ابراہیم شہید، جن کے ذکر کے بغیر کوئٹہ میں ہزارہ قوم کی سیاسی تاریخ نامکمل ہے ۔۔۔ اکبر علی

ابراہیم شہید جو گورنمنٹ ڈگری کالج کے طالبعلم تھے، انیس جولائی انیس سو چھیاسی کو کالج ہی کے احاطے میں قتل کردیے گئے۔ قاتلین، ایران نواز تنظیم، آئی۔ایس۔او کے ارکان تھے۔ اصل واقعے کی تفصیلات چشم دید گواہان، لکھ چکے ہیں لہذا تفصیل میں جائے بغیر ایک اور اہم نکتے پر کچھ کہنا چاہوں گا۔ 
کسی بھی ملک میں اگر خونی انقلاب برپا ہو تو اس کے اثرات ہمسایہ ممالک پر پڑنا لازمی ہے۔ 
اسی طرح ایرانی انقلاب کے فوری بعد، اس کے اثرات پاکستان میں بھی بہ شدت دیکھے گئے۔ کوئٹہ کا علمدار روڈ خصوصی طور پر ایرانی پراپیگنڈے کا نشانہ تھا۔ علاقے میں باقاعدہ ایرانی سکول قائم کیے گئے جہاں عوام کی معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بچوں کو مفت کتابیں، پنسل، قلم اور بستے وغیرہ کے ساتھ ساتھ یونیفارم اور جوتے بھی مفت فراہم کیے جاتے تھے تاکہ غریب والدین کو اپنے بچے ایرانی سکولوں میں داخل کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ 
پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح، کوئٹہ میں خاص طور پر ایرانی کلچرل سینٹر قائم کیے گئے جو “خانہ فرہنگ” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کوئٹہ کے اس خانہ فرہنگ میں سکول کے بچوں کو ورغلانے کیلئے انھیں ایرانی فلمیں اور بعض اوقات کارٹون فلمیں وغیرہ دکھائی جاتی تھیں اور چھوٹے بڑے تحائف اور مٹھائیاں وغیرہ بھی دیے جاتے تھے۔ آئے روز نت نئی تقریبات منائی جاتی تھیں جن میں سکولوں کے بچوں کی شرکت یقینی بنانے کیلئے ان میں پنسلیں اور کتابیں وغیرہ تقسیم کرکے انھیں ایرانی ولایت فقیہی تعلیمات کی جانب راغب کیا جاتا تھا۔ 
کوئٹہ کی ہزارہ قوم پر یہ اس وقت ایرانی مذہبی سٹیبلشمنٹ کا شدید ترین ثقافتی و سیاسی حملہ تھا جسے عوام کی اکثریت بروقت نہ سمجھ سکی۔ 
لیکن انہی دنوں، معاشرے میں ایسے افراد بھی تھے جو ایرانی مُلّاووں کے مذموم ارادوں کو بھانپ چکے تھے۔ 
تنظیم نسل نو ہزارہ اور ہزارہ طلبا کی تنظیم، ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن، اس خطرے کا احساس کرچکی تھیں جو آئندہ سالوں میں ہزارہ قوم کو درپیش ہونے والی تھی۔ اس ضمن میں علاقے میں قائم ایرانی سکولوں کے خلاف احتجاج کیے گئے، دیواروں پر ایرانی ثقافتی و مذہبی یلغار کے خلاف چاکنگ کی گئی۔ 
ایچ ایس ایف ڈگری کالج یونٹ کے چئیرمین، ابراہیم ہزارہ بھی عوامی آگاہی مہم میں پیش پیش تھے۔ 
ایرانی آخوندوں کی حکومت اور ان کے مقامی ملازم مُلا، منبر رسول (ص) کا استعمال کرکے عوام کو یہ باور کرارہے تھے کہ جو بھی ولایت فقیہہ کے خلاف ہیں، منافق اور کمیونسٹ ہیں (اشارہ تنظیم اور ایچ ایس ایف کی طرف تھا)۔ سادہ لوح عوام کے اذہان میں بٹھایا جارہا تھا کہ خمینی ہی امام مہدی کے نائب ہیں اور وہی شفاعت کا وسیلہ ہیں۔ 
ہم جانتے ہیں کہ ہر ملک اور خطے میں عوام کی اکثریت، سادہ مذہبی اور خوش باور ہی ہوتی ہے۔ کوئٹہ میں بھی نماز جمعہ کے خطبات کے توسط سے گھر گھر میں نیشنلسٹ اور روشن فکر تنظیموں کے خلاف تکفیری حربے استعمال کئے گئے اور لوگوں کی یہ باور کرانے کی کوششیں کی گئیں کہ ایچ ایس ایف اور تنظیم، کمیونسٹوں کا ٹولہ ہیں جو دین کے دشمن ہیں۔ لوگوں کے مذہبی جذبات ابھارنے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جانے لگے۔ 
ان حالات میں چند با احساس افراد اور تنظیموں کی عوام بیداری مہم اور جدوجہد، ایرانی مذہبی گماشتوں کو اپنا دشمن بنانے کیلئے کافی تھی۔ چنانچہ آئی ایس او کے توسط اور جامعہ امامیہ کے پلیٹ فارم سے منظم سازشیں شروع کی گئیں تاکہ کسی طرح ان روشن فکر جوانوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔ 
بالآخر مذہبی جنونیوں کی کوششیں، ابراہیم ہزارہ جیسے آگاہ اور باضمیر انسان کے قتل پر منتج ہوئیں۔ 
ظاہری طور پر تو ہم نے دیکھا کہ ابراہیم ہزارہ کو قتل کردیا گیا لیکن حقیقت میں ابراہیم ہزارہ کے خون نے عوام میں بیداری کی وہ لہر پیدا کی جو آئی ایس او کے غنڈوں سمیت تمام ایرانی پروپیگنڈہ فیکٹری کو علاقے سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کردیا۔ 
ابراہیم ہزارہ کے نام لیوا اب بھی فخر کے ساتھ ابراہیم ہزارہ کا دن مناتے ہیں لیکن آئی ایس او کے غنڈے اب بھی ایران وغیرہ میں منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ 
یہ کوئٹہ کی ہزارہ قوم کے پہلے سیاسی شہید، ابراہیم ہزارہ ہی کے خون کی بدولت ہے کہ ان نام نہاد ولایت فقیہیوں کے لئے معاشرے میں جگہ نہیں۔ 
آئی ایس او کی نابودی کے بعد اب ایرانی مذہبی سٹیبلشمنٹ نئے مُلّاووں کو تیار کررہی ہے۔ کوئٹہ اور یورپ و آسٹریلیا کے شہروں میں ان مُلّاووں کی نئی کھیپ اسی مذہبی استعمار اور استحمار کا نمونہ ہے۔ 
نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ابراہیم ہزارہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور عوام کو ان مذہبی عناصر کے ہاتھوں فریب کھانے سے بچائیں۔

اکبر علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *