چھ جولائی 1985 کا خون آشام اور منحوس دن ۔۔۔ فدا حسین

چھ جولائی 1985 کا خون آشام اور منحوس دن

تحریر: فدا حسین

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہماری ”منگول ویڈیو“ کے نام سے دوکان زوروں پر چل رہی تھی۔ میں ہر رات تھکا ماندہ بلا ناغہ دوستوں کے ساتھ اپنی کوٹھی میں تفریحاً لڈو‘ کیرم بورڈ یا تاش کھیلنے ضرور جایا کرتا تھا (تھڑوں پر گپیں ہانکنے کی بجائے ہم دوستوں نے محلے میں ایک دوکان کرائے پر لے رکھی تھی جہاں ہم سب مل بیٹھا کرتے تھے اور اُسے ہم نے ’کوٹھی‘ نام دے رکھا تھا)۔ آن زماں جب چاپلوس، شرارتی اور بیرونی کاسہ لیس ملاؤں کی طرف سے ریلی نکالنے اور اُن کے خوامخواہ کے نعروں اور ارادوں کی ہمیں خبر ہوئی (وہ بھی ظالم ضیائی مارشل لاء اور دفعہ 144 کے باوجود) تو مجھے خطرے کی گھنٹیاں بجتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اُس دور میں کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ ان زمینی خداؤں کے خلاف باتیں کرتا۔ کیونکہ اُن دنوں معاشرے میں زیادہ تر پسماندہ رجعتی سوچ رکھنے والوں کی بھرمار تھی۔ اس لیے میں نے دوستوں کو اشاروں کنایوں میں اُس ’خوامخواہ‘ کی ریلی میں جانے سے منع کردیا۔ دوستوں کے انکار پر مجھے ایک ترکیب سوجھی……کہ کیوں نہ، دوستوں کو دن رات پرانی انڈین فلمیں دیکھنے میں مشغول رکھا جائے، جنہیں دیکھنے کے وہ مشتاق بھی تھے۔ اس طرح میرا مقصد بھی پورا ہوگا اور 6 جولائی کے دن وہ بے خوابی کا شکار رہ کر ریلی میں شرکت بھی نہیں کرسکیں گے۔

خلاصہ سخن، میں نے دوستوں سے کچھ اس انداز میں صلاح مانگی۔ ”کیا آپ لوگ کل بروز جمعہ اور ہفتہ کی رات کو انڈین سپر ہٹ فلمیں دیکھنے کو تیار ہیں؟“ یکدم تمام دوست راضی ہوگئے اور کہنے لگے ”نیکی اور پوچھ پوچھ؟!“۔ اس دوران ہم نے تقریباً نو یا دس فلمیں مسلسل دیکھیں۔ ہفتہ کی صبح (ریلی والے دِن) سب گھوڑے بیچ کے کوٹھی میں بے حال سورہے تھے۔ صبح تقریباً دس بجے میری آنکھ کھل گئی اور میں دوستوں کو اُن کے حال پر چھوڑ کر خاموشی سے وی سی آر، ٹی وی اور فلموں کو اکٹھا کرکے گھر کی طرف چل نکلا۔ بیخوابی سے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے اس لئے گھر پہنچتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگیا۔

”خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ کسی دوست کی شادی ہو رہی ہے۔ یار دوست خوشی میں رائفلوں کے منہ کھولے شدید ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں“……اس دوران کبھی کبھی اپنی والدہ مرحومہ کی سرگوشیاں، جسے بمشکل سن پاتا ہوں، سن رہا ہوں۔ جو کہہ رہی تھی ”خبردار شور نہیں مچانا اُسے سونے دینا“۔ جب فائرنگ شدید ہوجاتی ہے تو میں جاگ جاتا ہوں اس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے۔ بستر چھوڑ کر جب گھر سے باہر نکلتا ہوں، تو دیکھتا ہوں، کہ تمام محلے دار گھروں سے نکل کر گلی میں جمع ہیں۔ ہر طرف وحشت اور کبیدگی چھائی ہوئی ہے۔ میں نے حالات کو اُس طرح نہیں پایا جس طرح چھوڑا تھا۔ محلے داروں سے پوچھنے پر تمام صورتحال سے آگاہ ہوا۔ تب میں کوٹھی کی طرف دوڑ پڑا جہاں پر تالا پڑا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر دوستوں کا احوال جاننے کے لیے میں ہزارہ عید گاہ کی طرف بھاگا، شہداء کی لاشوں میں ہمارا کوئی “کوٹھیوال” نہیں تھا۔ مگر اپنوں کی لاشوں کو دیکھ کر ان جاہل تلچھٹ خوروں کے کیے دھروں پر خون کھولنے لگا۔ ایک طے شدہ سازش کے تحت ”سوائے مسلح افراد کے“ علمدار روڈ کو آمد و رفت کے لیے بالکل معطل کر دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں: یہ اُن زرخرید جاہلوں کے پلان کا آخری اور خونی مرحلہ تھا۔ یعنی: خاکم بہ دہن ”کوئٹہ را لبنان می سازم“ کی پایہ تکمیل! غیر مسلح ہونے کی وجہ سے مجھے مجبوراً لوٹنا پڑا۔ واپسی پر جہاں کہیں تین چار بندے اکٹھے دیکھتا، اُنہیں سننے ضرور ٹھہرتا۔ افواہوں کا بازار بے انتہا گرم تھا۔

شام کو اپنے ایک کوٹھیوال (لیاقت علی مرحوم) سے پتہ چلا، کہ وہ اور سید انور شاہ بیدار ہوتے ہی کوٹھی کو تالا لگا کر اُس خونی ریلی میں شرکت کرنے چل نکلے تھے۔ بقول اُن کے: “حالات خراب ہوتے ہی پولیس کی طرف سے شدید آنسو گیس فائر ہوئے جو بعد میں روبرو فائرنگ میں بدل گئی۔ دورانِ فائرنگ سید انور شاہ جذبات میں آکر سامنے سے آنے والی گولیوں کا جواب پتھروں سے دے رہا تھا۔” وہ رو رو کر کہہ رہا تھا، کہ “اس کے منع کرنے کے باوجود اُنہوں نے گالیاں نکالنا اور پتھر پھینکنا بند نہیں کیا۔ یہاں تک، کہ وہ اپنے نام کی گولی سینے میں سموئے گر پڑا۔ میں نے اُس کے بے ہوش اور زخمی جسم کو گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ لٹا دیا اور میرے شور مچانے پرتین چار نوجوان دیوار سے چمٹ چمٹ کر قریب آئے اور اُسے ہسپتال منتقل کردیا۔” (میرا دوست سید انور شاہ بہت عرصے تک صاحب فراش رہا اور بعد میں اس کا انتقال ہوا)

گو کہ آج بھی معاشرے کا سیاسی اور فکری معیار اُتنا بلند اور اُمیدافزا نہیں۔ پھرچونتیس سال قبل کے حالات کسی طور بھی اطمینان بخش نہیں ہوسکتے تھے۔ اُس وقت لوگوں کے اذہان پر مذہبی رجحان شدت سے حاوی تھے اِس لیے یہ (کاسہ لیس) ٹولہ ہزارہ عوام کی وطن سے وفاداری پر سوالیہ نشان چھوڑ گئے۔ یہاں عام آدمی کو کسی بھی طور دوشی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ہر سال چھ چھ جولائی کے دن جس طرح ان سازشی عناصر پر خون کھولنے لگتا ہے، اُسی طرح اپنے آپ کو بھی مورد الزام ٹھہرا کر کوستا ضرور ہوں اور خود سے پوچھتا ہوں۔ ”اُس روز تم اپنے دوستوں کو محو خواب چھوڑ کر بھلا کیوں چلے آئے تھے؟……تم نے اپنا کام ادھورا کیوں چھوڑا تھا؟…… اگر تم کوٹھی میں موجود رہتے تو شاید آج سید انور شاہ حیات ہوتا۔

آہ!……میرے دل کی یہ خلش مجھے مرتے دم تک ستاتی رہے گی۔

فدا حسین
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *