جاتے۔ ہر سال انقلاب ایران کی سالگرہ کے نام پر ایران یاترا بھی کروائے جاتے جبکہ اسی دوران ایران نواز ملاؤں کے ذریعے قوم پرستی اور قومی سیاست کو “کفر” ثابت کرنےکے لیےایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا۔ ایرانی اسٹیبلشمنٹ سے آئی او اور آئی ایس او کی قربت کا یہ عالم تھا کہ شیخ جمعہ اسدی نے جامع امامیہ کے ایک حصے کو ان کے حوالے کر رکھا تھا اور وہاں ہر وقت ایرانیوں کی آمد ورفت جاری رہتی تھی۔ لیکن ان تمام لالچ و ترغیبات کے باوجود ان کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی جن کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ ابراہیم شہید ہزارہ کی ذات تھی جو شب و روز میدان عمل میں موجود تھی۔ جبکہ نظریاتی محاذ پر عالم مصباح شہید تھے جن کا سامنا کرنے سے مخالفین کے بڑے بڑے طرم خان گھبراتے تھے۔ اس وقت ڈگری کالج سریاب روڑ میں ہزارہ طلباء کا سرکل سب سے بڑا ہوا کرتا تھا۔ ان سرکلز میں روزمرہ کے سیاسی حالات کےعلاوہ مختلف علمی موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی۔ کئی شعبوں کی بڑی ہزارہ شخصیات انہی سرکلز کی پیداوار ہیں جیسے عالم مصباح شہید، قادرنایل، احمدعلی کہزاد، پروفیسرعبدالحسن، پروفیسرعبداللہ محمدی، میرحسین چنگیزی، نسم جاوید، پروفیسررحیم چنگیزی، قادریوسفی، ناظر یوسفی، امداد نویان اور کئی دیگر۔

یقینی طورپر ان پے درپے ناکامیوں سے مایوس ہوکر ایران نواز تنظیموں نے اپنے آقاؤں کے آشیرواد سے ابراہیم شہید ہزارہ کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چناچہ 19 جولائی 1986 کو آئی ایس او کے غنڈوں نے ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن ڈگری کالج یونٹ کی طرف سے نئے آنے والے طلباء کےلیے لگائے گئے “خیرمقدمی” اسٹال پر حملہ کردیا۔

اس ضمن میں ایچ ایس ایف کے سابقہ سینئر رکن جناب محمد نسیم جاوید اپنے آرٹیکل “کابوس” میں لکھتے ہیں

“ابراہیم ہزارہ اور ڈگری کالج کے ساتھی بلڈنگ کی دیوار کے ساتھ کرسی پر بیٹھے تھے اور نئے آنے والے طلباء کو داخلہ لینے میں مدد اور راہنمائی کر رہے تھے۔  آہستہ آہستہ وہاں نئے طلباء کا رش لگ رہا تھا۔ میں نے اپنا چوَٹ اتار دیا تھا جس نے مجھے سخت تنگ کر رکھا تھا۔ ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک دیوار کے قریب لڑائی شروع ہوگئی۔ کسی نے کہا ’’ آئی ایس او کے لڑکوں نے حملہ کر دیا ہے‘‘۔

سب دوڑ کر اُس طرف چلے گئے اور میں اپنا چوَٹ پہننے لگا اور سب سے آخر میں دوڑتا ہوا وہاں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ ایک لڑکے کے ہاتھ میں خنجر ہے اور وہ ’’خادم حسین کراٹے‘‘ پر وار کر رہا ہے۔ وہ سرخ سفید رنگ کا ہزارہ لڑکاتھا جس کا نام ضامن تھا اور سید آباد کے کسی ڈاکٹر کا بیٹا تھا ، خادم حسین کراٹے نہایت چستی سے پنتیرا بدل بدل کر اُس کا وار روک کر اور کِک مار کر اُسے اپنے آپ سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے ضامن کو دبوچ لیا اور اُس کے ہاتھ سے خنجر لینے کے لئے اُس کے ساتھ زور آزمائی شروع کردی۔ اسی دوران بلڈنگ کی سیڑھیوں پر چار پانچ لیکچرار نظر آئے اور انہوں نے ہمیں ڈانٹ کر کہا ’’اوئے یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے ضامن کے ہاتھ سے خنجر لے کر لیکچرار کو دکھایا اور کہا  ’’یہ دیکھئے سر خنجر سے حملہ کر رہا ہے‘‘ ضامن فوراً وہاں سے سڑک کی طرف بھاگ گیا میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھ آئی ایس او کے پانچ چھ لڑکے تھے جو منتظرمہدی بچے حاجی حسین کی گاڑی میں آئے تھے۔

میں نے خنجر کو دور پھینک دیا۔ تب میں نے دیوار کے پاس سیمنٹ پر بہت سارا خون جما ہوا دیکھا جیسے کسی نے دنبہ زبح کیا ہو۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ خون کس کا ہے،  دیوار کی نکڑ سے آگے کیاری میں جھانکا تو وہاں ایک نوجوان اوندھے منہ پڑا ہوا تھا۔ میں دوڑ کر اُس کے قریب پہنچا اُس کے ارد گرد کالج کے طلباء کھڑے تھے۔  میں نے اُس کا چہرہ اُٹھا کر دیکھا۔ وہ ابراہیم ہزارہ تھا۔ اس کی آخری سانسیں چل رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: ’’کس نے مارا تم کو؟‘‘

’’عباس تبتی نے‘‘

یہ اُس کا آخری جملہ تھا۔ میں نے چیخ کر کہا: ’’جاؤ کوئی رکشا لے کر آؤ‘‘ طلباء میں ہلچل مچ گئی اور ان میں سے کئی لڑکے سڑک کی جانب دوڑ پڑے”۔

یوں 19 جولائی 1986 کے ایک سیاہ دن میں ایرانی ایجنٹوں نے ہزارہ قوم کے ایک جری فرزند کو دن دہاڑے ڈگری کالج کے احاطے میں ہزارہ طلباء کی رہنمائی کے جرم میں شہید کردیا۔ وہ پاکستان میں آباد ہزارہ قوم کے پہلے سیاسی شہید بنے۔ ابراہیم شہید ہزارہ کو پورے عزت و احترام کے ساتھ ہزارہ قبرستان میں چھ جولائی 1985 کے شہداء کے احاطہ میں اس واضح پیغام کے ساتھ دفنا دیا گیا کہ “اُنکے قاتلین بھی ایرانی ایجنٹ ہیں اور ابراہیم شہید ہزارہ کے قاتلین بھی وہی ایرانی ایجنٹ ہیں”۔ در اصل ان کے پیچھے بھی وہی سیاسی ملا ہی تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کا اضافہ کردیا تھا۔ نامزد قاتلین عباس تبتی، قیوم سعیدی، حبیب اللہ سعیدی، منتظر مہدی، قاسم شاہ اور ضامن کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ قیوم سعیدی جو اس وقت آئی ایس او کا صدر تھا، ضامن کے ساتھ ایرانی قونصلیٹ کے تعاون سے راتوں رات ایران فرار ہوا جبکہ باقیوں کے بارے میں محمد نسیم جاوید لکھتے ہیں کہ

” وہ 19 جولائی1986 ء کا دن تھا۔ اگلے دن کے تمام اخبارات میں ڈگری کالج سریاب روڈ کا واقعہ چار کالمی سرخی میں چھپ گیا۔ اس کے چار دنوں تک علمدار روڈ میں ایک بھی آئی ایس او کا لڑکا نظر نہیں آیا ۔ وہ سب انڈر گراونڈ ہوگئے تھے۔ چار دنوں کے بعد سٹاف کالج کے چیک پوسٹ سے کینٹ پولیس والوں نے ایک سوزوکی پک اپ کو پکڑ لیا جس کا ڈرائیور انور دراز تھا۔ سوزوکی میں سوار مردوں نے زنانہ برقعے پہن رکھے تھے۔ اُن برقعوں میں سے آئی ایس او کے چار لڑکے برآمد ہوئے جو کوہ مردار کے پچھلے راستے سے کوئٹہ سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں ابراہیم شہید کا قاتل عباس تبتی، سید قاسم شاہ، منتظر مہدی اور حبیب اللہ زنانہ چادروں اور برقع میں چھپ کر کوئٹہ سے نکل رہے تھے۔ اگلے دن کے اخبارات میں یہ خبر بھی شہ سرخیوں میں چھپ گئی تھی”۔

اس واقعہ میں ایران کے ملوث ہونے کے بارے میں اس وقت ہزارہ ایس ایف کے مرکزی صدر جناب حسن رضا چنگیزی اپنے آرٹیکل “وہ اب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے” میں لکھتے ہیں کہ:

” ابراہیم ہزارہ کے قاتلین کی صف میں شامل مرکزی ملزم عباس جو عباس تبتی کے نام سے معروف تھا اپنے ساتھی قاسم وغیرہ کے ساتھ برقعے میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا لیکن ضامن اور قیوم سعیدی کسی طرح فرار ہوکر ایران پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں ان دونوں “غازیوں” کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا گیا۔ ضامن کو اس کی “خدمات” کا یہ صلہ ملا کہ اسے پہلی فرصت میں ایرانی پاسپورٹ پر یورپ بھجوا دیا گیا جہاں اسے ایرانی سفارت خانے میں مستقل ملازمت دی گئی جبکہ قیوم سعیدی وہ واحد ہزارہ تھا اور ہے جس کو بطور انعام ایران کی شہریت دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق ضامن آج بھی کسی مغربی ملک میں ایرانی سپاہ پاسداران کے سایہ عاطفت میں زندگی گزار رہا ہے جبکہ قیوم سعیدی اب بھی ایران میں بیٹھ کر “اسلام کی خدمت” میں مصروف ہے”۔

ابراہیم شہید ہزارہ کیس میں بلاشبہ محمد نسیم جاوید نے زبردست جرات اور استقامت دکھائی، سیاسی، مذہبی اور طایفگی دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر تک ثابت قدم رہے۔ پیشیوں پر پیشی بھگتنا اور پھر ان پیشیوں کے دوران مذہبی جنونی قاتلوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے ” فتح کے نشان کے ساتھ نعرہ تکبیر” کو برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چونکہ قتل کا واقعہ بی ایریا میں ہوا تھا اس لیے کیس جرگہ میں چلا۔ جرگہ کے ممبران سوائے ڈپٹی کمشنر سبھی بڑے قبائلی لوگ تھے، اس لیے رشوت، سفارش اور سیاسی دباؤ یقینی تھا۔ کیس کے آخری دنوں میں ایران نواز گروپوں اورسیاسی ملاؤں نے ایک طرف جرگہ ممبروں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کردیا تودوسری طرف صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو دباؤ میں لانےکے لیے پاکستان بھر سے اپنے کرائے کے لوگوں کے ذریعے کچہری کے سامنے بھوک ہڑتالی ڈیرہ ڈال دیا۔

اس وقت تنظیم نسل نو ہزارہ اور ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے دوستوں نے انتھک محنت کی۔ ہم ایک طرف جرگہ اراکین جن میں ارباب نواز کانسی، سردار دینار خان کرد، کوئی بازئی صاحب وغیرہ تھے، سے صرف اس مقصد سے ایک ملاقات کے لئے گھنٹوں ان کے دروازوں پر انتظار کرتے رہتے  کہ ان کا کوئی قبائلی “عذر” باقی نہ رہے ورنہ وہ پہلے ہی اپنے ضمیر کا سودا کرچکے تھے۔  جبکہ دوسری طرف تمام توجہ سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں پرمرکوز رکھی۔ خوش قسمتی سےیہاں ہماری کوششیں کافی کامیاب رہیں اور تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور روز ان کے حمایتی بیانات آنے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھوک ہڑتال کے ابتدائی دنوں کے دوران ایران نواز گروہوں کے بیانات اور پمفلٹس ان دھمکی آمیز جملوں میں آتے تھے کہ “چند گلیوں میں محدود دشمنوں (تنظیم، ایچ ایس ایف) کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم پورے پاکستان میں تمھارا جینا حرام کردیں گے”۔ لیکن جب سیاسی پارٹیوں کے بیانات ہمارے حق میں آنے لگے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے اور انہیں کوئٹہ سے بھاگنا پڑا۔ اس طرح ہم ان کا سیاسی دباو کم کرنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن رشوت  کی طاقت کو نہ توڑ سکے۔ قاتلین میں سوائے عباس تبتی (جسے دس سال سزا ہوئی) باقیوں کو ہلکی سزائیں ملیں۔ لیکن اس کے باوجود اخلاقی اور سیاسی حوالے سے نیشنلسٹوں کی جیت ہوئی۔ قاتلوں کو سزائیں نہ ہوتیں تو وہ چھ جولائی کے مجرمین کی طرح سیاسی دباو ڈال کر آزاد ہوجاتے اور مزید بے گناہوں کا خون کرنے لگ جاتے۔ سزا و جزا سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ ابراہیم شہید ہزارہ کے مقدس خون کےاعجاز سے یہ دونوں ایران نواز تنظیمیں آئی او اور آئی ایس او ہمیشہ کیلئے کوئٹہ سے ریشہ کن ہوئیں۔

ان کی پشت پر سیاسی ملاؤں کی حمایت کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ شیخ توسلی و شیخ اسدی بنفس نفیس تحفہ تحائف (رشوت) کے ساتھ جرگہ ممبروں کے پاس گئے اور بعد ازآں جب بھی کسی گروپ نے ہزارہ نیشنلسٹ اوران سیاسی ملاؤں کے درمیان ثالثی کی کوشش کی ان کی طرف سے”ابراہیم شہید ہزارہ” کے باقیماندہ قاتلوں قیوم سعیدی اور ضامن کی معافی کی شرط رکھی گئی، جبکہ ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد ان کو سیدھا جامعہ امامیہ لایا گیا اور بڑی بے شرمی سے پھولوں کے ہار پہنائے گئے، دھواں دھار تقریریں ہوئیں اور دنیاوی و اخروی اجرو ثواب کی بشارتیں دی گئیں۔ لیکن ہزارہ عوام نے ان قاتلوں کو یکسر مسترد کردیا چنانچہ یا تو وہ کوئٹہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا آج تک عوام سےمنہ چھپائے پھر رہے ہیں جبکہ خود ابراہیم شہید ہزارہ، نئی نسل کیلئے لیجنڈ بنکرامرہو گئے۔ ان کے نام پرمختے اور ترانے لکھے گئے اور وہ پاکستانی ہزارہ قوم کے پہلے سیاسی شہید کہلائے۔ چنانچہ انکی لیگیسی تین دہائیوں کے بعد آج بھی قائم ہے۔

بناء کردند چہ خوش رسمِ بخاک و خون غلطیدن

خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را !

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *